موت کا کھیل

لیہ کی تحصیل کروڑ کے چک نمبر 105میں قیامت ٹوٹ پڑی ، زھریلی مٹھائی کھانے کے بعد بچوں سمیت دیگر افراد کی ہلاکت کا سلسلہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہاہے ،اب تک 29 ہلاکتوں کی تصدیق ہوچکی ہے ۔ان ہلاکتوں کی تعداد اس حد تک بڑھنے کی بڑی وجہ تحصیل ہسپتال کروڑ ،اور ضلعی ہسپتال لیہ میں ان متاثرہ بچوں اور دیگر افراد کے معدے صاف کرنے کا کوئی انتظام نہیں تھا، ڈیوٹی ڈاکٹروں کی طرف سے ان افراد کی زندگیاں بچانے کیلئے کوئی ہنگامی بنیادوں انتظام کرنے کی بجائے ایمرجنسی میں ہسپتال میں لائے گئے افراد جن میں بڑی تعداد بچوں کی تھی، نشتر ہسپتال ملتان لیجانے کا کاغذتھماکر جان چھڑا لی گئی۔ بدقسمتی سے ڈاکٹروں کی طرف سے ایمرجنسی کی صورتحال میں وقت کی اہمیت کا اندازہ یوں نہیں کیاگیاکہ لیہ اور ملتان کا فاصلہ تین گھنٹے کا ہے اور زھریلی مٹھائی کاشکار افراد کو فوری طور پر علاج کی ضرورت تھی ۔یوں لواحقین کو اپنے تڑپتے بچوں کو نشترہسپتال ملتان لیجانے کا کاغذ دے کر موت کو اور بھی قریب کردیاگیا کہ زھریلی مٹھائی کا اثر نشتر ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی متاثرہ افراد بالخصوص بچوں کو موت کے منہ میں لے گیا۔ ادھر زھریلی مٹھائی کا شکار افراد کو ان کے لواحقین نے الائیڈ ہسپتال فیصل آباد لیجانے کیلئے بھی ایمبولنسیں اور گاڑیاں دوڑائی گئیں لیکن وہی ہوا کہ فیصل آباد کا فاصلہ لیہ اور ملتان سے بھی زیادہ تھا ۔ ادھرسرائیکی دھرتی میں موٹروے نام کی کوئی چیز سرے سے موجود ہی نہیں ہے ،یوں الائیڈ ہسپتال کی دوری بھی موت کو جلدی قریب کرگئی اور معصوم بچوں نے اپنے پیاروں کے ہاتھوں دم توڑدیا اوراس صورتحال میں لواحقین کے کیاجذبات تھے، ان کو ا لفاظ میں بیان کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔
اب اطلاعات آرہی ہیں کہ کروڑ (لیہ) میں جس بچے کی پیدائش پر مٹھائی منگوائی تھی، اسکے کھانے سے بچے کاوالد سجاد بھی دم توڑ گیاجوکہ پہلے جابحق ہونیوالے 7سگے بھائیوں کا 8واں بھائی تھا ۔خاندان کے سربراہ عمرحیات کے 8 بیٹوں، ایک بیٹی اور پوتا ،پوتی سمیت اب تک خاندان کے3 1 افراد جان کی بازی ہارچکے ہیں۔ہلاکتوں کی تعداد سے اس سانحہ کی شدت کا اندازہ بخوبی لگایاجاسکتاہے لیکن دوسری طرف تخت لاہور کے حکمران وہی پرانی پالیسی لیکر چل رہی ہے کہ لواحقین میں امدادی چیک تقسیم کرکے اور عائشہ ممتاز کو لیہ بھجواکر جان چھڑارہے ہیں جوکہ اس سانحہ کے لواحقین کیساتھ ہمدردی سے زیادہ کروڑاور لیہ کے ہسپتال میں سہولتوں کی عدم دستیابی پر پردہ ڈالناہے ۔ادھر لیہ کے ارکان اسمبلی لواحقین کے پاس جانا تو درکنار، اس سانحہ کے بعد غائب ہوگئے ہیں جوکہ قابل مذمت ہے ۔
تحصیل ہسپتال کروڑ اور ضلعی ہسپتال لیہ میں ڈاکٹروں کی عدم توجہی تو قابل تنقید ہے لیکن کروڑاور لیہ ہسپتالوں میں ان سہولتوں کا نہ ہونا جوکہ ان زھریلی مٹھائی کا شکار ہونے والوں کیلئے ہسپتالوں میں ضرورت تھی ، اسکی ذمہ داری تو یقیناحکومت پنجاب اور لیہ کے ارکان اسمبلی پر ہی ہے۔روزنامہ خبریں کے ادارتی صفحہ پر راقم الحروف نے اس بات کا تواتر کیساتھ ذکرکیاہے کہ ضلعی ہسپتال لیہ کیلئے جو اراضی لیہ کو ضلع بناتے وقت رکھی گئی تھی ،اس پر اسکو منتقل نہیں کیاگیا ہے ،یوں موجودہ جگہ پر ہسپتال ضلعی سطح پر صحت کیلئے درکار معیار کو پوراکرنے کیلئے ناکافی ہے اور بعض طاقتور افراد اس کوشش میں مصروف ہیں کہ لیہ ضلعی ہسپتال کیلئے مختص زمین پر آفیسرز کالونی بنالی جائے۔ زھریلی مٹھائی کے کاشکار افراد کی بڑی تعداد میں ہلاکتوں کے بعد ضلعی ہسپتال لیہ میں درکار سہولتوں کے فقدان کیوجہ سے قیمتی جانوں کے ضیاع پر تو میڈیا میں آجکل بات
ہورہی ہے لیکن اس طرف دھیان نہیں دیاجارہاہے کہ اسی طرح کی صورتحال بھکر اور میانوالی کے ضلعی ہسپتالوں میں اسوقت دیکھنے کو ملی جب 6 اپریل کو لیہ سے راولپنڈی جانیوالی بس میانوالی میں ایم ایم روڈ پر ٹرالر کیساتھ ٹکراؤ کے بعد حادثہ کا شکار ہوگئی تھی ، جسکے نتیجہ میں 8 افراد موقعہ پر ہلاک ہوگئے ۔بس حادثہ کے شکار زخمی افراد کو میانوالی اور بھکر کے ضلعی ہسپتالوں میں اسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا جیسے کہ تحصیل کروڑ کے قریبی علاقہ میں زھریلی مٹھائی کھانے والے افراد کو یوں ہوا کہ میانوالی اور بھکر کے ہسپتالوں میں وہ سہولتیں موجود نہیں تھیں جوکہ ہنگامی طورپر انکی زندگیاں بچانے کیلئے درکار تھیں ۔ادھر ایمرجنسی وارڈ میں ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹروں نے ضلعی ہسپتال لیہ کے ڈاکٹروں کی طرح نشتر ہسپتال ملتان اور الائیڈ ہسپتال فیصل آباد کیلئے ریفر سلپ تھمادی ،یوں بس حادثہ میں زخمی جنکی زندگیاں بچائی جاسکتی تھیں وہ علاج معالج کی برووقت سہولتیں نہ ملنے کیوجہ سے موت کے منہ میں چلے گئے ۔عینی شاہدین کے مطابق موقعہ پر بس حادثہ میں آٹھ افراد جابحق ہوئے جبکہ باقی ماندہ 12 سے زائد افرادمیانوالی اور بھکر کے ہسپتالوں میں علاج معالج کی سہولتیں نہ ہونے کیوجہ سے نشتر ہسپتال ملتان اور الائیڈ ہسپتال فیصل آباد بھجوانے پر وقت کے ضیاع کیوجہ سے ہلاک ہوگئے۔
میانوالی اور لیہ کے دوحادثو ں میں پچاس کے قریب اسوقت تک قیمتی جانیں چلی گئیں لیکن لیہ کے ارکان اسمبلی اس غمزدہ صورتحال میں عوام کی خاطر آواز اٹھانے کی بجائے تخت لاہور کیساتھ ملکر تھل کے عوام کیساتھ وہی اداکاری کررہے ہیں ۔قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی کا ریکارڈ نکلوا لیں،لیہ کے ا رکان اسمبلی کی طرف سے کبھی بھی اس بات کا تقاضا نہیں کیاگیا ہے کہ ضلعی ہسپتال لیہ کے فنڈز لاہور کیوں منتقل کیے گئے ؟ میانوالی،بھکر اور لیہ سے جوایم ایم روڈ گزر کر ملتان جارہی ہے ،اسکو موٹروے میں کیوں تبدیل نہیں کیجارہا ؟ بجٹ میں میانوالی ، بھکر اور لیہ کا ترقیاتی فنڈز کاغذی کاروائی سے آگے کیوں نہیں بڑھ رہا ؟ پنجاب حکومت کی طرف سے میانوالی ،بھکر اور لیہ اور کوٹ ادو کو ملا ڈویثرن بنانے کا جو اعلان کیاگیا تھا ، اس پر عمل کب ہوگا ؟ان ارکان اسمبلی نے یہ سوال اسمبلی میں کیوں نہیں اٹھایاکہ میانوالی ،بھکر اور لیہ جیسے بڑے دورافتادہ ضلعوں کے عوام کو علاج و معالج کی سہولتوں کی فراہمی کیلئے ابھی تک کوئی میڈیکل کالج او ر نشتر ہسپتال جیسا ادارہ قائم کیوں نہیں کیاگیا ؟ ٹراما سنٹر فتح پور (لیہ) بلڈنگ مکمل ہونے کے باوجود ورکنگ میں کیوں نہیں ہے ؟ وویمن ٹیکنکل کالج لیہ میں عمارت سالوں سے مکمل ہونے کے باوجود کلاسوں کا اجراء کیوں نہیں کیاگیا ؟
آخر پر لیہ کے سیاستدانوں کی سیاست کی ایک اور جھلک تاکہ سندرہے ، اعجاز اچلانہ جوکہ لیہ کا ایم پی اے ہے اور پارلیمانی سیکرٹری داخلہ پنجاب بتایاجاتاہے ، وزیرداخلہ پنجاب شجاع خانزادہ کی شہادت ہوئی تو خاموش ، چھوٹو گینگ کا معاملہ چلا اور سات پولیس اہلکار موت کے منہ میں چلے گئے تو بھی خاموش اور اب پھر لیہ میں زھریلی مٹھائی کیوجہ سے 29معصوم افراد بالخصوص بچوں کی ہلاکت کے بعد بھی موصوف خاموش ،تعزیت اور ضلعی ہسپتال لیہ میں سہولتوں کے فقدان پر بھی خاموش ۔ ادھررکن قومی اسمبلی ثقلین بخاری کا بڑا کارنامہ اپنے آبائی گاؤں پیرجگی میں تھانہ کا قیام ہے ،باقی رہے نام اللہ کا ۔ان کے علاوہ ارکان اسمبلی کیاکرتے رہے ہیں اور کیا کررہے ہیں ؟ اگلی بار ۔ اس وقت آپ سے درخواست ہے کہ لیہ کے عوام کیلئے دعاکریں کہ وہ پنجاب حکومت کے دعوؤں کو اپنی زندگی میں حقیقت کا روپ دھارتے دیکھ سکیں اور معصوم بچوں کی لاشیں اٹھانے کا سلسلہ تھم سکے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔