منٹو: بحوالہ ممتاز شیریں اور وارث علوی

ابوالکلام قاسمی

سعادت حسن منٹو کی افسانہ نگاری پر سماجی اور اخلاقی نوعیت کی رائے زنی کا سلسلہ ان کے بعض ابتدائی افسانوں پر ردّعمل کی صورت میں ہی شروع ہوگیا تھا۔ یہ ردّعمل کچھ اتنا شدید تھاکہ عرصے تک منٹو کے متن پر سنجیدہ غور و خوض کی کوشش ہی نہیں کی گئی۔ چنانچہ منٹو کی فنی کارکردگی کی نوعیت یا معنویت پر ادبی اور تنقیدی رائے قائم ہونے کی نوبت خاصی بعد میں آئی۔ وہ ممتازشیریں جنھوں نے بعد کے زمانے میں اپنی کتاب معیار میں منٹوکے فن اور تکنیک پر بعض انکشافی تحریریں شائع کیں، انہوں نے بھی تقسیم ہند سے قبل سماجی اور اخلاقی طورپر منفی ردّعمل کی فضا میں محتاط رویہ اختیار کیے رکھا۔ تاہم منٹو کے افسانے اس اعتبار سے اردو فکشن کی شعریات کے لیے فال نیک ثابت ہوئے کے بعد کے زمانے میں منٹوہی کے طفیل فکشن کی متوازن اور پختہ کار شعریات کو تشکیل پانے کا موقع ملا۔ اس بات کو منٹو کی ہی دین سمجھنا چاہیے کہ تقسیم ہند سے ماقبل و مابعد کی ترقی پسند تعبیرات اور قدرے بعد کے زمانے میں ہیئتی اور اسلوبیاتی تناظر کی افراط و تفریط کے باوجود اردو فکشن کی شعریات اعتدال اور توازن سے ضرور ہم آہنگ ہوگئی۔

منٹو تنقید میں یوں تو محمدحسن عسکری سے لے کر آج تک کی تنقیدی کاوشیں کسی نہ کسی اعتبار سے منٹوکی تفہیم کا جزوی حق ضرور ادا کرتی ہیں، مگر منٹوفہمی کو اگر ان کے افسانوں کی فکری اور فنی تعبیرات کی صورت میں دیکھا جائے تو اس طریقِ کار کی عمدہ نمائندگی پہلے ممتازشیریں اور ماضی قریب میں وارث علوی کی تحریروں سے ہوتی ہے۔ اتفاق سے ان دونوں تنقیدنگاروں نے منٹوکے نمائندہ افسانوں کے تجزیے بھی کیے ہیں، موضوعاتی پس منظر سے بھی بحث کی ہے اور منٹوپر مغربی افسانوں کے اثرات کی بھی نشان دہی کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کی تحریروں میں مکمل منٹو کی تفہیم کے بیش تر پہلو کچھ اس انداز میں زیربحث آگئے ہیں کہ بحیثیت مجموعی منٹو کے فنی طریقِ کار پر اور جزوی طورپر افسانوں کے حوالے سے خاصی کارآمد باتیں منٹو تنقید کا حصہ بن گئی ہیں۔ تاہم ایسا بالکل فرض نہیں کیا جاسکتاکہ باتیں اگر کارآمد ہوں تو وہ معروضی بھی ہوں۔ جس طرح شروع کے زمانے میں منٹوکو محض جنس، اخلاقیات، فحاشی اور کرداروں کے انتخاب کے حوالے سے تنقیص اور اعتراض کا ہدف بنایا جاتا رہا، اس کی دوسری انتہا یہ تھی کہ بعد کے زمانے میں مکمل تفہیم کے نام پر عقیدت اور تعبیر کے نام سے تحسین یا توصیف کا رویہ بھی بہت نمایاں رہا۔ ممتازشیریں کے اس امتیاز کو کبھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتاکہ انہوں نے عمومی طورپر فکشن کی شعریات کو مرتب کرنے کی خاطر اور خصوصیت کے ساتھ منٹو کی تفہیم کا حق ادا کرنے میں اپنی بساط بھر کسی بھی کوشش سے دریغ نہیں کیا۔ عام نفسیات، جنسی نفسیات اور ابنارمل نفسیات سے خاطرخواہ واقفیت کی غرض سے انہوں نے فرائڈ، ہیولاک ایلس سے لے کر کِنسے رپورٹ تک کو کھنگال ڈالا اور مرد اور عورت کے رشتے کی تفہیم کے لیے سیمون دی بوار اور کولن ولسن وغیرہ سے جو استفادہ کیا اس کا اظہار ان کی تحریروں میں اتنا نمایاں ہے کہ ادبی تفہیم اور فنی تعین قدر بسااوقات پس منظر میں چلا جاتاہے۔ یوں تو وارث علوی نے بھی اس نوع کے نفسیاتی پس منظر پر نگاہ رکھی مگر جنسی نفسیات سے حاصل شدہ بصیرت کو منٹو فہمی میں ضروری تناسب کے ساتھ استعمال کرنے میں انہوں نے قدرے احتیاط سے کام لیا۔ دونوں نقادوں کے طریقِ کار میں یہ فرق بہت نمایاں ہے کہ ممتازشیریں کے یہاں نفسیاتی اصطلاحات اور نظریات اتنے غالب نظر آتے ہیں کہ تکنیک اور فنی طریقِ کار کو مرکزیت حاصل نہیں ہوپاتی اور کہیں کہیں ایسا محسوس ہونے لگتا ہے کہ منٹو کی تفہیم کے موضوعاتی وسیلے مقصد بن گئے ہیں اور فنی جائزہ تنقیدنگار کی وسعت مطالعہ کا بوجھ برداشت کرنے سے قاصر ہے۔ اس کے برخلاف وارث علوی کی تعبیرات میں تحسین کی بالادستی کے باوجود علمی دبازت کو زیادہ سے زیادہ بین السطور یا پس منظر میں محسوس کیا جاسکتا ہے۔ عام طورپر متعلقہ علوم یا معلومات سے کہیں زیادہ ان سے حاصل ہونے والی بصیرت ان کی رہنمائی کرتی دکھائی دیتی ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ ممتازشیریں اور وارث علوی، دونوں نے انفرادی طورپر منٹوکے نمائندہ افسانوں پر بھی اپنی واضح رائے دی ہے اور اس سے متعلق تنوع کو بھی بحیثیت مجموعی منٹو کی فنی تفہیم کی صورت میں جامعیت کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ ممتازشیریں نے منٹو کے بیانیہ اور تکنیک پر سیرحاصل گفتگو کی ہے اور اس حوالے سے نظری سطح پر بعض اہم نتائج نکال کر نظریہ سازی کا انداز اختیار کیاہے۔ جب کہ وارث علوی نے جہاں جہاں منٹو کی مکمل تفہیم کو نتائج کی صورت میں جس جامعیت کے ساتھ بیان کرنے کی کوشش کی ہے اس کی ترجمانی ان کے ان متفرق جملوں سے ہوجاتی ہے:

1۔  منٹو کی بنیادی دلچسپی کہانی اور کردار میں ہے۔ وہ مرقع نگاری، جزئیات نگاری، اور فضابندی میں غیرمعمولی مہارت رکھتاہے۔

 2۔  منٹو واقعات کو حقیقت پسندی اور نفسیات کے اصولوں کے مطابق ترتیب دیتاہے۔

3۔   شعور کی آنکھ، شعور کی رو، تجریدیت اور علامت نگاری نہیں بلکہ حقیقت نگاری منٹو کا فنی طریقِ کار تھا اور اس کے لوازمات کو اس نے پوری آرٹھوڈوکسی کے ساتھ نبھایا۔ یعنی اس نے ہراس بدعت اور بداحتیاطی سے احتراز کیا جس کے سبب کرداروں کی معروضیت اور شخصیت مجروح ہوسکتی تھی۔

4۔  باوجود اس کے کہ تکنیک اور طرزبیان میں کافی تنوع ہے، عموماً اس کے یہاں حقیقت نگاری کے کلاسیکی اور مستحکم اسالیب سے گہرا شغف ملتاہے۔

5۔ وہ یا تو ہمہ بین ناظر کے طورپر کہانی لکھتا ہے یا بہ طور راوی خود کہانی میں موجود ہوتاہے۔ واحدمتکلم کی صورت میں بھی اگر راوی کردار ہے تو اس نے کردار کی انفرادیت برقرار رکھی ہے اور کبھی یہ احساس نہیں ہونے دیتاکہ کردار کے منھ سے افسانہ نگار بول رہاہے۔

 ان چند تنقیدی بیانات میں وارث علوی نے کہانی، کردار، جزئیات نگاری، فضا بندی، حقیقت نگاری، فطری ماحول، تکنیک، طرزبیان، معروضیت، غرض فکشن شعریات کے تقریباً سارے ہی عناصر کا ذکر کردیا ہے اور ہرمعاملے میں منٹو کو طاق بتایاہے۔ مگر جہاں تک بیانیہ کے نقطۂ نظر سے کہانی میں مصنف کے عدم مداخلت کا سوال ہے تو اس ضمن میں بھی ان کی تنقید میں منٹو کے یہاں ہمہ بین ناظر، کہانی میں موجود مصنف اور راوی کے روپ میں افسانہ نگار کی رائے زنی تک میں کوئی نہ کوئی خوبی تلاش کرلی گئی ہے۔ بعض مقامات پر تو وارث علوی نے منٹو کی کہانیوں میں چونکانے والے پلاٹ، حد سے بڑھے ہوئے تجسّس یا غیرمتوقع انجام تک کو محض ڈرامائی تکنیک کے استعمال کے باعث قابلِ قبول قرار دے دیاہے اور اس رویے کے زیراثر رونما ہونے والی میلو ڈرامائیت کو بھی ناگزیر فنی ضرورت مان کر اسے منٹو کے محاسن میں شمار کرلیاہے۔ ایک طرف تو وہ منٹو کے یہاں سامنے آنے والی فہم و فراست سے ماورا، بالکل انوکھی اور محیرالعقول عناصر کا اعتراف کرتے ہیں مگر دوسری طرف محض ڈرامائیت یا ڈرامائی تکنیک کو حقیقت کی پیش کش کے عمل میں رائے زنی، نفسیاتی تجزیہ، اخلاقی تبصرہ اور جذباتیت وغیرہ کی سمیّت کا تریاق ثابت کرنے پر پورا زور صَرف کردیتے ہیں۔ اس ضمن میں ممتازشیریں نے نسبتاً زیادہ معروضی نقطۂ نظر اختیار کیاہے۔ ان کا خیال ہے کہ منٹوکے شروع کے افسانوں میں گوکہ معروضیت اور راوی کی عدم مداخلت کا اہتمام نہیں ملتا مگر بعد کے افسانوں میں منٹونے اپنی معروضیت برقرار رکھی ہے۔ وہ راوی کے صیغہ غائب میں ہونے اور بالواسطہ بیان (Indirect narration) کی اہمیت کو تسلیم کرنے اور صیغۂ متکلم کے بیان میں جذباتی اثر کے زیادہ ہونے کی باتیں کرتے ہوئے بیانیہ کے متعدد مضمرات بتاتی ہیں اور کہانی کے مرد یا عورت کی زبان میں بیان ہونے تک کی تفریق اور تاثر کو واضح کرتی ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ بعض افسانوں کی اطلاقی تنقید میں بھی بیانیہ کے ان اصولوں کا اطلاق کرتے ہوئے راوی کی مداخلت اور مصنف کے غیرضروری تبصرے کو فنی طورپر  وہ ناقابلِ قبول بتاتی ہیں۔ اس سلسلے میں ممتازشیریں نے منٹو کے افسانہ ’ممی‘ پر رائے زنی کرتے ہوئے ممی کے کردار کو باپوگوپی ناتھ کے فنی طورپر ارتقا پذیر کردار سے بعض خوبیوں میں مماثل بتانے کے باوجود یہ کہنے میں کوئی تکلف نہیں کیاکہ ’’اس افسانے میں منٹوکو بیانیہ پر زیادہ قابو نہیں رہا۔ اس کردار کو چڈھا اور دوسرے کرداروں کے ذریعہ بھرپور انداز میں متعارف کرانے سے غیرمطمئن، منٹو نے بحیثیت مصنف خود بھی ضبط کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیاہے اور وہ خود بھی ممی کے کردار پر تبصرہ کرتا چلا جاتاہے۔ ‘‘ ممتازشیریں صاف لفظوں میں اسے کردار نگاری میں مصنف کی مداخلت کا نام دیتی ہیں۔

اتفاقاً وارث علوی نے بھی اصولی اور نظری طورپر منٹو کے بیانیہ کو علی العموم قابلِ قبول بتانے کے باوجود بحیثیت مجموعی اس افسانے کے بعض فنی اسقام کی نشان دہی کی ہے اور ممتازشیریں کا نام لے کر ان کی تائید کی بھی ہے۔ شاید اس وضاحت کی ضرورت نہیں کہ اس نوع کے دوچار مقامات وارث علوی کی منٹوشناسی میں حد سے بڑھے ہوئے توصیفی اور تحسینی رویے کو اعتدال سے ہم آہنگ کرتے ہیں۔ ممی کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ:

فن کارانہ سقم ان کی بعض اچھی کہانیوں میں بھی نظر آتاہے۔ مثلاً ممی ان کا بہت ہی اچھا افسانہ ہے۔ اتنا اچھاکہ اس کے خلاف لب کشائی طبیعت کو ناگوار گزرتی ہے۔ مگر اس میں آخر میں جھول پیدا ہوگیا ہے، جذباتیت در آئی ہے اور تان تقریربازی پر ٹوٹی ہے۔ منٹو کی ایک اور پرستار ممتازشیریں نے بھی افسانہ کے ان معائب کی طرف اشارہ کیاہے، لیکن افسانہ اتنا طاقتور ہے کہ وہ ان معائب کو بھی جھیل جاتاہے۔ البتہ ان اسقام کے سبب ہی یہ افسانہ فن کاری کا مکمل نمونہ نہیں بن پاتا۔

 منٹو پر لکھی جانے والی تنقید میں چوں کہ مکمل منٹو کو محض چند ہی نقادوں نے موضوعِ بحث بتایاہے، اس لیے مختلف افسانوں کی موضوعاتی یا تکنیکی مماثلت یا مغائرت کو آمنے سامنے رکھ کر دیکھنے کے نمونے کم ملتے ہیں۔ اس کی وجہ سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ اس نوع کی تحریروں میں طوائف، جنس یا اخلاقیات کو مرکز میں ضرور رکھا گیاہے یا پھر تقسیم سے متعلق بعض افسانوں کو بنیاد بنایاگیاہے، مگر بالعموم موضوعاتی اعتبار سے بھی ایک سے زیادہ افسانوں میں قدرمشترک یا اختلاف کی نشان دہی کی زحمت گوارہ کرنے کے بجائے عمومی رائے زنی پر اکتفا کرنا کافی سمجھا گیاہے۔ ممتازشیریں نے اردو افسانے پر مغربی افسانے کے اثر یا تکنیک کے تنوع کے سلسلے میں جب منٹوکے متعدد افسانوں پر اظہارخیال کیا تو انہوں نے موضوع کی مناسبت، یا کردار کی پیش کش کی نوعیت کے تناظر میں متعدد افسانوں میں کہیں مغربی اثرات کی نشان دہی کے طورپر اور کہیں کرداروں کے مابین مماثلت یا مغائرت کے پہلوؤں کی تلاش کے ضمن میں بہت سے اہم نکات اُٹھائے۔ اس ضمن میں موپاساں کے اثرات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے منٹو کے افسانہ ’پڑھئے ’کلمہ‘ کی رُکما، ’ٹھنڈا گوشت‘ کی کلونت کور اور ’سرکنڈوں کے پیچھے‘ کی ہلاکت کے کرداروں میں بعض ایسے عناصر کی نشان دہی کی ہے جو بڑی حدتک مشترک ہیں۔ وہ موپاساں کے بارے میں اس تاثر سے اتفاق کرنے کے بعد کہ ’’وہ جب ایسی کسی عورت کا ذکر کرتاہے تو اس کی تحریر کا کاغذ تک تازہ گرم گوشت کی طرح پھڑکنے لگتاہے۔ ‘‘ جب وہ کلونت کور کا ذکر کرتی ہیں تو اس کے کردار کی معنویت کو جنسی نفسیات کے پس منظر میں اُجاگر کرنا مناسب سمجھتی ہیں۔ جب کہ ہلاکت کے بیان میں وہ اس مماثلت کو دوسرے کردار ’نواب‘ سے موازنے کی مدد سے نمایاں کرتی ہیں۔ اس ضمن میں نفسیاتی، جنسی اور مجرمانہ محرکات پر مبنی ان کے قدرے طویل نتائج کو اجمالاً ان جملوں میں سمیٹا جاسکتاہے:

سرکنڈوں کے پیچھے، میں منٹو نے دونوں قسم کی عورتوں کو جمع کیاہے۔ نواب وہ پہلی عورت ہے جس میں معصومیت بھی ہے اور ترغیب بھی، اور دوسری عورت ہلاکت ہے جس کے خون میں آتش ہے۔ ۔ ۔ ۔ ہلاکت میں کلونت کور کی تیزخونی رقابت اور رُکما کی خوں خوار سادیت، دونوں ایک ساتھ جمع ہوگئی ہیں، اور دونوں جذبوں کی یکجائیت نے ہلاکت کو اور بھی زیادہ ہلاکت خیز، خوں خوار اور شیطان بنادیاہے۔ ۔ ۔ ۔ پڑھئے کلمہ کی رُکما بھی کلونت کور کی طرح جنسی طورپر بڑی غیرمعمولی عورت ہے۔ اس کا مضبوط گٹھا ہوا بدن گویا فولاد کا بنا ہواہے۔ اور رُکما کے اندر کا شیطان ہی اس سے بھیانک قتل کرواتاہے۔ اس کے جنسی جذبے میں سادیت کا حد سے بڑھا ہوا عنصر ہے، اذیت دہی اور اذیت کوشی  —-

اس سلسلے میں وہ دیرتک مجرمانہ نفسیات کی بات کرتی ہیں اور Sadism اور Masochism کی مثالوں کی نشان دہی بھی کرتی ہیں، مگر متذکرہ کرداروں کی پیش کش کے معاملے میں منٹو کی فنی کارکردگی پر زیادہ توجہ مبذول نہیں کرپاتیں۔ معصیت اور معصومیت کے حوالے سے صرف یہ اشارہ کرکے رہ جاتی ہیں کہ ’’اس قسم کی عورتوں میں معصومیت کی جگہ بے باکی ہے اور پُرزور شہوانی اپیل۔ ‘‘ اسی ضمن میں انہوں نے کلونت کور، رُکما، ہلاکت اور لتیکارانی کے کرداروں کے نفسیاتی تجزیے پر بھی محض ایک ماہرنفسیات کی طرح بحث کی ہے، ان کی فنی معنویت کی نشان دہی برائے نام ہی کی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان تفصیلات کی مدد سے ابنارمل نفسیات کے بہت سے نکات تو قابلِ وثوق بن جاتے ہیں، لیکن اس نوع کی مجرمانہ نفسیات کا فنی جواز سامنے نہیں آپاتا۔ اس کے برخلاف بعض ملتے جلتے کرداروں پر مبنی ان ہی افسانوں کا ذکر وارث علوی، سنسنی خیزی کے حوالے سے کرتے ہیں اور اپنے عام انداز نقد کے برخلاف غایت احتیاط کے ساتھ کرداروں کی نفسیاتی کیفیت کے بجائے ان کے فنی جواز پر اپنی باتیں زیادہ مرکوز رکھتے ہیں :

ایشرسنگھ چوں کہ ایک کڑیل، گرم خون والا، صحت مند آدمی ہے۔ اس لیے ایک مردہ جسم سے زنا کا احساس غیرشعوری طورپر اس کی روح میں سرایت کرجاتاہے اور اس کے اندر کے آدمی کو تباہ کردیتاہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر وہ عادی مجرم ہوتا، سائیکوپیتھ ہوتا یا پروژن کا شکار اعصابی مریض ہوتا تو شاید اس واقعے کا اتنا گہرا اثر قبول نہ کرتا۔ گویا ایشرسنگھ کا نامرد ہوجانا خود اس کی انسانیت کی دلیل ہے۔ منٹوکے یہاں جو سنسنی خیزی ہے وہ اپنا جواز رکھتی ہے، نفسیاتی بھی اور فن کارانہ بھی۔ منٹو کے ایسے افسانوں سے سنسنی خیزی نکال دیجیے تو وہ بغیرڈنک کے بچھو رہ جائیں گے۔ اس کا مقصد قاری کو سنسنی خیزی کا لطف بخشنا نہیں، جیساکہ خوف ناک افسانوں میں ہوتاہے، بلکہ افسانے کا صحیح تاثر قائم کرنا ہے جو اپنی نوعیت میں فکرانگیز، بصیرت افروز اور جمالیاتی ہے۔

یوں تو سنسنی خیزی کی بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے وارث علوی نے بھی کلونت کور اور سرکنڈوں کے پیچھے کی ہلاکت یا ’پڑھئے کلمہ‘ کی رُکما کا ذکر کیاہے مگر ہلاکت کے کردار میں جس نوع کی مجرمانہ ذہنیت یا انسان کو قتل کرکے اس کے گوشت کو پکانے یا پکوانے کا ذکر ہے وہ منٹوتنقید پر نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد کسی فنی جواز پر منتج تصور نہیں کیا جاتاتھا۔ وارث علوی نے شاید پہلی بار اس کا جواز واقعات کے محل وقوع میں تلاش کیاہے۔ واضح رہے کہ کتاب کے آغاز میں منٹو کے ادبی شعور پر گفتگو کرتے ہوئے بھی انہوں نے منٹو کے یہاں ماحول اور فضا کی اہمیت پر بہت زور دیا تھا، اور لکھا تھاکہ ’’منٹو اپنے کرداروں کو اس کے فطری ماحول میں رکھ کر دیکھتاہے۔ ‘‘ اس موقع پر وارث نے ماحول کا ذکر کرتے ہوئے لکھاہے کہ منٹو نے افسانے کو قابلِ یقین بنانے کے لیے اس کا مقام پشاور سے دور، سرحد کے قریب ایک علاقے میں رکھاہے:

’’اوّل تو اس لیے کہ سرحد کے ان علاقوں میں قبائلی جذبات، چاقو کی دھار کی مانند تیز ہوتے ہیں۔ جن دو جذبات سے منٹونے کام لیاہے وہ حسد اور انتقام کے ہیں، جو قدیم اور قبائلی ہیں اور شہروں کی متمدن دنیا میں اپنی سرکشی کھوچکے ہیں۔ ‘‘

 ان وضاحتوں کے سبب جنسی کش مکش، رقابت اور انتقام کے نفسیاتی محرکات بھی سامنے رہتے ہیں مگر اس ابنارمل نفسیات کو فنی طورپر گوارہ بنانے کے لیے وارث علوی کی تنقید نے افسانے کی رائج اور پیش پاافتادہ شعریات سے قدرے مختلف انداز میں جغرافیائی اور قبائلی فضا کی اہمیت کو نشان زد کیاہے اور بادی النظر میں پوری طرح ناقابلِ یقین نظر آنے والی حرکات وسکنات کے لیے باکل الگ سیاق و سباق فراہم کردیاہے، جو افسانے کے زمانی و مکانی تناظرہونے کے باوجود ہنوز منٹو کے نقادوں کی توجہ سے محروم تھا۔

منٹو کے افسانوں کے موضوعات، کردار اور واقعات سے متعلق فکری اور فنی، دونوں طرح کی گفتگو کے دائرے میں بات بالآخر جنس اور طوائف سے ہوتی ہوئی اخلاقیات تک پہنچتی ہے۔ جنس کا موضوع انسانی جبلت اور افزائش نسل سے دوطرفہ ناگزیریت کے باعث سوفسطائی ذہنوں کے لیے ہمیشہ سے چیلنج رہاہے۔ منٹوکے حوالے سے جنس پر گفتگو نے ان کے ابتدائی افسانوں کی اشاعت کے کچھ ہی عرصہ بعد سماجی اور اخلاقی ردّعمل کی صورت اختیار کرلی تھی۔ اس ضمن میں ان پر قائم ہونے والے مقدمات ہوں یا منٹو تنقید کے نام سے لکھے جانے والی تحریروں کا غالب حصہ، ان میں عریانیت، جنس، فحاشی اور اخلاقی اعتبار سے اس کی مذمت نمایاں رہی۔ عزیزاحمد نے اپنی کتاب میں ان کے بعض افسانوں کو گھناؤنا تک کہنے سے گریز نہیں کیا، جس کا جواب دیتے ہوئے ممتازشیریں نے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھاکہ ’’گریز اور ہوس جیسے ناولوں کے مصنف کی یہ بات خود ان کی تحریروں پر زیادہ صادق آتی۔ ‘‘ویسے ممتازشیریں نے منٹو اور جنسیات کے بارے میں بالکل دوسرا قدرے انتہا پسندانہ نقطۂ نظر اختیار کیا اور اپنے مزاج کے مطابق نظری اور تصوراتی اعتبار سے منٹوکو ایک اخلاقی فن کا ثابت کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے لکھاکہ:

بنیادی طورپر منٹو کا مزاج اخلاق پرستی میں بڑا کٹّر واقع ہواہے۔ اس لیے وہ کسی ایک اخلاقی فیصلے سے مطمئن نہیں ہوتا بلکہ اپنی تفتیش جاری رکھتاہے اور اظہار کی یہ جدوجہد ایک فنی کاوش بن جاتی ہے۔ منٹونے اس نوع کی انفرادی تجربوں میں انسانی معنویت کی تلاش کی ہے۔

 مگر وارث علوی نے اس مسئلے کو منٹوکے نمائندہ افسانوں ’ہتک‘ یا ’کالی شلوار‘ کے پس منظر میں واضح کرنے کی کوشش کی ہے اور اس نوع کا کوئی اخلاقی فیصلہ صادر کرنے کے بجائے منٹو کو پوری طرح ایک آدرش وادی قلم کار تو ثابت نہیں کیا مگر اخلاقی اقدار کے معاملے میں منٹو کی ترجیحات کو ضرور نمایاں کیاہے۔ وارث علوی نے اس ضمن میں جنس کی اہمیت، انسانی زندگی میں جنس کی معنویت اور انسانی ارتقا کے عمل میں جنس سے متعلق مذہبی اور اخلاقی نقطۂ نظر کو سمجھنے کی کوشش کچھ اس طرح کی ہے:

’’جنس ایک بے پناہ حیاتیاتی قوت ہے جس کے ذریعے قدرت ہزاروں برس سے تمام جانداروں میں بقاے نسل کا کام لیتی رہی ہے۔ آدمی نے معاشی ضرورتوں کے لیے اسے اخلاقی سانچوں میں ڈھالا اور مذاہب عالم نے اخلاقیات کو گناہ اور ثواب، نیکی اور بدی، اور جزا اور سزا کی قدروں پر مستحکم کیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ منٹو، انسانی اعمال کے جبلی سرچشموں کا سراغ لگاتاہے۔ اس کا تجسّس یہ ہے کہ نیکی اور بدی، کہاں، کب اور کیسے رونما ہوتی ہے۔ انسان کا سماجی اور اخلاقی عمل تو محض دکھاوا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ادب کا اوّلین سروکار یہی ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ آدمی اندر سے کیا اور کیسا ہے۔ (اسی لیے) لوگ عرصۂ دراز تک اس کی حقیقی معنویت کو سمجھ نہیں پاتے، اور دکھاوے کا شکار ہوکر عریانی اور فحاشی مباحث میں الجھے رہتے ہیں۔ ‘‘

 وارث علومی، اس حقیقت سے پوری طرح باخبر ہیں کہ انسان سماجی اور اخلاقی موانعات اور جبلت کے ناپسندیدہ مظاہر کے معاملے میں کیسی کیسی تاویلوں، بہروپوں اور نفسیاتی پیچیدگیوں سے نبردآزما رہتاہے۔ یہی سبب ہے کہ منٹو کے افسانوں میں فطرت انسانی کے غیرمتوقع اور محیرالعقول مظاہر نے اکثر منٹو کے افسانے کی تفہیم میں اوّلیت کی حیثیت اختیار کرلی اور ہم نے ان کے محرکات کو نظرانداز کیا۔ اس پس منظر کو خودمنٹو نے بھی گو اپنے افسانوں میں مضمرات کی سطح پر رکھا ہے مگر بعض دوسری تحریروں میں اپنے نقطۂ نظر کا اظہار جن لفظوں میں کیاہے ان کو وارث علوی منٹو کی تفہیم کی کلید کے طورپر استعمال کرتے ہیں۔ منٹو کے الفاظ ہیں کہ:

’’چکّی پیسنے والی عورت جو دن بھر کام کرتی ہے اور رات کو اطمینان سے سوجاتی ہے میرے افسانوں کی ہیروئن نہیں ہوسکتی۔ میری ہیروئن چکلے کی ایک ٹکسالی رنڈی ہوسکتی ہے جو رات کو جاگتی ہے اور دن کو سوتے میں کبھی کبھی یہ ڈراؤنا خواب دیکھ کر اُٹھ بیٹھتی ہے کہ بڑھاپا اس کے دروازے پر دستک دینے آیاہے۔ اس کے بھاری بھاری پپولے، جن پر برسوں کی نیندیں منجمد ہوگئی ہیں۔ یہ سب میرے افسانے کا موضوع بن سکتے ہیں۔ اس کی غلاظت، اس کی بیماریاں، اس کا چڑچڑاپن، اس کی گالیاں یہ سب مجھے بھاتی ہیں۔ میں اسی کے متعلق لکھتا ہوں اور گھریلو عورتوں کی شستہ کلامیوں، ان کی صحت اور ان کی نفاست کو نظرانداز کرجاتاہوں۔ ‘‘

یہی وہ پس منظر ہے جو اس بات کا جواز فراہم کرتا ہے کہ منٹو کے افسانوں میں طوائف کا ذکر یا اس کے پیشے کی تفصیلات، چکلے کی فضا اور جنس کی سرگرمیاں بہ ظاہر محور دکھائی دیتی ہیں ورنہ حقیقت یہ ہے کہ وہ اس صورت حال کے وسیلے سے فرد کے طرز وجود کے کچھ اور عقدے حل کرنے کی کوشش کرتاہے۔ ممتازشیریں اور وارث علوی نے اپنے اپنے انداز میں اسی باعث ’ہتک‘ کے مرکزی کردار سوگندی کے اندر، عورت، فرد اور عدم تحفظ پر مبنی دوسرے عناصر کو جنس اور پیشہ وری سے کہیں زیادہ اہمیت دی ہے۔ ممتازشیریں نے سوگندی کے اندر ممتا کی جھلک تلاش کی ہے اور لکھا ہے کہ ’’جب سوگندی کے اندر پریم کرنے اور پریم کیے جانے کا جذبہ بہت شدت اختیار کرلیتا تھا تو اس کے جی میں آتا تھاکہ وہ اپنے پاس پڑے ہوئے آدمی کو تھپتھپانا شروع کردے اور لوریاں دے کر اپنی گود میں سلالے۔ ‘‘ وارث علوی نے بھی منٹو کے اس نوع کے افسانوں کو جنس اور طوائف کے پیشے سے بلند ہوکر دیکھاہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جن افسانوں کو آج تک محض جنس کے حوالے سے پڑھا گیا، ان میں بھی جنس کو عموماً ثانوی حیثیت حاصل ہے۔ ہتک کے علاوہ بھی طوائف پر لکھتے اور افسانوں کا تجزیہ کرتے ہوئے انہوں نے یہ دکھایاہے کہ ان میں عورت کی ممتا، بے بسی، تنہائی اور انسانیت سے متعلق دوسرے مسائل، جنس سے کہیں زیادہ نمایاں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ:

طوائفوں پر اس کی جتنی کہانیاں ہیں ہم انھیں جنسی کہانیاں نہیں کہہ سکتے۔ حالاں کہ جنس طوائف کی زندگی اور کردار کا حاوی جزو اور اس کا پیشہ ہے، لیکن ان افسانوں کے مرکز میں یا تو مامتا کا جذبہ ہے یا بے بسی اور تنہائی کا احساس یا وہ اس کی انسانیت اور نسائیت کو نمایاں کرتاہے۔ یہی چیز منٹو کی ہرطوائف کو دوسری سے الگ کرتی ہے۔ کیوں کہ گوپیشے، رہن سہن اور لیپاپوتی کے سبب تمام کسبیاں ایک جیسی نظرآتی ہیں لیکن ان کے اندر کی عورت دوسری سے مختلف ہے۔ اس لیے طوائف کا ہرکردار منفرد بن جاتاہے۔

طوائف کردار کی انفرادیت کی اس بحث کو وارث علوی آگے بڑھاتے ہیں، ہتک کی سوگندی کا تجزیہ کرتے ہیں اور اس کو رومانیت اور جنسیت کی لذت کوشی سے پوری طرح لاتعلق بتاتے ہوئے ذیل کے بعض ایسے نکات کو نمایاں کرتے جو سوگندی کے کردار پر اردو میں موجود وافر تبصروں میں بھی ہمیں برائے نام ہی ملتے ہیں۔ وہ اس کردار کو ان کی خارجی حرکات و سکنات پر انحصار کرنے کے بجائے داخلی طورپر کچھ اس طرح دریافت کرنے کی کوشش کرتے ہیں :

سوگندی کی کھولی میں منٹو ایک فرد کی بھائیں بھائیں کرتی تنہائی کا ایسا اجاڑ منظر دیکھتا ہے کہ اس کے سامنے اپنی ذات، ذات کی پاسداریاں اور شبہات سب ہیچ نظر آنے لگتے ہیں۔ وہ جاننا چاہتا ہے کہ اس کی حقیقت کیا ہے؟ اندر سے وہ کیسی ہے؟ کتنی تنہا، کتنی خالی ہے؟ اس کی جذباتی بے سروسامانی کا کیا عالم ہے، اور انسانی سماج میں ہی نہیں پورے نظامِ کائنات میں اس کے بے معنی دکھ اور کرب کے معنی کیا ہیں ؟

سعادت حسن منٹو کے مختلف افسانوں اور ان سے پیدا ہونے والے فکری اور فنی مسائل کی تفہیم و تعبیر کی جو داغ بیل ممتازشیریں نے نصف صدی پہلے ڈالی تھی اس کو امتدادِوقت کے ساتھ پوری طرح قابلِ قبول ہونے کا موقع گزشتہ دودہائیوں میں مل پایا۔ منٹو کے بعض کرداروں کے رشتے انہوں نے پہلی بار لیڈی میکبتھ، سلومی، پنڈوا، ڈی لیلا اور زلیخا کے کرداروں اور تعبیرات سے جوڑے، ایشرسنگھ کی مماثلت ہمنگوے کے فطری انسان میں تلاش کی، اور اس طرح منٹو کے حوالے سے انہوں نے اردو فکشن کی شعریات کی تشکیل میں کشادگی کا ثبوت دیا اور اردو فکشن کے نمائندہ کرداروں کے دائرۂ کار کو عالمی ادب کے شاہکاروں سے ملادیا۔ تاہم انہوں نے منٹو کے یہاں جس انسان کی پیش کش کی تلاش کی اسے بقول ان کے، فطری یا جبلی انسان کے تصور سے آگے بڑھ کر  ایک نامکمل انسان سے موسوم کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے بتایاکہ منٹو کے شروع کے افسانوں میں قنوطیت نمایاں ہے جب کہ بقول ان کے بعد کی کہانیوں میں رجائی عناصر کی افراط ہے۔ اس سلسلے میں ممتازشیریں بعض دریافتوں کو کبھی غیر اہم قرار نہیں دیا جاسکتا اور اردو کی عملی اور اطلاقی تنقید کے بڑھتے ہوئے رجحان کے باعث ممتازشیریں کی منٹوتنقید کو زمانی تقدم کا نمونہ اور نکتہ آفرینیوں کے سبب الگ سنگ میل قرار دیا جاسکتاہے۔ تا ہم اس بات کو نشان زد کرنا لازمی ہے کہ نظری بحث و تمحیص اور سماجی اور نفسیاتی نوعیت کی معلومات کی فراوانی اکثر ان کی تحریروں کو تجریدی فضا میں لے جاتی ہے، فنی تجزیہ کم کم ہی ملتاہے، جبھی تو مظفرعلی سید نے ممتازشیریں کے بارے میں لکھا تھا کہ ’’گویا مجسم تخلیق کی نسبت مجرد خیالات سے نقاد کی رغبت زیادہ ہے۔ ‘‘

 وارث علوی کا معاملہ ممتازشیریں کے اثرپذیری پر بھی مبنی ہے اور انھوں نے ان کی تنقید میں پائی جانے والی افراط و تفریط کو متوازن کرنے کی منصوبہ بند کوشش بھی کی ہے۔ منٹوفہمی سے وارث علوی کی دلچسپی کوئی نئی نہیں۔ انہوں نے ’بابوگوپی ناتھ‘، ’ہتک‘، ’توبہ ٹیک سنگھ‘ اور ’بو‘ وغیرہ پر متفرق تجزیاتی مضامین پہلے بھی لکھے تھے، مگر جب اس موضوع پر ان کی مبسوط کتاب ’منٹوایک مطالعہ‘ شائع ہوئی تو اندازہ ہواکہ انہوں نے اپنے بعض پرانے نتائج پر نظرثانی بھی کی اور غیرواضح تصورات کو منطقی انداز میں پیش کرنے کی طرف بھی توجہ مبذول کی ہے۔ انہوں نے منٹوکی سب سے بڑی دین یہ بتائی کہ اس نے افسانے کو نظم کے مغربی تصور کی طرح سڈول اور ہیئتی طورپر ضروری اور ناگزیر بنانے پر زور دیا۔ وارث علوی کی کتاب میں مباحث کی تقسیم سے بھی اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ اپنی کتاب کی منصوبہ بندی میں انہوں نے ممتازشیریں سے بیش از بیش استفادہ کیاہے۔ ذیلی عنوانات اور مباحث کا معاملہ ہو، نفسیات سے واقفیت ہو یا اردو افسانے کے مغربی سرچشموں کی بات، وارث علوی کی منٹو تنقید، ممتازشیریں سے متاثر ضرور ہے مگر اسے ان سے آگے کا قدم قرار دیا جاناچاہیے۔ تاہم اپنی عام تنقیدی تحریروں کے اسلوب اور لب و لہجہ کے برخلاف انہوں نے منٹوتنقید میں الفاظ کا اسراف بے نہیں کیاہے، حشووزوائد سے احتراز کیا اور اعلیٰ درجے کی سنجیدہ تنقیدی یا منطقی زبان و اسلوب کو پوری کتاب میں برقرار رکھاہے۔ کہنے کو تو وہ آج بھی یہی کہتے ہیں کہ ’’ایسی ناقدانہ تحریریں تخلیقی تجربے کا لطف رکھتی ہیں یا ایسی تنقیدوں کی زبان بہت حساس، تخلیقی اور ایمیجسٹ ہوتی ہے—-‘‘ تاہم منٹو کی تفہیم و تعبیر میں انہوں نے تاثراتی یا تخلیقی انداز یا اسلوب سے دور کا ہی سروکار رکھاہے—- یہ الگ بات ہے کہ بقول شخصے ’’ہراعلیٰ تنقیدی کارنامہ ایک منزل پر پہنچ کر ایک تخلیقی تجربے کی صورت اختیار کرلیتاہے۔ ‘‘

تبصرے بند ہیں۔