منصف ہو تو اب حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے؟

عبدالرشید طلحہ نعمانیؔ

آزادہندوستان کی پوری تاریخ میں پہلی مرتبہ سپریم کورٹ کے چار ججوں نے پریس کانفرنس کی، پریس کانفرنس جسٹس جے چلامیشور کے گھر پر منعقد کی گئی، ان کے ساتھ دیگر تین جج جسٹس رنجن گوگوئی، جسٹس مدن بی لوکر اور جسٹس کورین جوزیف بھی موجود تھے۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس جے چلامیشور نے کہا کہ ہندوستان سمیت کسی بھی ملک میں جمہوریت کو بر قرار رکھنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ سپریم کور ٹ جیسا ادارہ صحیح ڈھنگ سے کام کرے ؛جب کہ یہاں سپریم کورٹ میں جو ہوا، وہ صحیح نہیں تھا، ہم نے چیف جسٹس کو سمجھانے کی پوری کوشش کی، لیکن ہم کامیاب نہیں ہوسکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم چاروں میڈیا کا شکریہ ادا کرنا چاہتے ہیں ، یہ کسی بھی ملک کی تاریخ میں غیر معمولی واقعہ ہے ؛جس کے لیے ہمیں یہ بریفنگ دینے کیلئے مجبور ہونا پڑا۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں بہت سے سمجھدار لوگ سمجھداری بھری باتیں کررہے ہیں ، ہم نہیں چاہتے کہ 20 ؍سال بعد لوگ کہیں کہ جسٹس چلامیشور، گوگوئی، لوکر اور کورین جوزیف نے اپنا ضمیر بیچ دیا اور آئین کے مطابق صحیح فیصلے نہیں دیئے ؛اس لیے ہم نے میڈیا سے بات کرنے کا فیصلہ کیا۔

الغرض:سپریم کورٹ آف انڈیا کے معزز ججوں نے ہنگامی پریس کانفرس میں عدالت عظمیٰ کی انتظامی خامیوں سے قوم کو واقف کروایااور چیف جسٹس دیپک مشرا کے طرز عمل اور طریقہ کار پر بھی انگلی اٹھائی نیزجسٹس لویا کی موت کا معاملہ بھی پریس کانفرنس میں ابھر کر سامنے آیا۔ اس پورے معاملہ پر سیاست دانوں کے علاوہ وکلاء، ماہرین قانون نیز سابق ججوں کا ملا جلا رد عمل سامنے آیا۔ ڈاکٹر سبرامنیم سوامی نے کہا ہے کہ ہم پریس کانفرنس کرنے والے ججوں کی نکتہ چینی نہیں کر سکتے۔ چاروں ججوں کا اپنے اپنے شعبہ میں کافی اہم کردار ہے، ہمیں ہر حال میں ان کا احترام کرنا چاہیے۔ ریٹائرڈ جج مکل مدگل نے کہا کہ سپریم کورٹ کے ججوں کے سامنے پریس کانفرنس کرنے کے سواکوئی راستہ نہیں تھا تو کچھ سنگین معاملہ ضرور رہا ہوگا۔ سپریم کورٹ کے سینئر وکیل کے ٹی ایس تلسی نے کہا کہ ججوں کے اس قدم سے عدلیہ میں تبدیلی آئے گی۔

وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے سپریم کورٹ کے چار ججوں کے چیف جسٹس کے خلاف بغاوت کو افسوس ناک قرار دیا اور کہا کہ عدالتی نظام میں مرکزی حکومت کے مداخلت کی وجہ سے عدالتی جمہوریت خطرے میں پڑ گئی ہے۔

جمہوریت کو درپیش خطرات :

کہاجاتاہے کہ ہر موسم میں اُس موسم کے خاص پھل کی بہار ہوتی ہے، زبانوں پر اُس کا تذکرہ ہوتا ہے، دِلوں میں اُس کی رغبت اور خواہش ہوتی ہے، بازاروں اور منڈیوں میں اُس کی کثرت ہوتی ہے۔ ٹھیک اسی طرح آج سے تقریبًا ۶۵ سال پہلے کا دور وہ تھا جس میں یورپ کی اِستعمار پسند حکومتیں دُنیا پر چھائی ہوئی تھیں وہ دور تصور ِ جمہوریت کا موسمِ بہار تھا، شکنجہ ٔ اِستعمار میں کسی ہوئی قوموں کے مضطرب جذبات تصورِ جمہوریت کا اِستقبال کررہے تھے اور یہ تصور اہلِ دانش، اہلِ نظر اور اَصحابِ فکر کی عقل و دانش پر جنون کی حد تک چھایا ہوا تھا؛مگرتجربات ومشاہدات نے چہرہ ٔ جمہوریت کے خوشنما اور دلکش غازہ کو بڑی حد تک کُھرچ کررکھ دیا۔ سپریم کورٹ کے بے ہنگم نظام کے حوالے سے معززججس کی پریس کانفرنس سیکولرزم کے نام پر سیاہ داغ اور جمہوریت کے حق میں بہت بڑا خطرہ ہے۔

 جمہوریت کے اہم عناصر اور بنیادی ستونوں میں سے ایک عدلیہ بھی ہے، عدل و انصاف کسی بھی قوم کی نشوونما اور تعمیر وترقی کے لیے ایک بنیادی ضرورت ہے ؛جس سے مظلوم کی نصرت، ظالم کا قلع قمع اور جھگڑوں کا فیصلہ کیا جاتا ہے اور اہل حقوق تک ان کے حق پہنچائے جاتے ہیں پھرعدلیہ کاآزادہونا جمہوریت کی صحت کے لیے لازم و ضروری ہے، عدالتی نظام کا دباؤ اور دھونس سے آزاد ہو کر فیصلہ سازی کرنا دنیا کی باشعور قوموں کا خاصہ ہے، مغربی نظام حیات کی بنیاد اگرچہ خدا بیزاری پر قائم ہے؛ تاہم اس نظام نے آزاد عدلیہ کواپنی جمہوری روایات میں سب سے زیادہ اہمیت عطا کی ہے۔ لہذانظام عدالت کو بچانے کے لیے انصاف کے نظام کو شفاف بنانا ہو گا، تاکہ لوگوں کا عدلیہ پر اعتبار بحال رہے اور عوام وخواص عدالت کا ہرفیصلہ بہ سر وچشم قبول کریں ۔

عدلیہ کا اساسی مقصد:

عدلیہ کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ معاشرے میں ہر انسان مطمئن ہوکر زندگی بسر کرے، اسے یہ یقین ہو کہ اگر کسی نے ان کے ساتھ نا انصافی کی تو ایک ایسا ادارہ موجود ہے جو اس مسئلے میں مداخلت کرے گا۔ لوگوں کو یہ اطمینان رہے کہ اگر طاقتور ترین شخص حتی حکومت نے اگر کسی کا حق نظر انداز کیا  یا خدا نخواستہ حق مارا تو عدلیہ شجاعانہ انداز میں اسے اس کا حق دلائے گی۔ اگر عدلیہ معاشرے میں یہ احساس اور تاثر قائم کر لے گی تب تو وہ کامیاب وکامران ہے۔ اگر معاشرے میں یہ اطمینان پیدا ہو گیا تو کوئی بھی افواہ اور دشمنوں کے ذریعے بنائی جانے والی فضا اور ماحول ناکام و بے اثر رہے گا؛ کیونکہ عوام عملی میدان میں عدلیہ کے وجود کا مشاہدہ کریں گے اور انہیں بے باک  و فرض شناس جج صاحبان نظر آئیں گے جو کسی بھی دھونس اور دھمکی میں نہیں آتے۔ اگر لوگوں نے دیکھا کے جج کسی بھی دھونس اور دھمکی پر توجہ دئے بغیر اپنا کام بخوبی انجام دے رہا ہے تو افواہوں اور الزام تراشی کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔

جج، عدلیہ کا مرکزی کردار:

عدلیہ کا محور جج ہوتا ہے جبکہ بقیہ امور اور ذیلی ادارے جج کے کام میں مدد ومعاونت کے لئے ہیں ۔ عدالت کے اندر اور فیصلہ سنائے جانے کے عمل میں جو کچھ ہوتا ہے وہ یہ ثابت کرتا ہے کہ دشوار حالات میں کسی عظیم اور انقلابی عمل کے لئے صبر و ضبط سے کام لینا ہی بیدار ضمیری ہے اوریہ بتاتا ہے کہ اس صف اور اس محاذ کے پیچھے صورت حال کیسی ہے۔ جس دن سارے جج بے باک اور جری بن جائیں اور عدلیہ کے مختلف شعبے خدا کو حاضر و ناظر جان کر اپنے فرائض بخوبی انجام دینے لگیں ، آنکھیں کھلی رکھ کر فیصلے کرنے لگیں اس دن انہیں اپنے اوپر فخر کرنے کا حق حاصل ہے؛لیکن افسوس کہ ہمارے ملک کے چیف جسٹس چند در چند الزامات میں گھرے ہوئے ہیں ؛بل کہ غور کیاجائے توجسٹس دیپک مشرا کے خلاف جتنے بھی الزام لگے ہیں وہ سب حکومت پر لگتے ہیں اس لیے کہ مشراجی حکومت کے منظور نظر ہیں ، وہ آئے دن حکومت کے موقف کی تائید کرتے رہتے ہیں ۔ اروناچل پردیش کے سابق وزیراعلیٰ کالکھو پل نے خودکشی سے قبل اپنی وصیت میں جن لوگوں پر بدعنوانی کا الزام لگایا تھا ان میں چیف جسٹس کا نام بھی شامل تھا۔

دردمند دل کا پیغام:

مولانا سمیع اللہ خان جنرل سیکریٹری کاروان امن وانصاف لکھتے ہیں کہ

’’ایک بیدار بھارتی شہری ہونے کی حیثیت سے میں اپنے ملک اور اس کے نظام قانون کو صاف ستھرا اور شفاف چاہتاہوں ، اور اسی خاطر یہ سب، ہندوستان کے ذمہ دار شہریوں کے حوالے کررہا ہوں کہ ہر بھارتی شہری کو اس کا حق حاصل ہیکہ وہ ایسے سنگین و حساس قومی معاملے معاملات پر نظر رکھے اور جہاں کہیں ، چوک ہوتی نظر آئے یا چوک کا احساس بھی ہو تو اسے ملکی مفاد اور عوامی بھلائی کے پیش نظر بیان بھی کرے، اور سرکار و انصاف پسند طبقے کو متوجہ کرے، لہٰذا میری حکومت ہند صدر جمہوریہ اور وزارت قانون سے گذارش ہیکہ، محترم و مؤقر چیف جسٹس صاحب کی تقرری پر ہمارے ان خدشات کو بھی ملاحظہ فرمائیں ، اور ہمیں بتائیں کہ ان معاملات میں Invole شخص کو ہی کیوں ہمارا چیف جسٹس بنایا گیا؟ یا پھر ان معاملات کی حقیقت واضح فرمائیں ، کیونکہ اس بیک گراؤنڈ کے حامل کو منصف مقرر کرنا ہماری سمجھ سے بالاتر ہے، اور صرف اس بنیاد پر چیف جسٹس مقرر کرنا کہ وہ بہت سینئر ہیں ، یہ پیمانہ ازخود سپریم کورٹ کے عدالتی تقرریوں کے پروٹوکول پر سوالیہ نشان کھڑے کرتا ہے، اور اسوقت سپریم کورٹ کے فاضل ججز، محترمین، جسٹس چیلمیشور، جسٹس رنجن گوگوئی، جسٹس مدن لوکر اور جسٹس کورین جوزف، نے آج عدالت عظمیٰ میں محترم چیف جسٹس کے رویّے کو لیکر پریس کانفرنس کی ہے، اور صاف کہا ہے کہ محترم چیف جسٹس کا رویہ ملک کی جمہوریت کے لیے خطرناک ہے، اور یہ آزاد بھارت کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہیکہ سپریم کورٹ کے ججز اپنے چیف جسٹس کے خلاف میڈیا میں آئے ہوں ، آخر ہو کیا رہاہے اور معاملہ کہاں تک جا پہنچا ہے ؟

 یہ چاروں ججز ملک کی سپریم کورٹ کے جج ہیں ، اور ملک کا کوئی بھی شہری ان کے تئیں بے اطمینانی کی کیفیت اسی طرح قائم نہیں کرسکتا جیسا کہ، چیف جسٹس کے متعلق ہمارے دلوں میں اطمینان اور اعتماد قائم ہوتاہے، لیکن اب جبکہ، صورتحال اس قدر سنگین ہوچکی ہے تو لازمی ہیکہ، ملک کے صحافی، ججز، وکلا، ڈاکٹرز، علما، ٹیچرز اور دیگر بیدار مغز دانشوران، شہریوں اور حکمراں طبقے کے منصف مزاج افراد کو اس بابت سنجیدہ کوششیں کرنا چاہیے، کیونکہ یہ صورتحال ملک میں انصاف اور آزادی کی روح پر کاری ضرب ہے، ہم جیسا عام شہری یہ سوچنے پر مجبور ہیکہ، آخر اب ہمیں انصاف کیسے اور کہاں ملے گا؟ حکومت کا رویہ سب کے سامنے ہے، لیکن ہمیں پھر بھی امید ہے، کیونکہ، ان چار ججز کی تائید کے طور پر حکومت کے ہم خیال سمجھے جانے والے سبرامنیم سوامی سامنے آئے ہیں ،امید کہ ہماری حکومت، صدر محترم، وزارت قانون نیز بیدار مغز بھارتی شہری کی اس حساسیت پر متوجہ ہوں گے، کیونکہ کسی بھی ملک کا چیف جسٹس ہی اصلاً ملک کے نظام و آئین اور اس کے باشندوں کا رکھوالا ہوتا ہے، اسی خاطر ہمارا اپنی حکومت سے مطالبہ ہیکہ وہ اپنے فیصلے پر یا تو پھر سے غور فرمائیں یا توضیح فرمائیں اور ہماری عدالتوں کے چاروں ججز کے خدشات کو دور کریں ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔