منشی عزیزاللہ صفی پوری-ایک گمنام معاصر غالب

 جہاں گیرحسن مصباحی

منشی محمدولایت علی بن منشی یحییٰ علی خان، ملقب بہ شاہ عزیز اللہ عزیزؔ صفی پوری کی ولادت 6؍ صفر 1259ھ/1840ء کو اپنے نانہال صفی پور میں ہوئی۔ پرورش وپرداخت لکھنؤ میں ہوئی، جہاں ان کے آباو اجداد، شاہان اَودھ کے دربار سے منسلک تھے۔
منشی صاحب، شاہ فتح علی(م:1273ھ/1857ء) (خلیفہ و جانشین مولانا سید عبد الرحمن لکھنوی قدس سرہٗ ) کے مرید اور سلسلہ صفویہ کے مجدد مخدوم شاہ خادم صفی محمدی قدس سرہٗ کے تربیت یافتہ اور خلیفہ ومجاز تھے۔
غدر کے وقت لکھنؤ سے صفی پورمنتقل ہوئے۔ عربی، فارسی اوراردو میں کامل دسترس رکھتے تھے،اورتینوں زبانوں میں نثرونظم فی البدیہہ تحریر کرتے۔
آپ نے40؍سے زائدتصنیفات یاد گار چھوڑیں۔ فارسی نثر میں ’’پنچ رقعہ‘‘اور ’’نثرہ‘‘ وغیرہ آپ کی نثر نگاری کاشاہ کار اوراردو میں ’’عقائدالعزیز‘‘کے نام سے عقائد پرنہایت ایمان افروز کتاب آپ کے علمی معیارکاتابندہ ثبوت ہے۔
اوائل عمر کی تصنیف ’’پنج رقعۂ ولایت‘‘ غالب کی خدمت میں بغرض اصلاح بھیجی تو غالب نے آپ کو لکھا:
’’آپ کا مہربانی نامہ آیا۔اوراق ’’پنج رقعہ‘‘ نظر فروز ہوئے۔خوشامد فقیر کاشیوہ نہیں ،نگارش تمہاری پنج رقعۂ سابق کی تحریر سے لفظاً و معناً بڑھ کرہے، اُس میں یہ معانیٔ نازک اور الفاظ آبدار کہاں؟موجِد سے مقلد بہتر نکلا، یعنی تم نے خوب لکھا ۔ع۔نقاش نقش ثانی بہترکشد زِ اوّل ۔
نجات کا طالب، غالب‘‘۔
( غالب کے خطوط،جلد چہارم، ص:1445)
آپ کی تصنیفات میں ـعین الولایت، مخزن الولایت والجمال،سوانح اسلاف، تعلیم المخلصین،اعجاز التواریخ، بیان التواریخ، قصیدہ مرآۃ الصنائع، مثنوی فتح مبین، دیوان ولایتؔ (فارسی)، دیوان عزیزؔ(فارسی)وغیرہ آپ کی نثر نگاری ، نظم نگاری، تاریخ نگاری، عقائد اور اسلامیات پردسترس وقدرت کے انمٹ نقوش ہیں۔
سماع کے شائق تھے ،محفل میں خوب روتے اوررقص بھی کرتے ،آپ کے پیر بھائی اورماموں حضرت عین اﷲشاہ عرف خلیل میاں قدس سرہ آپ کاساتھ دیتے۔ خلیل میاں قدس سرہٗ کی وفات (1340ھ/1921ء)کے بعد محفل میں بہت کم شریک ہوتے۔
آپ نے اپنی زندگی کااکثر حصہ گوشہ نشینی ،قناعت اورتوکل میں گزاردیا۔اگر کوئی کچھ نذرکرتاتواس کوغریب اورمستحق کے حوالہ کر دیتے۔آپ نے دس حضرات کو اجازت و خلافت سے نوازا۔
13؍محرم الحرام 1347ھ مطابق 3؍جولائی 1928ء بروز دوشنبہ صفی پورمیں آپ کا وصال ہوااور اپنے پیرومرشد کے آستانے میں مشرقی دروازے کے پاس مدفون ہوئے-
آپ کا فارسی اور اردو کلام آج بھی ہند وپا ک کے قوال بہت شوق سےپڑھتے ہیںاورصاحبان ذوق کیف و مستی میں سرشار نظرآتے ہیں۔
بطور نمونہ آپ کا کچھ منظوم کلام درج کیا جاتاہے :
(1)
دو عالم بکاکل گرفتار داری
بہر موٗ ہزاراں سیہ کار داری

ز سر تا بہ پا رحمتی یا محمد
نظر جانبِ ہر گنہگار داری

جمالِ درخشندہ، برقِ تجلی
لبِ نوش داروئے بیمار داری

اداے تو بے زخم در خوں تپاند
کہ نادیدہ عشاق بسیار داری

عزیزؔ! اللہ اللہ کہ از کفرِ عشقش
نہاں در تہِ خرقہ زنّار داری

(2)
مجھے عشق نے یہ سبق دیا کہ نہ ہجر ہے، نہ وصال ہے
اسی ذات کا میں ظہور ہوں، یہ جمال اسی کا جمال ہے

مری بندگی ہے تو بس یہی، کہ کروں میں اپنی ہی بندگی
یہی ذکر ہے، یہی فکر ہے، یہی حال ہے، یہی قال ہے

میں فداے خادم پاک ہوں، درِ بارگاہ کی خاک ہوں
وہ سما کے مجھ میں یہ کہتے ہیں، کہ عزیزؔ! غیر، محال ہے

(3)
مصحفِ پاک ہے کونین میں حجت تیری
حق تعالیٰ کی اطاعت ہے اطاعت تیری

جس نے دیکھا تجھے اللہ کو پہچان لیا
سرِّ توحید کی مثبت ہے رسالت تیری

جان دیتے ہیں تری راہ میں مرنےوالے
فرض ہے مذہبِ عشاق میںسنت تیری

نورِ حق کیوں نہ سماجائے ترے دل میں عزیزؔ
کیسے محبوب پر آئی ہے طبیعت تیری

(4)
سب کو دل سے بھلا دیا تم نے
شاہ خادم یہ کیا کیا تم نے

وہ جمالِ جمیل دکھلا کر
کھول دی شانِ کبریا تم نے

لطف سے، شوق سے، محبت سے
کن اداؤں سے دل لیا تم نے

صفحۂ دل پہ تھا خدا کا نام
لکھ دیا اس پہ حاشیہ تم نے

کھینچ کر میرے دل کو اپنی طرف
دے دیا ذوقِ بے ریا تم نے

جس کو چاہا بنا دیا فوراً
محرمِ سرِّ اولیا تم نے

خاکِ در ہو کے میں عزیزؔ ہوا
کر دیا مجھ کو کیمیا تم نے

تبصرے بند ہیں۔