منکرِ حدیث کون؟

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

ایک امر کی طرف توجہ دلانا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ بسا اوقات منکرینِ حدیث کی فہرست تیار کرنے میں بے جا افراط سے کام لیا جاتا ہے اور بعض ان علمائے اسلام کو بھی اسی زمرے میں شامل کردیا جاتا ہے جو احادیث کی حجّیت کو تو تسلیم کرتے ہیں، البتہ انھوں نے اپنی تحریروں میں بعض بہ اعتبار سند صحیح احادیث پر کلام کیا ہے اور درایت کی کسوٹی پر پرکھ کر انھیں قبول کرنے میں تامّل کا اظہار کیا ہے۔ یہ تو ممکن ہے کہ ان کا تجزیہ درست نہ ہو اور وہ احادیث بہ اعتبارِ روایت اور بہ اعتبارِ درایت، دونوں پہلوؤں سے صحیح ہوں، ماہرینِ علوم الحدیث کو ان علما کی آرا کا محاکمہ کرنے اور ان کی غلطیوں کو واضح کرنے میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے، لیکن محض اس بنیاد پر انھیں منکرین و متشکّکینِ حدیث کی فہرست میں شامل کرنا درست رویّہ نہیں ہے۔

محدثین کرام کے نزدیک یہ اصول مسلّم ہے کہ ممکن ہے، بعض احادیث بہ اعتبارِ سند صحیح ہوں، لیکن بہ اعتبارِ درایت صحیح نہ ہوں۔ اس اصول کی روشنی میں انھوں نے بعض احادیث کو قبول نہیں کیا ہے اور انھیں ‘موضوع’ تک قرار دیا ہے۔ دیگر محدثین نے ان کی رائے سے اتفاق نہیں کیا ہے اور ایسی احادیث کی مختلف توجیہیں کی ہیں، لیکن ان پر انکارِ حدیث کا الزام نہیں لگایا ہے۔

اس سلسلے میں ایک مثال پیش کی جاتی ہے :

صحیح مسلم میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ لوگ ابو سفیان رضی اللہ عنہ کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے تھے اور ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے گریز کرتے تھے۔ انھوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے درخواست کی کہ اے اللہ کے نبی! میری تین گزارشات قبول کرلیجیے : آپ نے فرمایا : ٹھیک ہے۔ انھوں نے پہلی گزارش یہ کی کہ میری بیٹی ام حبیبہ عرب کی حسین و جمیل عورتوں میں سے ہے۔ اس سے نکاح کر لیجیے۔ آپ نے فرمایا : ٹھیک ہے…….. (حدیث نمبر 2501)۔

اس حدیث پر اشکال یہ ہے کہ حضرت ابو سفیان نے فتح مکہ کے موقع پر 8ھ میں اسلام قبول کیا تھا، جب کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم اس سے قبل ہی 6 یا 7 ھ میں ان کی صاحب زادی حضرت ام حبیبہ سے نکاح کر چکے تھے، پھر اس درخواست کے کیا معنی؟

محدثین نے اس حدیث کو صحیح مانتے ہوئے اس کی مختلف توجیہیں کی ہیں۔ لیکن علامہ ابن حزم نے اسے ‘موضوع’ کہا ہے اور اسے ایک راوی عکرمہ بن عمّار کی گھڑی ہوئی روایت قرار دیا ہے۔ اس کے جواب میں شیخ ابن الصلاح نے عکرمہ کو ثقہ راوی بتایا ہے اور ان کی تضعیف کرنے اور ان کی طرف وضعِ حدیث کی نسبت کرنے کے سلسلے میں ابن حزم پر سخت تنقید کی ہے۔ (شرح صحیح مسلم للنووی) لیکن نہ انھوں نے اور نہ ان کے علاوہ کسی اور محدث نے ابن حزم کا شمار منکرینِ حدیث میں کیا ہے۔ اس طرح کی اور بھی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔

حاصل یہ کہ کسی کو منکر و مشکّکِ حدیث قرار دینے میں احتیاط سے کام لینا چاہیے اور انکارِ حدیث کی نسبت صرف ان لوگوں کی طرف کرنی چاہیے جنھوں نے حدیث کی حجّیت کو چیلنج کیا ہے اور انھیں من حیث الکلّ قبول کرنے سے انکار کیا ہے۔

[انکارِ حدیث کی تاریخ پر اپنے ایک مضمون سے اقتباس]

تبصرے بند ہیں۔