موجودہ دور میں مسلمانوں کو درپیش مسائل

نزہت قاسمی

 دور حاضر مقابلوں کا دور ہے ہر شبعہ حیات میں مقابلے درکار ہیں. ان مقابلوں کو جو سمجھے گا اور پرکھے گا پھر اسکو قبول بھی کرے گا  بلکہ قبول ہی نہیں جیتنے کی صلاحیت بھی رکھے گا وہی کامیاب ہوگا . ہم مسلمانوں کو تین اہم مقابلے درکار ہیں . جس کے ذریعہ ہم اپنے ملک میں اپنا مستحکم مقام برابری یا مقام بلکہ اعلیٰ مقام پاسکتے ہیں.

1. مسلم قیادت   2 . مِلّی اتحاد  3۔  تعلیم کا حصول 

 مسلم قیادت :

 ہمیں آج ایسی مسلم قیادت چاہیے جو پائیدار, ایماندار اور اثردار ہو .. اگر ہم ان تینوں خوبیوں والی قیادت جو اگر پیدا کرلیں, پھر تو کیا کہنے صاحب ..  مِلّت کو درپیش کئی مسائل کےلئے ہمیں دوسروں کی جی حضوری کرنےاور انکی خوشنودی حاصل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہوگی.. دراصل مسلمان لیڈاران جو ملک کی مختلف پارٹیوں میں ہیں اُن پارٹیوں کے اصولوں کے مطابق اور پارٹیوں کی مسلم ووٹوں کی طلب کے مطابق یہ لوگ کام کرتے ہیں. مثلا ایک مسلم لیڈر جس بھی پارٹی میں ہوگا وہ اس علاقہ میں مسلمانوں کا نمائندہ ہوگا اور تھوڑابہت اپنی ملت کے لئے کچھ کرے گا. پارٹی والے بھی مسلمانوں کو اپنے ساتھ رکھنے کیلئے وقتاً فوقتاً کچھ خوش آئیندہ وعدے کرینگے. یاپھر کچھ دے دلا کر مسلمانوں کو راضی رکھیں گے. مسلمان لیڈر سوچےگا کچھ بھی نہیں سے بہتر کچھ ہی سہی تو یہی سہی …. بس اسی طرح چلتا جارہا ہے کئی مسلمان لیڈران جوکہ اپنامقام بس اس ہی طرح بناکر خوش ہیں کہ ہم مسلم نمائندے ہیں اور جو مضبوط قیادتیں ہیں اُن کواور مضبوط کرتے ہوئے مسلمانوں کےاصل مقام کو مسمار کرتے چلے جارہے ہیں .آج ہم ہوش میں آئے ہیں تو دیکھ رہے ہیں کہ ہم کتنا پچھڑگئے ہیں .. اللهُ اکبر ! آج جب ظلم کی انتہا ہوچکی تو ہائے توبہ مچی ہوئی ہے کہ ہم کتنی غفلت میں ہیں ہمیں کیا کرنا ہے اور کیا ہورہا ہے ہم کتنے کمزور ہوگئے ہیں ہم اپنی خودی کو کہاں ڈھونڈیں ؟

 مِلّی اتحاد:

ایسے ملی اتحاد کی ضرورت ہے جوکہ صاف ظاہر ہو بلکہ سامنے والے پر اسکا اثر ہو. اختلاف سے ماوراء اتحادآج ہماری اشد ضرورت ہے . اس اتحاد میں پارٹیوں, مسلکوں,اور علاقوں کاکوئی وجود نہ ہو .کئی متنازعہ مسائل سے پرے اگر ہم حق پر نظر رکھیں اور حق کی بنیاد پر اتحاد کو قائم کریں تو ایسا اتحاد ہماری کامیابی کا ضامن ہوگا.اور ہماری ملت کیلئے فائدہ مند ہی نہیں بلکہ سود مندبن جائےگا. اسکے لئے ہمیں انتہائی زیرک انداز میں اپنے آپ کو تنازعوں سے بچا کر مصلحت اور مشاورت کے ذریعہ ملت کو انتشار سے بچاتے ہوئے اتفاق کی طرف لانا ہوگا. بےشک ایسے کئی باشعور مسلم مذہبی اور سیاسی نمائندے ہمارے معاشرے میں ہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ سب ایک پلیٹ فارم پر آئیں . تب ہی ہمارا اتحاد ظاہر ہوگا. ہم اپنے دین اسلام جوکہ بہترین زندگی کا ضامن ہے اسکو چھوڑ زمانے کی روش کے پیچھے اندھا دھند بھاگ رہے ہیں اورنتیجہ دیکھئے ہم کہاں پہنچ گئے.

ہم سیکیولر,جمہوری ملک میں رہتے ہیں . یہاں کے شہریوں کو کلی سیاسی اور مذہبی آزادی حاصل ہے. اور اسلام میں تو سیاست کے لئے ایسے انتہائی بہترین اصول ہیں جس کو اپنا کر ہم ایسی مسلم قیادت کو تشکیل دے سکتے جوکہ ملت کےلئے ہی نہیں بلکہ دوسرے ہم وطنوں کے لئے بھی بے حد فائدہ مند ثابت ہوگی … کاش ہم میں اتنا شعور پیدا ہوجائے تو الله کا بڑا کرم ہوگا اور ہم اپنی پائیدار اور ایماندار اور اثردار مسلم قیادت کو ضرور پاسکیں گے .ان شاء الله

 تعلیم کاحصول :

اس معاملے میں ہم ابھی ابھی جاگے ہیں . اس فقدان کو ختم کرنے کی دوڑ ابھی ہم نے بس شروع ہی کی ہے . اس مقابلے کو جیتنا ہماری اشد ضرورت ہے . اور ملت میں کئی رہبر ایسے ہیں جو اپنی پوری توجہ اس پررکھتے ہیں . ان شاء الله ہم ضرور کامیاب ہونگے .. حصولِ تعلیم ہر شعبہ حیات میں ہو تب ہی ہم اپنے مسائل کو اچھی طرح سے خود ہی بلکہ ملکی قوانین کی افادیت کے ساتھ حل کرسکتے ہیں . تاکہ ہمیں کوئی بہلا نہ سکے اور نہ ٹال سکے . ہر شعبہ حیات میں آگے بڑھناہی ہمارے مسائل کا حل ہے. اس کے لئے دانشوارانِ ملت کو ملت کی بھر پور رہنمائی کرنی ہوگی انھیں نشاندہی کرنی ہوگی کہ کسطرح ہم ملک کی معیشت، سیاست اور سرکاری انتظامیہ میں اپنی بھرپور نمائندگی کرسکتے ہیں اور اپنے ملک میں اپنے حقوق حاصل کرسکتے ہیں۔

ہم اپنے ملک میں دیگر جماعتوں کا اتحاد اور اتفاق دیکھتے ہیں کہ اگر انکے خلاف ملک میں کہیں بھی کچھ بات ہوجائے یا انکی قدورں کو ٹھیس پہنچ جائے تو سب کے سب  کشمیر سے لے کر کنیاکماری تک اس کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں بلکہ ایک آواز میں احتجاج درج کرواتے ہیں . ایسا اعتماد اور اتحاد والا احتجاج ہم نے ابھی ابھی سیکھا ہے . جبکہ ہم کئی ایسے ظلم سہہ گئے ہیں جہاں ہم اتحاد دکھا سکتے تھے .. خیر دیر آئے درست آئے .اب یہ ہمارا اتحاد ہمیشہ قائم رہے . یہ ہماری کامیابی ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


2 تبصرے
  1. آصف علی کہتے ہیں

    قوموں کے عروج و زوال کے لیے اللہ نے کچھ اصول و ضوابط و قوانین مقرر کر رکھے ہیں، جس بھی قوم کا کردار و عمل تعمیری ہو گا یعنی اپنے آپ کو زمانے کے ارتقائی عمل کے ساتھ ہم آہنگ کر لیں وہ قوم، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ترقی کے منازل طے کرتی جاتی ہے . قوموں کو اس کے کردار و عمل کے لحاظ سے تین قسموں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے
    1…. وہ قومیں جو علم و عقل سے کام لیتی ہیں اور قدرت کی دی گئی قوتوں کو مسخر کرتی ہیں اور اس کے فوائد کو عالم گیر فلاح و بہبود کے لئے خرچ کرتی ہیں وہ ٫الدین، کی حامل یا مؤمنین کی قوم کہلوائے گی.
    اس قسم کی قوم اس وقت اس کرہ ارض پر نا پید ہے.

    2….وہ قوم جو علم و عقل سے کام لیتی ہے اور قدرت کی دی گئی قوتوں کو مسخر کرتی ہے اور اس کے فوائد بجائے کہ عالم گیر فلاح و بہبود کے لئے خرچ کرے، گروہ بندانہ مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہے جیسا کہ آج یورپ یا دوسری ترقی یافتہ قومیں یا ممالک اس کی مثال ہیں ..
    اب جو قوم یا ممالک زیادہ تسخیر کی طاقت رکھتی ہیں وہ کم ترقی یافتہ قوم یا ممالک پر غالب آ جاتی ہیں.
    3…..مذہب پرست قومیں علم و عقل سے کام نہیں لیتیں لہٰذا تسخیر کائنات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا. جیسا کہ آج کی مسلمان قوم ہے یا جیسے چند صدیاں پیچھے یورپی قوم جومذہب میں لت پت تھیں، جسے یورپ کا تاریک دور کہا جاتا ہے.
    مذہب پرست قوم کو چمگادڑ کی طرح تاریکی ہی راس آتی ہے. ترقی یافتہ قومیں جب چاہیں انہیں مذہبی فرقہ وارانہ بنیاد پر لڑا کر اپنے مفادات حاصل کرتے رہنے میں کسی قسم کی مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا. ایسی قوم اپنے آپ کو وقت کے ساتھ ہم آہنگ نہیں کر پاتیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید تنزلی کا شکار رہتی ہیں.
    ایسی قوم خود تو کوئی تسخیر کر نہیں سکتی لیکن دوسری قوموں کی تسخیر شدہ چیزوں کے استعمال پر منھ بسورتی ہے جیسا کہ سب کو معلوم ہے کہ جب یورپ نے پرنٹنگ پریس ایجاد کیا تو سلطنت عثمانیہ کے علماء نے اسے حرام قرار دیا اور دو سو
    سال تک پابندی برقرار رکھوائی اور اگلے مزید دو سو سال تک قرآن کی پرنٹنگ پر پابندی رہی. آج یہی چار سو سال کا گیپ ہزار سال میں بدل چکا ہے. اسی قوم کے علماء نے لاوڈ اسپیکر، ٹیلیویژن کو بھی غیر شرعی قرار دینے کے فتوے دئیے. زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں اکیسویں صدی کے سال فروری 2014 میں جب ہندوستان نے مریخ پر اپنا سیارہ بھیجا تومفتی اعظم دوبئی
    کا فتوی آیا کہ مریخ پر رہائش رکھنا شرعی طور پر ناجائز ہے. آج فلکیات کا علم سو فیصد درست ہونے کے باوجود ہمارے علماء مستفید ہونے کی اجازت نہیں دیتے اور ایک ہی علاقے اور ملک میں تین تین عیدیں کروا کر انتشار پھیلاتے ہیں. اسرائیلی حکومت نے ایک ہزار سال کا قمری کیلنڈر تیار کر کے اسے فالو بھی کر رہے ہیں.
    لہٰذا ہم جب اسلام کو بطور مذہب اپنائیں گے تو مسلمانوں کو قوت نہیں مل سکے گی کیونکہ مذہب( نقطہ نظر) صرف ذاتی بخشش اور پوجا پاٹ تک محدود کر دیتا ہے معاشرے پر مثبت اثرات مرتب نہیں ہوتے جیسا کہ آج مسلمانوں میں عبادات کا بھی زور ہے لیکن معاشرہ ابتری کی طرف گامزن ہے. اس ابتری سے نکلنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ اسلام کو بطور دین یعنی بطور ضابطہ حیات اپنایا جائے اور صرف قرآن ہی سے ریاستی سطح پر تکریم انسانیت کی بنیاد پر قوانین وضع کیے جائیں اور اپنائے جائیں.

  2. hafsajamaal کہتے ہیں

    مذہبی قیادت کی نہیں ، بلکہ مسلم قیادت کی بابت اظہارِ خیال پیش کیا گیا ہے ۔۔۔ جبکہ اسلام کے دائرے کار میں سیاست کی بھی بہترین نمائندگی شامل ہے ۔۔
    . . . . . . نزہت قاسمی ۔

تبصرے بند ہیں۔