ایک عید، دو عید

 محمد شاہد خان

جب بھی رمضان المبارک آتا ہے ہم چاند دیکھنے نکل پڑتے ہیں اور جب انتیس روزے پورے ہوتے ہیں تو پوری شدت کے ساتھ آسمان پر چاند کو تلاش کرنا شروع کردیتے ہیں۔
یوں تو کہنے کو تو ہم خیر امت ہیں ، امت وسط ہیں ، ہمارا اللہ ایک ہے ہمارا قبلہ ایک ہے ہمارا رسول ایک ہے ہماری کتاب ایک ہے
لیکن ہمارے تہوار الگ ہیں ، ہماری عید ہمیشہ دودن ہوتی ہے بلکہ بسا اوقت تین دن بھی ہوتی ہے اور ہندستان جیسی حکومتیں حیران ہوتی ہیں کہ کون سے دن عید کی چھٹی دی جائے ،ظاہر ہے کہ ایک دن چھٹی میں ایک طبقہ مستفید ہوتا ہے اور دوسرا محروم ۔
اب لوگ یہ کہیں گے کہ یہ ایک دینی مسئلہ ہے کیونکہ حدیث میں آیا ہے کہ ‘صوموا لرؤیتہ وافطروا لرؤیتہ’اسلئے ہم بغیر چاند دیکھے روزہ یا افطار نہیں کرسکتے ۔
تو کیا اللہ کے رسول کے زمانے میں اس طرح کی رصد گاہیں قائم تھیں جو اس زمانے میں موجود ہیں کیا علوم فلکیات نے اتنی ترقی کی تھے جتنی کہ آج ہے کیاذرائع ابلاغ نے اس زمانے میں اتنی ترقی کی تھی جتنی کہ آج ہے آج دنیا کو گلو بل ولیج کہا جاتا ہے آج دنیا کے کسی کونے میں کوئی واقعہ رونما ہو اسکی خبر پوری دنیا میں پل بھر میں پہونچ جاتی ہے پھر آپ بتایئے کہ اگر اللہ کے رسول کے زمانے میں کوئی مسلم آبادی مرکز اسلام (مدینہ ) سے دوسو یاپانچ سو کیلو میٹر دور رہ رہی ہوتی تو اللہ کے رسول ان کے روزہ و افطار کیلئے کون سا معیار مقرر کرتے۔
آج سائنس نے اتنی ترقی کرلی ہے کہ آئندہ سوسال کاکلینڈر پوری Accuracy کے ساتھ بنایا جاسکتا ہے۔  ہجری کیلینڈر کے گیارہ مہینوں میں ہم چاند دیکھنے کی زحمت گوارہ نہیں کرتے بلکہ سائنسدانوں کے مرتب کردہ کیلنڈرپر ہی عمل کرتے ہیں ، پنج وقتہ نماز کیلئے سائندانوں کا مرتب کردہ نظام اوقات الصلاۃ ( prayer timing ) پر بے چوں چرا عمل کرتے ہیں نماز جمعہ کیلئے ٹاٹ لٹکالر اور اسکا سایہ دیکھ کر ہم نماز شروع نہیں کرتے بلکہ علوم فلکیات کے بتائے ہوئےاوقات میں نماز شروع کرتے ہیں تو پھر یہ دھینگا مشتی اور اختلافات صرف عید الفطر کیلئے کیوں؟
اس چاند دیکھنے کے چکر میں ہر جگہ کنفیوزن پیدا ہوتا ہے، نوکری پیشہ افراد جو عید کی چھٹیوں میں گھر جانا چاہتے ہیں وہ اپنی فلائٹ یا ریل رزرویشن کیلئے حیران و پریشان ہوتے ہیں کیونکہ عید کا دن متعین نہیں ہوتا ہے اور اکثر چھٹی کی تاریخ بدلنی پڑتی ہے ۔
یہ ایک لمحہ فکریہ ہے اس دور میں کہ جب دنیا بہت بدل گئی ہے سائنسی علوم اور علوم دنیویہ نے کافی ترقی کرلی ہے لیکن ہمارا دینی علوم جوں کا توں انجماد کا شکار ہے فکو و تدبر اور اجتہاد کا دروازہ بند ہے اور امت اسلاف پرستی میں مبتلا ہے جس کے نتیجے میں اسلام کی صحیح تعبیر وتشریح جو بدلتے ہوئے حالات کے مطابق ہو ناپید ہے ۔

تبصرے بند ہیں۔