طلسمات عروض: فن عروض پر سکندر احمد کی منفرد تحریر

وصیل خان

جس طرح سے سونا نہایت چمکدار اور قیمتی ہوتاہے لیکن اس کی اہمیت اس وقت مزیدبڑھ جاتی ہے،جب وہ کسی ماہر کاریگر کی صناعی کے ذریعے انتہائی دلکش نقش و نگارمیں ڈھل جاتا ہے۔ اسی طرح شاعری اس وقت مزید دل آویز اور نفیس ہوجاتی ہے جب اسے زبان و ادب کے متعینہ اصول و قواعدسے آراستہ کردیا جاتا ہے۔ ان اصول و ضوابط میں عروض کو وہی اہمیت حاصل ہے جو سونے جیسی قیمتی دھات کی حسین و جمیل تجسیم کیلئے ایک مشاق اور ماہر سنار کی ہوتی ہے۔ سکندر احمد کی عرفیت ہمارے درمیان ایک ادیب و نقاد کی ہی نہیں، انہیں ایک ماہر عروض کی حیثیت سے بھی جانا جاتا ہے۔ افسوس ان کی عمر نے وفا نہ کی،وہ نہایت کم عمری میں ہی اس دنیائے فانی سے رخصت ہوگئے لیکن اس مختصر سی مدت میں انہوں نے تحقیق و تنقید اور عروض پر مبنی جو کتابیں، مقالے اور مضامین قلم بند کئے وہ ہمارے لئے کسی گراں قدرسرمائے سے کم نہیں۔ زیر نظر کتاب ’ طلسمات عروض ‘ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جو اس وقت ہمارے پیش نظر ہے جس کی ترتیب و پیشکش ان کی شریک حیات محترمہ غزالہ سکندر نے کی ہے۔

کتاب میں کل تیرہ مضامین شامل ہیں جن کے ذریعے موصوف نے عروض کے مختلف رموز و نکات پرگہرائی اور تعمق کے ساتھ سیر حاصل بحث کرکے متعدد بند گرہوں اور پہلوؤں کو کھولنے کی کامیاب کوشش کی ہے اور ان مقامات اور نازک گوشوں کو اجاگرکیا ہے جہاں ایک ماہر عروض داں کی ہی رسائی ہوسکتی ہے۔ کتاب کے اولین مضمون بعنوان ’اردو عروض: تواتر اور تغیر‘ میں وہ اردو عروض کی جدید کاری کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے رقمطراز ہیں۔

’’ زبان اپنے تمام تر متعلقات کے ساتھ ایک تغیر پذیر تصور ہے۔ اردو زبان کا ارتقائی سفر ابھی جاری ہے۔ پرانے الفاظ کہیں متروک ہورہے ہیں تو کہیں ان کی ہیئت تبدیل ہورہی ہے۔ ہجے اور تلفظ دونوں تبدیل ہورہے ہیں۔ اب کوئی حرکت ( متحرک ’’ر ‘‘  ) نہیں کہتا۔ کوئی مولیٰنا نہیں لکھتا۔ اس پس منظر میں عروضی نکات کا جامد و ساکت رہنا ناممکن ہے۔ عرب سے جب خلیل بن احمد کا عروض ایران میں داخل ہوا تو ایران والوں نے اسے من و عن قبول نہیں کیا بلکہ خاطر خواہ تبدیلیاں بھی کیں۔ نئے اوزان بنائے، نئے زحافات وضع کئے۔ پرانے اوزان کو ترک کیا۔ کئی ارکان کو متروک الاستعمال قرار دیا، نئے احکامات قائم کئے۔ نئی اصناف کو روشناس کرایا جن میں رباعی اور غزل قابل ذکر ہیں۔ جب عروض ایران سے ہوتے ہوئے بر صغیر میں داخل ہواتو ایران کے برعکس ہندوستان میں پہلے سے ایک ٹھوس عروضی نظام موجود تھا جسے پنگل کہتے تھے۔ دوہے کی صنعت موجود تھی۔ رامائن اور مہابھارت کی طرح منظوم معرکہ آراء رزمیئے موجود تھے ایسے میں عربی فارسی عروض کا اچھوتا رہ جانا ناممکن تھا۔ حدائق البلاغۃ کی اشاعت سے جہاں اردو عروض کو گراں قدر فائدہ پہنچا وہیں ایک ناقابل تلافی نقصان بھی ہوا۔ نقصان یہ ہوا کہ مستقبل کے عروضی اہل قلم اسے عروض کی مکمل ترین کتاب سمجھ بیٹھے اور اس میں درج نکات کو حرف آخر سمجھنے لگے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہندی کی وہ بحریں اور صنعتیں جو اردو شاعری میں مروج تھیں اور ہیں اردو عروض کی کتابوں میں داخل ہونے سے رہ گئیں۔ ایک صنعت تو وقفے کی ہے جسے ہندی میں بشرام یایتی کہتے ہیں جس کا ذکر اس خاکسا ر نے ایک تفصیلی مقالے میں کیا ہے۔ ویسے ہندی کی بحریں بھی ہیں جو اردو میں مروج تھیں مگر اردو عروض کی کتابوں میں داخل ہونے سے رہ گئیں۔ اجمالی نظر سے ہم اردو عروض کی جدید کاری کو درج ذیل طریقوں سے برت سکتے ہیں۔ ۱۔ جدید کاری پنگل کے پس منظر میں ۲۔ اردوعروض کی آزادانہ جدید کاری ۳۔ عمل جدید کاری یعنی تخلیقی سطح پر عروض کی جدید کاری۔ ‘‘

اس اقتباس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عروض پر موصوف کی بڑی گہری نظر تھی اور اسی کے ساتھ ہی وہ اردو شاعری کیلئے عروض کی اہمیت و افادیت کو لازمی تصور کرتے تھے،اور اسی ضرورت کے تحت  انہوں نے مختلف زبانوں کے عروض کا تقابلی مطالعہ کرتےہوئے اس موضوع پرکئی اہم ترین مقالے تحریر کئے ہیں جو اس وقت ہمارے پیش نظر ہیں۔ کتاب کا دیباچہ شمس الرحمان فاروقی صاحب نے تحریر کیا ہے۔ جنہوں نے عروض کی مختصر لیکن جامع تاریخ پر ایک مبسوط جائزہ پیش کرتے ہوئے عروض کی اہمیت و ضرورت کو انتہائی موثر انداز میں واضح کیا ہے۔ سکندر احمد کی تحقیقی، تنقیدی اور عروضی بصیرت کا ذکر انہوں نے ان لفظوں میں کیا ہے۔

’’ سکندر احمد کو میں نے اکیسویں صدی کا عروضی کہا ہے۔ ان کا پہلا اہم امضمون ’ کچھ ہمزہ کے بارے میں ‘  ۱۹۹۹میں شائع ہوا۔ انہوں نے خالص عروضی نوعیت کے مضامین اس کے بعد لکھے، لیکن انہیں اکیسویں کا عروضی کہنے کی اصل وجہ میرے لئے یہ ہے کہ سکندر ان تمام عروضیوں اور استادوں سے مختلف مزاج کے حامل تھے جن کا ذکر میں اوپر کرچکا ہوں۔ وہ ہندی کی چندی کرنے، بات کا بتنگڑ بنانے، عروض میں اجتہاد کے نام سے اضافے کرنے کے دعویدار نہ تھے۔ ان کی نظر عروض کی اصل بنیادوں پر تھی اور وہ فارسی، عربی، سنسکرت اور فرانسیسی سے بھی بقدر ضرورت واقف تھےیا اگر واقف نہیں تھے تو ان زبانوں میں اپنے مفید مطلب متون تک ان کی پہنچ ضرور تھی۔ سکندر احمد کو اصل الاصول سے سروکار تھا اور وہ ہر بات کی تحقیق کرنے اور اس کی اصلیت تک پہنچنے کے قائل تھے۔ کوئی بات کتنی ہی مشہور کیوں نہ ہو، وہ اسی وقت مطمئن ہوتے جب وہ خود دیکھ یا پڑھ کر تصدیق نہ کرلیں کہ واقعی ایسا ہی ہے۔ ‘‘

 موجودہ دور جب ارد و ادب کیلئے ہی پرخار ہوچکا ہے ایسے میں بھلا شاعری کا مستقبل کیوں کر مستحکم رہ سکتا ہےیہ کتنا بڑا المیہ ہے آج سب سےزیادہ کتابیں شعری مجموعوں پر مشتمل ہوتی ہیں لیکن ان میں نہ عروض کا کہیں التزام ہوتا ہے نہ ہی فکری معیار کی بلندی کا جبکہ شاعری کا ان دونوں لوازمات سے مزین ہونا ضروری ہے۔ سکندر احمد کی یہ کتاب ’ طلسمات عروض، فن عروض پر ایک مستند اور تحقیقی تخلیق کا درجہ رکھتی ہے۔ امید ہے کہ اہل علم اور خصوصا ً شعراءاس سے بھرپور مستفید ہوں گے۔

نام کتاب: طلسمات عروض، مصنف:سکندر احمد، ترتیب و پیشکش:غزالہ سکندر(موبائل:09945801023)، قیمت: 350/-روپئے، صفحات: 216، ملنے کے پتے: کتاب دار ممبئی فون: 02223411854    ثمکتبہ جامعہ لمٹیڈ ارد وبازار، جامع مسجد دہلی 6    ث راعی بکڈپوالہ آباد :  فون: 09889742811، ثبک ایمپوریم اردو بازار پٹنہ ( بہار )   ث ہدی ٰ بک ڈسٹری بیوٹرس، پرانز، حویلی، حیدرآباد۔

تبصرے بند ہیں۔