موت، زندگی اور ایک کہانی کا خلاصہ

گل بخشالوی

بادشاہ نے وزیر سے کہا میں تمہاری خواہش کے احترام میں تمہیں آدھی سلطنت دیتا ہوں، وزیر حیران ہوگیا، پوچھا کیایہ ممکن ہے؟

بادشاہ نے دوسرا فرمان جاری کر دیا، وزیر کا سر قلم کرد و، وزیر پریشان ہوگیا، بادشاہ نے دونوں فرمان جاری کرتے ہوئے کہا تم کو میرے تین سوالوں کے جواب دینا ہیں۔ اگر صبح جواب دئے تو دوسرا حکم منسوخ ورنہ پہلے حکم منسوخ ہوجائے گا۔ جواب دینے کیلئے تمہارے پاس 30 دن ہیں۔

پہلا سوال:زندگی کی سب سے بڑی حقیقت کیا ہے ؟

دوسرا سوال : انسان کی زندگی میں اُس کی سب سے بڑی خواہش کون سی ہے؟

تیسرا سوال:انسان کی سب سے بڑی کمزوری کیا ہے؟

بادشاہ نے سوال بتائے اور کہا آج سے 29دن بعد آپ نے جواب دینا ہیں۔

وزیر نے سوال کے جواب کیلئے دانشوروں سے رابطے کے، پورے ملک کا دورہ کیا لیکن کسی کے پاس جواب نہیں تھا تھک ہار کر صحرا کی طرف نکلا، دیکھا تو ویرانے میں ایک فقیر بیٹھا ہے۔ وزیر انتہائی ناگفتہ حالت میں فقیر کے پاس آیا۔ فقیر سوکھی روٹی پانی میں بِگو بِگو کر کھارہا تھا۔ پاس پڑے ہوئے پیالے میں پڑا ہوا دودھ کتاپی رہا تھا۔ وزیر حیران تھا۔ فقیر نے کہا آﺅ!میں جانتا ہوں تمہاری پریشانی کیا ہے میں بھی تمہاری طرح بادشاہ کا وزیر تھا، مجھ سے بھی سوال پوچھے گئے تھے میں نے جواب دئےے لیکن زندگی کی حقیقت جان گیا اس لےے وزارت چھوڑ کر ویرانے میں ڈیرے جمالے۔

تمہارے پہلے سوال کا جواب زندگی کی سب سے بڑی حقیقت موت ہے، دوسرے سوال کا جواب انسان کی سب سے بڑی خواہش زندگی ہے، تیسرے سوال کا جواب اس شرط پر دوں گا کہ تم کتے کا جھوٹا دودھ پی جاﺅ۔

وزیرپریشان ہوگیا، فقیر نے کہا :سوچ لو، کل تم نے جواب نہ دئے تو تمہاری گردن اُڑادی جائے گی۔ وزیر نے دودھ کا پیالہ اُٹھالیا اور ایک سانس میں پی گیا۔ فقیر نے قہقہہ لگایا اور کہا!!

انسان کی سب سے بڑی کمزوری اُس کی غرض ہے۔

اپنے غرض کیلئے تم نے کتے کا جھوٹا دودھ پی لیا۔ غرض انسان کوزندگی میں جھکنے پر مجبور کر دیتی ہے۔

تبصرے بند ہیں۔