عید: غریبوں سے ہمدردی کا عالمی دن

مفتی عامر مظہری قاسمی

لفظ عید عود سے مشتق ہے، العود کا معنی ہے لوٹنا‘ عیدکوعیداس لیے کہتے ہیں کہ یہ بار بار لوٹ کر آنے والاہے۔ (لسان العرب)ابن العربی کے بقول عید کو ’’عید‘‘اس لیے کہتے ہیں کہ یہ دن ہر سال مسرت کے ایک نئے تصوّر کے ساتھ لوٹ کر آتا ہے۔علامہ شامی نے لکھا ہے کہ مسرت وخوشی کے دن کو عید،نیک شگون کے طور پر کہا جاتا ہے،تاکہ یہ دن ہما ری زندگی میں بار بار لَوٹ کرآئے جس طرح ’’قافلہ‘‘کے معنیٰ ہیں لَوٹ کر آنے والا،اہلِ عرب قافلہ کو بھی نیک شگون کے لیے قافلہ کہتے ہیں۔گویا اس کے پیچھے یہ آرزواور تمنا کا ر فرما ہوتی ہے کہ قافلہ جس مقصد کے لیے جارہا ہے، اس میں کامیاب وکامران ہو کر عافیت اور سلامتی کے ساتھ اپنی منزل پر واپس آجائے۔ چوں کہ’’رب‘‘ تعالیٰ اس دن اپنے مقبول اور عبادت گزار بندوں پر ان گنت نعمتیں اور برکتیں لوٹاتاہے اس لیے اسے عید کہتے ہیں۔ صاحب المنجد نے لکھا ہے کہ ہر وہ دن جس میں کسی بڑے آدمی یا کسی بڑے واقعہ کی یاد منائی جائے اسے ’’عید‘‘ کہتے ہیں۔ یہ دن شرعی طور پر خوشی کے لئے مقرر کیا گیا ہے۔ ہر وہ دن جس میں کوئی شادمانی حاصل ہو اس کو عید کا دن بولا جاتا ہے۔ہ چنانچہ قرآنِ مجید کی سورۃ البقرۃ شریف کی آیت مبارک نمبر 144 میں اللہ تعالیٰ کا ارشادِ عظیم ہے: (ترجمہ) ’’(حضرت) عیسیٰ ابن مریم (علیہ السلام) نے عرض کیا اے اللہ (تعالیٰ) ہمارے پروردگار ہم پر آسمان سے خوان اتار کہ وہ دن ہمارے پہلوں اور پچھلوں کے لئے عید رہے۔‘‘ اس آیت میں عید سے خوشی و شادمانی کا دن ہی مراد ہے۔ ہر قوم وملت کے لوگوں کایہ طریقہ رہا ہے کہ وہ سال کے بعض دنوں میں خوشیاں مناتے ہیں،ان دنوں میں وہ اپنے تمام کاروبار اور روزمرہ کے اشغال واعمال چھوڑ کر اچھے اچھے لباس پہن کر خوشیوں کے گیت گاتے ہوئے کسی میدان میں جمع ہوتے ہیں۔ وہاں میلہ لگاتے،ایک دوسرے سے ملاقاتیں کرتے، کھیلتے کودتے اور خوشیاں مناتے ہیں۔ جس سے دلوں میں تازگی پیدا ہوتی ہے اور سال بھر کام کرنے سے جو طبیعت میں افسر دگی، سستی اور اکتاہٹ پیدا ہو جاتی ہے وہ دور ہوتی ہے۔ مسرت وحرکت سے خون میں گرمی اور طبیعت میں جوش اورچستی پیدا ہوتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے:
‘‘بیشک ہر قوم کے لیے عید اور تہوار ہے اور یہ ہماری عید ہے۔’’
تو جیسے دوسری قوموں کی عیدیں اور تہوار ہیں ہمارے دین میں بھی دو عیدیں ہیں،جیسا کہ حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریمؐ مدینہ منورہ میں تشریف لائے تو اہل مدینہ کے دو دن مخصوص تھے جس میں وہ کھیلتے تھے۔ آپ ؐ نے فرمایا یہ دو دن کیا ہیں؟ عرض کیا ہم دور جاہلیت میں اِن دو دنوں میں کھیلا کرتے تھے تو رسول اللہؐ نے اِرشاد فرمایا: اللہ (تعالیٰ) نے تمہیں اِن کے بدلے دو اَچھے دن عطا فرمائے ہیں۔ (1) یوم الاضحی (بڑی عید یا بقر عید) اور (2) عیدالفطر (یعنی چھوٹی عید)۔ (ابوداؤد)
غالباً وہ تہوار جو اہلِ مدینہ اسلام سے پہلے عہد جاہلیت میں عید کے طور پر منایا کرتے تھے وہ ’’نوروز‘‘اور ’’مہرجان‘‘کے ایّام تھے۔رسول ؐاللہ نے یہ تہوار منانے سے منع فرمادیا اور فرمایا:’’اللہتعالیٰ نے ان کے بدلے میں اپنے خصوصی انعام واکرام کے طور پر عید الفطر اور عید الاضحی کے مبارک ایّام مسلمانوں کو عطا فرمائے ہیں۔اور اس دن کے فضائل بھی بتائے کیوں کہ عید الفطر! در حقیقت یو م الجا ئزہ اور یوم الانعام ہے، کیوں کہ اس دن ا للہ تبا رک و تعا لیٰ اپنے بندوں کو انعام و اکرام، اجرو ثواب اور مغفرت و بخشش کا مژدہ سنا تا ہے۔ عید الفطر کا دن گنا ہوں کی مغفرت اور نزوِ ل رحمتِ با ری کا دن ہے۔جیسا کہ حضر ت عبد اللہ بن عبا س رضی اللہ عنہ سے رو ا یت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشا د فر ما یا کہ ’’جب عید الفطر کی رات آتی ہے، تو اس کا نا م آسما نوں پر لیلتہ الجائزہ (یعنی انعام و کرام کی رات)لیا جا تا ہے۔ اور جب عید کی صبح ہو تی ہے، تو اللہتعالیٰ فر شتوں کو تمام شہروں میں بھیجتا ہے، وہ زمین پر اتر کر تما م گلیوں اور راستوں پر کھڑے ہوجا تے ہیں اور ایسی آواز سے(جسے جنات اور انسانوں کے علا وہ ہر مخلو ق سنتی ہے) پکا رتے ہیں کہ اے امت محمدﷺ! اس رب کر یم کی با رگاہ کی طرف چلو، جو بہت زیا دہ عطا فر ما نے وا لا ہے اور بڑے سے بڑے قصور کو معا ف فر ما نے وا لا ہے۔ اوراللہ تعالیٰ بندوں سے ارشادفرماتاہے:اے میرے بندو!مجھ سے مانگو، مجھے میری عزت وجلال کی قسم!آج کے دن تم اپنے اجتماعِ عیدمیں دنیاوآخرت کے بارے میں جوسوال کروگے میں تمھیں عطاکروں گا۔۔۔ میری عزت وجلال کی قسم! جب تک تم میرا خیال رکھوگے میں تمھارے عیوب پرپردہ ڈالوں گااور تمھیں مجرموں اورکافروں کے سامنے رسواہ نہیں کروں گا،پس اب تم مغفور(بخشے ہوئے)ہوکراپنے گھروں کو لوٹ جاؤ،تم نے مجھے راضی کرلیااور میں تم سے راضی ہوگیا۔ فرشتے آج عیدکے دن امت محمدﷺکوملنے والے اس اجروثواب کودیکھ کربہت خوشیاں مناتے ہیں‘‘۔(الترغیب والترہیب/ مجمع الزوائد)
عید الفطر کے سارے فضائل اور برکتیں اپنی جگہ لیکن اس مبارک دن کا سب سے عظیم فلسفہ یہ ہے کہ یہ امیروں اور غریبوں سبھی کے لیے خوشی کا پیغام لے کر آتا ہے۔ یہ ببانگ دہل یہ اعلان کرتا ہے کہ اپنے ساتھ دوسروں کو بھی اپنی خوشی میں شریک کیاجائے۔ اپنے پڑوسیوں، رشتے داروں، خاندان والوں، غریبوں اور مفلسوں کا خاص خیال رکھا جائے۔ عید سعید غریبوں کی اعانت اور ان کی دلجوئی کا عملی دن ہے، کتنے بے روزگار و یتیم ہیں جو صدقہ الفطر کے محتاج ہیں، یہ معمولی سا تعاون اور خبر گیری ان کے خوشیوں کو دوبالا کر دیتی ہے لیکن ہم اس میں بھی کوتاہی کے مرتکب ہوتے ہیں، ہم اپنے پڑوس میں غرباء و مساکین، یتیم و نادار تک نہیں پہنچ پاتے، بلکہ گھر کے دروازے پر پیشہ ور فقیروں کے ہاتھوں میں صدقہ الفطر تھما کر یہ محسوس کرتے ہیں کہ ہم نے ایک فریضہ ادا کر دیا۔جب کہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہم اپنے پاس پڑوس کے غرباء و مساکین کو تلاش کرتے ان کے حقیقتِ حال سے واقفیت حاصل کر سکتے۔ اور ان کی اعانت کرتے، جس سے ایک یتیم کے چہرے پر مسکراہٹ نمودار ہوتی۔یا ان کی غمگساری کریں جن کے بچے باپ وطن کی خاطر یا بم بلاسٹس یا زلزلے سیلاب،عمارت میں دب کر، جل کر حادثہ میں یا کسی کا جوان شوہر،شہید ہوئے ان کا درد محسوس کریں اس کا دکھ بانٹیں۔ہم اپنے ارد گرد پر نظر دوڑائیں ہر سال کتنے ہی خاندان کے بچے بڑے حادثاتی یا طبعی رخصت ہو جاتے ہیں،حادثاتی موت کاغم اس لیے زیادہ ہوتا کہ ان کے ذہن گمان میں بھی نہیں ہوتا۔ان کے ہاں کمانے والا نہیں ہوتا عید کا پیغام یہی ہے کہ ہم غریبوں بے کسوں کا تعاون کریں تبھی صحیح معنوں میں عید الفطر کی حقیقی خوشی حاصل ہوگی اورعید الفطر کے تقاضے پورے ہوں گے۔ کیوں کہ اللہ تعالی نے روزے فرض کرنے کی حکمت ذکر فرماتے ہوئے کہا ہے کہ:
’اے ایمان والو! تم پر روزے ایسے ہی فرض کیے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے، تا کہ تم متقی بن جاؤ(البقرہ:183)

تبصرے بند ہیں۔