مودی حکومت کے چار سال یا لوجک اور فیکٹس کے اچار سال؟

رویش کمار

مودی حکومت کے چار سال پورے ہونے کے دن بھی پیٹرول اور ڈیزل کے دام بڑھے ہیں۔ 13 مئی سے 26 مئی کے درمیان پیٹرول کی قیمت  میں 3.86 روپے اور ڈیزل کی قیمت میں 3.26 روپے  کا اضافہ ہو گیا ہے۔ کرناٹک انتخاب ختم ہوتے ہی اخباروں نے لکھ دیا تھا کہ 4 روپے فی لیٹر قیمت بڑھیں ‌گی، قریب قریب یہی ہوا ہے۔ یعنی قیمت  بڑھانے کی تیاری تھی لیکن امت شاہ نے بول دیا کہ حکومت گھٹانے پر پلان بنا رہی ہے۔ ایک دو دن سے زیادہ بیت گئے مگر کوئی پلان سامنے نہیں آیا۔

ہم سب سمجھتے ہیں کہ تیل کے دام کیوں بڑھ رہے ہیں، مگر حکومت میں بیٹھے وزیر کو ہی بتانا چاہیے کہ حزب مخالف میں رہتے ہوئے 35 روپے  فی لیٹر تیل کیسے فروخت کروا رہے تھے۔ آج کے جھوٹ کی معافی نہیں مانگ سکتے تو پرانے بولے گئے جھوٹ کی معافی مانگ سکتے ہیں۔ جس طرح سے سوشل میڈیا پر بکواسوں کا جال بچھایا گیا ہے، وہ بتاتا ہے کہ یہ حکومت عوام کی عقل اور منطق  کی کتنی عزت کرتی ہے۔

بزنس اسٹینڈرڈ کے شائن جیکب کی رپورٹ پڑھیے۔ 2015 میں وزیر اعظم مودی نے کہا تھا کہ 2022 تک ہم تیل کی در آمد 10 فیصدی کم کر دیں ‌گے۔ اس وقت تیل کی در آمد 16.4 فیصدی بڑھ چکی ہے۔ کہتے کچھ ہیں ہو کچھ جاتا ہے یا پھر ان کو پتہ نہیں ہوتا کہ کرنا کیا ہے اور کہنا کیا ہے۔

حکومت آئی تو خوب دعوے کیے گئے کہ کوئلے کی کان کے لائسنس دیے گئے ہیں۔ ان میں شفافیت آئی ہے۔ کیا آپ کو پتہ ہے کہ کتنی کانیں چالو ہوئی ہیں اور کتنی چالو ہی نہیں ہوئیں۔ اس کی وجہ جانیں‌ گے تو اور دکھ پہنچے ‌گا کہ حکومت کے کتنے جھوٹ کا پردہ فاش ہوتے دیکھیں، اس سے اچھا ہے کہ چلو بھکت ہی بن جایا جائے، کم سے کم سوچنا تو نہیں پڑے ‌گا۔ حالت یہ ہے کہ دو ہفتے میں دو بار حکومت کول انڈیا کو لکھ چکی ہے کہ کوئلے کی پیداوار بڑھائیے اور بجلی کمپنیوں کو دیجیے کیونکہ گرمی میں مانگ بڑھ گئی ہے۔ کیا حکومت کو پتہ نہیں تھا کہ جب بجلی پہنچی ہے تو گرمی ہو یا سردی، مانگ بھی بڑھے ‌گی۔ گرمی کا بہانہ کر رہی ہے مگر ستمبر سے دسمبر کے درمیان بھی کوئلے کی فراہمی کم تھی۔ کوئلے کی کمی سے 2017 میں بھی بجلی کی پیداوار پر اثر پڑا تھا۔ پیداوار گھٹی تھی۔

رٹائر ہو چکے لوگوں کو اب نیو پینشن اسکیم کا جھانسا سمجھ آرہا ہے۔15-14 سال سے چلی آرہی اس اسکیم کے تحت جو رٹائر ہو رہے ہیں ان کو پینشن کے نام پر1300-1200 روپے مل رہے ہیں۔ اس کے لیے یہ لوگ بھی خود ذمہ دار ہیں۔ مدعے کو لے کر نہیں سمجھنا، جھانسے میں آنا، کاہلی کرنا، اور اپنا دیکھو، دوسرے کا چھوڑو کرتے کرتے وقت کاٹ لینا۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج جب ہاتھ میں 1300 روپے  دیکھ رہے ہیں تو سمجھ نہیں آرہا ہے کہ کیا کریں۔ مودی مودی کریں یا رام رام کریں۔

EPFO پروویڈینٹ فنڈ کی بیاج شرح 5 سال میں سب سے کم ہو گئی ہے۔ 5 کروڑ لوگوں کو18-2017 کے لئے 8.55 فیصد بیاج ہی ملے‌گا۔13-2012 کے بعد یہ سب سے کم ہے۔

پنجاب نیشنل بینک، اسٹیٹ بینک آف انڈیا، بینک آف بڑودا ،ان سب کا نقصان دیکھیے۔ ان کا نقصان تاریخ بنا رہی ہے۔ آئی ڈی بی آئی کا مجموعی این پی اے 28 فیصدی ہو گیا ہے۔ ایک بینکر نے کہا کہ حکومت جب دعویٰ کرتی ہے کہ انفراسٹرکچر پر کام ہو رہا ہے۔ سرمایہ کاری ہو رہی ہے تو پھر وہی بتا دے کہ اسٹیل صنعت کیوں بحران میں ہیں۔ کیوں اسٹیل صنعت سے این پی اے ہو رہا ہے۔ ہم عام لوگ حکومت کے فرضی واڑے کو نہیں سمجھ پاتے مگر بینکر کی ایک لائن سے تصویر کھنچ جاتی ہے۔ ایک لکشمی بلاس بینک ہے اس کو بھی 600 کروڑ کا نقصان ہوا ہے۔

بینک کا پورا سسٹم تباہ ہے۔ بینک ملازم اتنی کم تنخواہ میں کام کر رہے ہیں کہ پوچھیے مت۔ 17500 روپے کی تنخواہ میں کوئی بینک کلرک دہلی  شہر میں کیسے رہ سکتا ہے۔ کہیں بھی اس تنخواہ میں کیسے رہتا ہوگا۔ اب بینکروں کو ٹرانسفر کا ڈر دکھاکر ان سے دوسرے کام کرائے جا رہے ہیں۔ حکومت کو پتہ ہے کہ بینک ختم ہونے کی حالت میں ہے۔

اس لیے ان کو کبھی کرنسی لون کے فرضی واڑے کا ٹارگیٹ دو تو کبھی اٹل پینشن یوجنا کا۔ یہی نہیں بینک اب آدھار کارڈ بھی بنوا رہے ہیں۔ ان سب کے بعد بھی بینکروں کی تنخواہ نہیں بڑھ رہی ہے۔ بینکر روز شام کو کام ختم ہونے کے بعد برانچ کے باہر مظاہرہ کرتے ہیں۔ لاکھوں بینکروں کی زندگی تباہ ہو چکی ہے۔ ان کے یہ پانچ سال کبھی نہیں لوٹیں ‌گے۔ نوٹ بندی جیسے فراڈ کو وہ دیش سیوا سمجھ رہے تھے۔ اس لیے ضروری ہے کہ عوام  اپنی سمجھ کی توسیع کریں۔ بھگتی تو کبھی بھی کی جا سکتی ہے۔

وہی حال دو لاکھ دیہی ڈاک ملازمین کا ہے۔ ان کی تنخواہ نہیں بڑھی ہے۔ یہ لوگ 5000 روپے  میں کیسے جیتے ہوں ‌گے۔ حکومت ان کو ہندو ہی سمجھ‌کر تنخواہ دے دے یا بھکت حکومت سے کہیں کہ یہ ہندو ہیں اور ان کو تکلیف ہے۔ 12 دنوں سے ہڑتال پر ہیں مگر کوئی ان سے بات کرنے کو تیار نہیں۔ دیہی ڈاک ملازمین کے ساتھ غیر انسانی سلوک  ہو رہا ہے۔

کوبرا پوسٹ کا اسٹنگ دیکھیے۔ میں اسٹنگ کو لےکر ہمیشہ دوری رکھتا ہوں مگر اس کی حقیقتوں کی تفتیش تو ہونی چاہیے۔ اگر ہم صرف ان دیکھی ہی کرتے رہیں‌گے تو پھر ایسے خطروں کے لیے تیار رہیے جس کا تصور آپ نے نہیں کیا ہے۔ کیونکہ ان کی مار آپ پر پڑے‌ گی جیسے لاکھوں بینکروں پر پڑ رہی ہے۔

اسٹنگ سے پتہ  چلتا ہے کہ موبائل کمپنی پے ٹی ایم کمپنی نے اپنا ڈیٹا حکومت کو دیا ہے۔ یہی بات امریکہ میں سامنے آئی ہوتی تو ہنگامہ ہو گیا ہوتا۔ روی شنکر پرساد فیس بک کو تو للکار رہے تھے، کیا اس اسٹنگ کے بعد پے ٹی ایم پر کچھ کر سکتے ہیں؟ آنے والے انتخاب میں کھیل بگ ڈیٹا سے ہوگا۔ اس کی تیاری ہو چکی ہے۔ اس موضوع کو سمجھنے والے بہت دنوں سے بتا رہے ہیں۔ دیکھتے ہیں کیا ہو رہا ہے۔

مگر ایسا کون سا سیکٹر ہے جس کے لیے حکومت جشن منا سکتی ہے؟ میرے حساب سے دو سیکٹر ہیں۔ ایک جھوٹ اور دوسرا مذہبی کٹرپن۔ ہر حکومت کے دور میں ایک سیاسی تہذیب پنپتی ہے۔ مودی حکومت کے دور میں جھوٹ نئی سرکاری تہذیب ہے۔ جب وزیر اعظم ہی جھوٹ بولتے ہیں تو دوسرے کی کیا کہیں۔ دوسری تہذیب ہے مذہبی  کٹرپن کی۔ بھارتیہ جنتا پارٹی اور آر ایس ایس سے اتفاق رکھنے والی کئی تنظیمیں بن‌کر کھڑی ہو گئی ہیں جو کام تو انہی کے لیے کرتی ہیں مگر الگ اس لیے ہیں تاکہ بدنامی ان پر نہ آئے۔

نوکری کے فرنٹ پر یہ حکومت فیل ہے۔ آپ کسی نوجوان سے پوچھ لیں جو امتحان کی تیاری کر رہا ہے۔ ریلوے نے بڑے زور زور سے اعلان کیا کہ ایک لاکھ بھرتی نکالی جا رہی ہے جبکہ ریلوے میں ڈھائی لاکھ ویکینسی ہیں۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ دو مہینے ہو گئے فارم بھرے، ابھی تک امتحانات کی تاریخ نہیں نکلی ہے۔ایمس کو لےکر پروپیگنڈہ ہوتا ہے، کیا آپ جانتے ہیں کہ 6 ایمس میں نان ٹیکنیکل اسٹاف کے 80 فیصدی پوسٹ خالی ہیں۔ 20ہزار  سے زیادہ۔

 کیا میں نوجوانوں کی نوکری کی بات کرکے مودی کی مخالفت کر رہا ہوں۔ تو پھر آپ بتا دیجیے کہ مودی جی ہیں کس لیے۔ ان کے وزیر کس لیے ہیں ۔ پھر نوجوان ہی کہہ دیں کہ ہمیں نوکری نہیں چاہیے۔ آپ ہماری نوکری کی بات نہ کریں۔ میں نوکری کی بات چھوڑ دیتا ہوں۔

حکومت کے چار سال لوجک اور فیکٹس کے اچار سال ہیں۔ حکومت نے ان سب کا اچار ڈال دیا ہے تاکہ روٹی کے ساتھ سبزی نہیں ہوگی تو آپ اسی اچار سے روٹی کھا سکیں۔ آپ کو جادو دکھایا جا رہا ہے، آپ جادو دیکھیے۔

 مترجم: محمد اسعد فلاحی

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔