ایک اک نغمہ مرے دل کی صدا لگتا ہے

با وفا لگتا ہے نہ شخص برا لگتا ہے
جانے کیا بات ہے پر سب سے جدا لگتا ہے

تب سے پتھر بنے بیٹھا ہے صنم خانے کا
ہم نے اک بار کہا تھا تو خدا لگتا ہے

دیکھتا رہتا ہے چپ چاپ ستاروں کی طرف
جانے کیوں خود سے بھی وہ اتنا خفا لگتا ہے

پاسباں بن کے ہی لْوٹا ہے زمانہ اکثر
راہزن ہے کہ ہمیں راہنما لگتا ہے

حسرتِ دل کی جو سوچو تو ہنسی آئے گی
چھوٹی باتوں پہ نہ جاؤ کہ برا لگتا ہے

میری آغوش میں پلتے ہیں ہزاروں نغمے
ایک اک نغمہ مِرے دل کی صدا لگتا ہے

نشترِ غم ہے کہ مٹتا ہی نہیں دل سے نثارؔ
بھولنے جائیں تو اتنا ہی ہرا لگتا ہے

تبصرے بند ہیں۔