عزیز نوجوانوں کی خدمت میں رضوی صاحب کی معرفت

حفیظ نعمانی

03 جولائی کے اودھ نامہ کے صفحہ 8 پر ایک مضمون ’’نماز تراویح صحیح بخاری کی روشنی میں‘‘ نظر سے گذرا۔ رمضان شریف میں ہر کسی کا معمول بدل جاتا ہوگا۔ میرا بھی اتنا بدل جاتا ہے کہ میں سحری کے بعد سوکر 9 بجے کے قریب اٹھتا ہوں اور لکھنے بیٹھ جاتا ہوں۔ اس دن کے اخبارات آچکے ہوتے ہیں جن پر ایک سرسری نظر خبروں پر ڈال لیتا ہوں اور بس۔ اس کے بعد قرآن شریف پڑھتا رہتا ہوں۔ پھر ظہر کی نماز کے بعد اخبارات کو پڑھتا ہوں۔ اس مضمون کی ابتدا اس حقیر کے نام سے کی گئی ہے اور موضوع میری جیل میں تراویح میں قرآن عظیم سنانے کو بنایا گیا ہے۔ جس کسی نے بھی وہ مضمون پڑھا ہوگا اسے یاد ہوگا کہ میں نے تراویح پڑھانے یا تراویح کے سنت ہونے کے بارے میں کچھ عرض نہیں کیا تھا بلکہ موضوع یہ تھا کہ ہندوستان کی حکومتوں کو دنیا کے پلیٹ فارم پر قدم قدم پر جو ذلت اٹھانا پڑرہی ہے۔ اس کا سبب وہ بددعائیں بھی ہوسکتی ہیں جو بے گناہ اور بے قصور اللہ کے بندوں کو جیل میں ڈال دیا جاتا ہے اور ایسی دفعات لگادی جاتی ہیں کہ ان کی سنوائی کا حق عدالتوں کو بھی نہیں ہوتا۔ وہ جب یہ کہہ کر مالک دو جہاں سے فریاد کرتے ہیں کہ جنہوں نے جانتے بوجھتے ہمیں بند کرایا ہے اور ہمارے معصوم بچوں اور بوڑھے ماں باپ کو تڑپایا ہے تو انہیں بھی اسی طرح تڑپا دے اور قدم قدم پر ذلیل کر۔
برسبیل تذکرہ تراویح میں بننے والے ماحول کا ذکر آگیا تھا اور یہ کہ ایک تو وہ ماہ مبارک جس میں روزہ داروں کو یہ بھی یقین دلایا گیا ہے کہ افطار سے قبل مانگی جانے والی دعا ضرور قبول ہوتی ہے اور آخری عشرہ کی طاق راتوں میں جو لیلۃ القدر ایک رات ہوتی ہے۔ اس میں جب وہ بے گناہ اپنے لئے دعا اور اپنے دشمنوں کے لئے بددعا کرتے ہیں تو کیوں نہ ان کا اثر ہوتا ہوگا؟ محترم بھائی سید دُرّالحسن رضوی صاحب نے لکھا ہے کہ چند نوجوانوں نے ان سے سوال کئے۔ اور جو کچھ لکھا ہے وہ ان کا جواب ہے۔ رضوی صاحب نے اس کمترین کو جن الفاظ سے نوازا ہے وہ محترم کا حسن ظن ہے۔ اللہ اسے میرے لئے ایسا ہی بنادے۔ یہ انہوں نے صحیح لکھا ہے کہ حضور اکرمؐ رات میں گیارہ رکعات نماز پڑھتے تھے۔ مگر یہ تہجد کے 8 نفل ہوتے تھے اور تین وِتر رمضان کے علاوہ جو دن ہوتے تھے ان میں یہ معمول تھا۔ تراویح حضور اکرمؐ کی حیات مبارکہ میں نہیں پڑھی گئیں۔ یہ بات ٹھیک ہے۔
محترم رضوی صاحب نے یہ بھی پڑھ لیا ہوگا کہ حضورا کرمؐ کے زمانہ میں کلام پاک منتشر حالت میں تھاصرف چند لوگ تھے جن کے پاس ادھورا قرآن تھا اور کافی حضرات تھے جنہوں نے اسے حفظ کر لیا تھا۔ حضور اکرمؐ کے پردہ فرمانے کے بعد چند لوگ مرتد ہو گئے اور سلیمہ بن کذّاب کے نبوت کے دعوے کے بعد کچھ مسلمان اس کی طرف راغب ہو گئے۔ حضرت ابوبکرؓ نے ان سے جنگ کی اس جنگ میں مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی اور دشمن بہت زیادہ تھے پھر بھی قادر مطلق نے مسلمانوں کو فتح دلائی لیکن اس جنگ میں شہید ہونے والے جند مسلمان وہ تھے جو قرآن کے بہت اچھے حافظ تھے۔
اس وقت تک کلام پاک کا کوئی سرکاری نسخہ نہیں تھا اور مکمل قرآن بھی شاید کسی کے پاس نہیں تھا۔ حضرت عمرؓ کو یہ فکر ہوئی کہ اگر قرآن کی حفاظت کا حکومت نے کوئی انتظام نہیں کیا اور حفّاظ شہید یا فوت ہو تے رہے تو کہیں قرآن عظیم بھی توریت و زبور اور انجیل کی طرح نہ ہو جائے۔ انہوں نے حضرت ابوبکرؓ سے عرض کیا کہ امیر المومنین قرآن کے تحفظ پر توجہ فرمائے۔ حضرت ابوبکرؓ نے جواب دیا کہ جب یہ کام رسول اللہ نے نہیں کیا تو میں کیسے کروں؟ حضرت عمرؓ نے اس مسئلہ پر دوسرے انداز سے روشنی ڈالی تو وہ اس پر راضی ہوئے کہ کسی تیسرے کو حکم بنا لیا جائے۔ انہوں نے حضرت زید بن ثابت کو اپنا حکم بنایا۔ جو حضورؐ کے کاتب وحی بھی تھے۔ ان کے سامنے جب مسئلہ رکھا گیا تو انکا پہلا جواب یہی تھا کہ جو کام رسول اللہ نے نہیں کیا وہ ہم کیسے کرسکتے ہیں۔؟
روایت میں حضرت زید کے الفاظ یہ ملتے ہیں کہ واقعی حرج تو مجھے بھی کوئی نظر نہیں آتا لیکن جب رسول اللہؐ نے نہیں کیا تو ہم کیسے کریں؟ آخر میں تینوں متفق ہو گئے اور حضرت ابوبکرؓ نے حضرت زید بن ثابت کو یہ ذمہ داری دی کہ اسے وہ انجام دیں۔ حضرت زید کا بیان ہے کہ میں نے یہ ذمہ داری لے لی۔ پھر جب اسے عملی جامہ پہنانے کا نقشہ بنایا تو مجھے یہ کام جبل احد کے اٹھانے سے زیادہ مشکل محسوس ہوا۔ حضرت ابوبکرؓ نے حضرت زیدؓ کی مدد کے لئے دوسرے چند صحابہؓ کو بھی لگادیا۔ اور اعلان کرادیا کہ جس کسی کے پاس قرآن پاک کا کوئی بھی حصہ تحریری شکل میں ہو اور ’’عرفہ‘‘ کے موقع پر جو تلاوت ہوتی تھی اس سے مقابلہ کر کے تصحیح شدہ ہو یا رسول اللہ کے سامنے پڑھا ہوا ہو تو اسے لاکر اس کمیشن کے سامنے پیش کرے۔
حضرت ابوبکرؓ کے زمانے میں اس طرح قرآن شریف کی تدوین ہوئی۔ اس وقت 20یا 25حافظ قرآن موجود تھے جن میں انصار بھی تھے اور مہاجر بھی وہ سب بھی اپنے حافظہ کی بنیاد پر مدد کر رہے تھے۔ جس اہتمام کے ساتھ اور جتنی شہادتوں کے بعد کلام پاک کی تدوین ہوئی ہے دنیا کی کسی کتاب کی نہیں ہوئی ہوگی۔ اور اس کا نتیجہ ہے کہ پندرہ سو سال گزر جانے کے بعد بھی پارہ، صورت، رکوع، یا آیت تو کیا ایک حرف بھی کم نہیں ہے اور زیادہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن عظیم میں ہی فرمادیا تھا کہ اسے ہم نے اتارا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت فرمائیں گے۔ ‘‘ (سورہ 15آیت 9)
محترم رضوی صاحب نے جو حضرت عمرؓ کے بارے میں لکھا ہے کہ حضرت عمرؓ نے منتشر حالت میں جگہ جگہ نماز پڑھتے ہوئے دیکھ کر فرمایا کہ میں مناسب سمجھتا ہوں کہ ان کو ایک قرأت پر جمع کر دوں اور بعد میں ایک رات میں ایک امام کے پیچھے لوگوں کو دیکھ کر حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ ’’کیا عمدہ بدعت ہے‘‘ تو بدعت کے معنیٰ ہم نے پڑھا ہے کہ نئی بات کے ہیں۔ اور نئی بات اچھی بھی ہوسکتی ہے اور بری بھی۔ اگر اسے اس پہلو سے دیکھیں کہ پاک پروردگار نے جیسے حضرت عمرؓ نے دل میں قرآن عظیم کی حفاظت کے لئے اس کی تدوین کی شکل ڈالی اس طرح یہ بھی ڈالا ہو کہ نفل بھی با جماعت پڑھے جائیں۔ حضور اکرمؐ کے متعلق جو رضوی صاحب نے لکھا ہے کہ آپ کی اقتدا میں نماز پڑھنے والے دوسرے اور تیسرے دن اتنے بڑھ گئے تو چوتھے دن آپؐ اندر سے تشریف نہیں لائے۔ وہ رمضان کے مہینہ کی بات ہے۔ جب حضوراکرمؐ آخری عشرہ میں اعتکاف میں تھے اور اپنے ’’معتکف‘‘ سے باہر تشریف نہیں لائے پھر صبح کو فرمایا کہ مجھے خیال آیا کہ یہ نماز فرض نہ ہو جائے۔
ایک حافظ کی حیثیت سے میں عرض کر رہا ہوں کہ اگر تراویح میں ایک قرآن یا کم کی روایت صحابہ کرامؓ اور ہمارے بزرگوں نے نہ ڈالی ہوتی توکم حافظ ایسے ہوتے جنہیں قرآن اسی طرح یاد ہوتا جیسا اس کا حق ہے۔ جہاں تک آج کی تراویح کا تعلق ہے تو شاید رضوی صاحب نے نہ دیکھا ہو میں نے گزشتہ سال رمضان سے پہلے اور رمضان میں 15بار لکھا تھا کہ تراویح میں قرآن کیسے پڑھنا چاہئے؟ قرآن والے نے فرمایا ہے ’’قرآن کو ترتیل سے پڑھو‘‘ (سورہ73آیت4) جس کے معنی ہیں کہ سننے والے کو ایک ایک حرف سنائی دے۔ کیا رضوی صاحب یا ان نوجوانوں نے جنہوں نے اعتراض کیا ہے میرے مضمون میں یہ نہیں پڑھا کہ جیل میں میں نے 27تاریخ کو ختم کیا۔ کلام پاک کے ہر پارہ میں 16،18یا 19 رکوع ہیں ایک رکعت میں ایک رکوع سننے والے نہ اونگھتے ہیں نہ پاؤں بدلتے ہیں اور میں انہیں قرآن اور اسلام کا دشمن سمجھتا ہوں جو 5پارے والی تراویح کا مسلمانوں کو لالچ دیتے اور اپنی دکان چلاتے ہیں۔ میں نے عمر میں صرف دو بار 2-2پارے مجبوری میں پڑھے ہیں ورنہ ہمیشہ 27ویں شب کو ختم کیا ہے اور ایک رکعت میں ایک رکوع پڑھا ہے۔ یہ وہ ہیں جنہوں نے تراویح کو فرض نماز سے بھی بڑھا دیا ہے جب کہ وہ سنت بھی نہیں ہے۔ صرف قرآن عظیم کی حفاظت کے لئے صحابہ کرامؓ کی جماعت نے اسے شروع کیا اور آج معلوم مسلمانوں کی مسجد میں تراویح پڑھی جاتی ہیں۔ کہیں 8اور زیادہ تر 20رکعات۔ حرمین شریفین کے امام، اما م جنبل کے مسلک کے ماننے والے ہیں۔ سعودی عرب کی دوسری مسجدوں میں 8رکعت تراویح ہوتی ہیں۔ اور رات میں باجماعت تہجد (قیام الیل) اور وتر۔ لیکن حرم شریف اور مسجد نبویؐ میں 20رکعات میں تراویح ہوتی ہیں اور ہمیشہ 29ویں شب کو ختم کیاجاتا ہے۔ میرے وہ نوجوان عزیزی جنہوں نے جیل میں تراویح پڑھنے کو کوئی غلط بدعت سمجھ لیا وہ اس مضمون کو پڑھنے کے بعد فیصلہ کریں کہ کیا میں نے غلط کیا؟ کم از کم میرا ایمان ہے کہ تراویح نوافل باجماعت پڑھنے کی روایت نہ ہوتی تو ایسے تو کروڑوں ہو سکتے تھے جن کو بچپن میں ماں باپ دادا نے حفظ کرادیا لیکن ایسے لاکھوں بھی نہ ہوتے جنہیں یاد رہتا۔ اور ان میں ایک میں بھی ہوتا۔ پروردگار حضرت عمرؓ کے درجات بلند فرمائے۔
کیا محترم رضوی صاحب اس کے بعد بھی فرمائیں گے کہ جو کام حضور اکرمؐ نے نہیں کیا وہ کام مسلمان کیوں کر سکتے ہیں؟ ماننا پڑے گا کہ جس وقت اسلام صرف عرب میں تھا اس وقت بھی خطرہ کو محسوس کرنا اللہ تعالیٰ کا اشارہ ہوگا ورنہ آج جب پوری دنیا میں اسلام پہنچ گیا تو ہزاروں رنگ برنگی زبانوں میں وہ ٹکڑے پرزے کیسے محفوظ رہ سکتے تھے؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔