منشی پریم چند کی138ویں سالگرہ کے موقع پر ایک ادبی نشست کا انعقاد

شعبۂ اردو، چودھری چرن سنگھ یو نیورسٹی، میرٹھ میں اردو اور ہندی کے عظیم ادیب منشی پریم چند کے138ویں سالگرہ کے موقع پر ایک ادبی نشست کا انعقاد کیا گیا۔ جس کی صدارت صدر شعبۂ اردو پرو فیسر اسلم جمشید پور ی نے کی اور نظا مت کے فرائض ڈا کٹر آصف علی نے انجام دیے۔

پرو گرام کا آ غاز پی ایچ ڈی کی طا لبہ تسلیم جہاں نے پریم چند کی تخلیق کردہ خوبصورت کہانی’’ خودی‘‘ کی قرأت سے کی۔ اس کہانی کو پرو گرام میں موجودافراد نے خوب سرا ہا۔

پریم چند کی تحریریں سماج میں انسا نیت کے جذبے کو عام کرتی ہیں۔ پروفیسر اسلم جمشید پوری

اپنے صدارتی خطبے میں پروفیسر اسلم جمشید پوری نے کہا کہ پریم چند کی تحریریں سماج میں عدم مساوات ختم کر کے انسا نیت کے جذبے کو عام کرتی ہیں۔ ساتھ ہی حب الوطنی اور قو می یکجہتی کے جذبے کی سر شاری بھی عطا کرتی ہیں۔ ان کی بیشتر کہانیاں دوبیل، عید گاہ، نمک کا داروغہ، دو بھائی، بڑے گھر کی بیٹی، حب وطن، دودھ کی قیمت، بوڑھی کاکی، حج اکبر وغیرہ اور بیوہ، گئو دان، میدان عمل ناول میں ایک خاص پیغام دیا ہے یعنی انسان اور انسانیت، سب چیزوں سے او پر ہے۔

کہانی ’خودی‘ پریم چند کی شاہکار کہنی ہے،جس میں پریم چند نے عورت کے اندر اپنے تحفظ کے جذبے کو جذبہ ء خودی کے طور پر ابھارا ہے۔ یہ افسانہ آج کے پس منظر میں تانیثیت کی عمدہ مثال ہے۔

اس مو قع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہو ئے یو نائٹیڈ پروگریسیو تھیٹر ایسو سی ایشن کے صدر بھارت بھوشن شرمانے کہا کہ دور حا ضر میں پریم چند کی معنویت اور بڑھتی جارہی ہے۔ در اصل سماج کی وہ حقیقتیں جنہیں پریم چند نے اپنے نا ولوں، افسا نوں، کہانیوں کے ذریعے اجا گر کیا تھا وہ ایک بار پھر پو ری شدت کے ساتھ منظر پر ہیں جن پر لگام لگانا اشد ضروری ہے۔ رام گوپال بھارتیہ نے کہا سماج ہمیشہ سے ذات، برادری، اونچ،نیچ اور مذاہب کے درمیان تقسیم رہا ہے اور سماج دشمن عناصر انہیں ہی بنیاد بنا کر نفرتوں کی کھیتی کرتے ہیں۔ پریم چند نے ان تضادات کو دور رکھ کر وہ حقیقتیں بھی پیش کی ہیں جن سے سماج میں نفرتوں کے بجائے اتحاد و یگانگت کی فضا ہموار ہو اور آپسی بھا ئی چارہ بنا رہے۔

ڈاکٹر آصف علی نے کہا کہ عظیم اردو ہندی ادیب وا قعتا ایک بڑے فن کار تھے۔ انہوں نے جو کردار اردو ہندی افسانوں، کہانیوں اور ناولوں کو دیے اس کی برا بری نہ ان کے معاصرین اور نا ہی بعد کے ادیب کر سکے۔ انہوں نے سماج کی جو حقیقتیں پیش کی ہیں وہ جسم میں رونگٹھے کھڑے کر دیتی ہے اور یہی ایک عظیم فن کار کی خوبی ہوتی ہے۔برج کشور راہگیر نے کہا کہ پریم چند لمہی گائوں میں پیدا ہو ئے تھے۔ انہوں نے دیہات اور وہاں کے مسائل کو بغور دیکھا اور وہیں سے اپنی کہا نیوں کے لیے مواد فراہم کیا ْ۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اس پورے ما حول کی جیتی جاگتی سچی تصویریں پیش کی ہیں۔ اس لیے وہ آج بھی دلوں کے قریب محسوس ہوتی ہیں۔

اس مو قع پر ڈا کٹر ارشاد سیانوی،ہیمنت گویل، محمد نوشاد علی، فرحانہ، آفتاب انصاری،فرحین، شاذیہ سمیت طلبہ و طالبات موجود رہے۔

تبصرے بند ہیں۔