بات پھر تراویح کی

حفیظ نعمانی

ہماری اخباری برادری کو کیا ہوگیا ہے کہ اسے بھی خبر سمجھا جارہا ہے اور اپنے اخبار میں چھاپا جارہا ہے کہ فلاں مسجد میں پانچ پارے کا دَور ختم ہوا۔ جب ہر اُردو اخبار میں چھپ چکا تھا کہ کس مسجد میں کس وقت نماز ہوگی اور تراویح میں کتنا قرآن شریف پڑھا جائے گا تو اسی حساب سے اسے ختم تو ہونا ہی تھا۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اخبارات بھی پانچ پارے پڑھنے کو ایک کارنامہ تسلیم کررہے ہیں جبکہ میں عرض کرچکا ہوں اور پھر عرض کررہا ہوں کہ اگر جس مسجد میں پانچ پارے تراویح میں پڑھے گئے ہیں اور وہاں 11:30  بجے نماز ختم ہوئی ہے تب تو وہاں کلام پاک ضرور ایسے ہی پڑھا گیا ہوگا جیسا پڑھنے کا حکم ’’ورتل القرآن ترتیلا‘‘ اور اسے خوب صاف صاف پڑھو میں خود اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اور اگر وہاں بھی عشاء کی نماز 10:30  بجے یا چند منٹ مزید کے بعد ختم ہوئی تو ہمیں معاف کیا جائے وہاں قرآن شریف نہیں پڑھا گیا بلکہ اللہ کے کلام کی بے حرمتی کی گئی ہوگی۔

اللہ رب کریم نے صاف صاف فرمایا ہے کہ ہم نے اس (قرآن) کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔ اور سورئہ مزمل میں فرمایا کہ اسے خوب صاف صاف پڑھو۔ اب اگر عوام کی رعایت سے اسے اس طرح پڑھا جائے کہ کوئی سمجھ سکے یا نہ سمجھے رسم ادا کردو۔ جو حافظ اس طرح پڑھتے ہیں کہ صرف بھنبھناہٹ کی آواز ہو وہ اگر بھول جاتے ہیں تو اسے صحیح نہیں کرتے جہاں کا یاد آیا اسے وہاں پڑھتے ہیں اور پھر اِدھر اُدھر سے وہیں آجاتے ہیں جہاں بھولے ہیں۔

محترم اختر اعظمی صاحب نے میری معروضات سے جو بھی مطلب نکالا اور جو بات بھی ثابت کرنا چاہی وہ اپنی جگہ۔ میں ان سے دست بستہ معافی کے بعد درخواست کروں گا کہ تراویح میں قرآن عظیم کے ساتھ جو شیطان کرا رہا ہے اس کو روکنے میں میرے جیسے ہر اس کم علم کی مدد کریں جو اس بارے میں فکرمند ہو۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ دنیا میں بگاڑ اسی طرح آتا ہے کہ اسے اختلاف کے ڈر سے نظرانداز کیا جاتا ہے اور پھر جب وہ بے قابو ہوجاتا ہے تو سب سرپکڑ کر روتے ہیں۔ اب تک قرآن عظیم کو جلدی جلدی پڑھنے کی تعبیر یالمون تالمون سے کی جاتی تھی اب سوشل میڈیا نے بعض مسجدوں میں تراویح کی آواز ٹیپ کرکے نشر کی ہے۔ میرے بیٹے ہارون میاں نے سنایا تو اللہ معاف کرے ایسا لگا جیسے کوئی بڑی مکھی کہیں پھنس گئی ہے اور بھنبھنا رہی ہے۔

محترم اختر رضوی صاحب کیا اس سے اختلاف کریں گے کہ تراویح جو نفل نماز ہے (واضح ہو کہ تہجد کی نماز بھی نفل ہے دینی کتابوں میں اس کی تفصیل دیکھی جاسکتی ہے)۔ اگر تراویح میں جاہل اور دین کے دشمنوں کے دبائو سے تین گھنٹے کی نماز دو گھنٹے میں سمیٹ دی جاتی ہے تو آنے والے کل میں ان سے زیادہ جاہلوں اور بے دینوں سے کیوں یہ توقع نہ کی جائے کہ وہ کہیں گے کہ جمعہ کی صرف دو رکعت کے لئے اتنا وقت کیوں لیا جاتا ہے؟ پانچ منٹ میں فٹافٹ خطبہ اور پانچ منٹ میں دو رکعت نماز اور حنفی فقہ کے اعتبار سے پانچ منٹ میں دو سنتیں پڑھو اور پندرہ منٹ میں جمعہ کی نماز ہوجائے۔

یہ بحث الگ ہے کہ تراویح کی حیثیت کیا ہے اور اس کی 20  رکعات ہیں یا 8؟ حضرت مولانا حبیب الرحمان اعظمی حدیث کے بہت بڑے عالم گذرے ہیں انہوں نے ’’تراویح 20  رکعات‘‘ نام کی ایک کتاب لکھی تھی جو میں نے ہی اپنے پریس میں چھاپی تھی اس بات کو 60  برس کے قریب ہوگئے اور اب یاد بھی نہیں اور کتاب بھی پاس نہیں ہے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہم نے اپنے بزرگوں کو تراویح کا پابند دیکھا ہے ہم نے ایک سال جدہ میں مسجد امام ابوحنیفہ میں چند راتوں میں عشاء کی نماز پڑھی۔ وہاں دیکھا کہ امام صاحب تراویح کی آٹھ رکعت پڑھ کر اپنے کمرہ میں چلے گئے اور مقتدیوں میں چند حضرات نے وِتر پڑھے۔ اور زیادہ تر لوگ اپنے گھر چلے گئے بعد میں ہمارے داماد نے بتایا کہ اب یہ سب دو بجے رات کو قیام اللیل پڑھنے کے لئے آئیں گے اور امام صاحب بارہ رکعات پڑھاکر وِتر پڑھائیں گے۔ اور حرمین شریفین میں 20 رکعات تراویح پڑھی جاتی ہیں اور وِتر بھی نماز کے بعد ہی پڑھا دیئے جاتے ہیں۔

ہم نے جو سمجھا اور لکھا اس کا حاصل یہ تھا کہ اللہ کے کلام کو اسی طرح پڑھو جیسا پڑھنے کا انہوں نے حکم دیا ہے کہ خوب صاف صاف پڑھو جو حافظ یہ نہیں کرتا وہ اللہ جبار و قہار کی نافرمانی کرتا ہے اور اللہ کی نافرمانی کی کیا سزا ہے اس کا اندازہ اس سے کیا جاسکتاہے جو آخری پارہ کی سورئہ زلزال میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ’’یَومئذٍ نخدث اخبارہا بانّ ربّکَ اوحیٰ لھا‘‘  یعنی قیامت کے دن زمین اپنی ساری خبریں بیان کرے گی اور اس وجہ سے بیان کرے گی کہ خدائے ذوالجلال کا اس کو یہی حکم ہوگا کہ جو بھی اچھا یا برا تیری پشت پر کیا ہے۔ وہ آج تو بیان کر اور اس کی شہادت دے۔ زمین اس حکم خداوندی کی تعمیل کر ے گی اور بتلائے گی کہ مجھ پر فلاں فلاں بندے نے اچھا یا برا عمل کیا تھا فلاں بندے نے تیرے حضور میں کھڑے ہوکر نماز پڑھی تھی تیرا ذکر کیا تھا تیری کتاب پاک کی تلاوت کی تھی گناہوں سے توبہ کی تھی گناہوں سے معافی مانگی تھی، دعا کی تھی، تیرے فلاں بندے کے ساتھ احسان کیا تھا، کسی بھوکے کو کھانا کھلایا تھا مسکینوں ، محتاجوں کی مدد کی تھی، اسی طرح زمین بتلائے گی کہ مجھ پر فلاں بندے نے زنا کیا تھا، ناحق خون کیا تھا، جھوٹی گواہی دی تھی، اپنے ماں باپ کو ستایا تھا وغیرہ وغیرہ۔ الغرض قیامت کے دن اللہ کے کے حکم سے زمین اپنی ساری سرگذشت سنائے گی زمین کا بولنا بیان کرنا شہادت دینا پہلے سمجھ میں آنا مشکل تھا لیکن اب مشین پر ریکارڈ بولتا ہے اور ہم سب سنتے ہیں ، یہ بندوں کی ایجاد اور کاریگری ہے۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے حکم سے اسی طرح زمین بولے گی۔

سورئہ یٰسین میں فرمایا گیا ہے کہ ’’الیوم تحتم علی افواہھم و تکلمناّ الخ‘‘ اس کا حاصل یہ ہے کہ قیامت کے دن ہر بندوں کے منھ اور زبان پر مہر لگ جائے گی اور ہمارے ہاتھ پائوں ہمارے اعمال کی گواہی دیں گے۔ اور ایک دوسری جگہ فرمایا گیا ہے ’’شہد علیھم سمہم الخ‘‘ یعنی ہم بندوں کے کان ہماری آنکھیں ہمارے پورے جسم کی کھال گویا ہمارا بال بال شہادت دے گا اور بتائے گا کہ ہم نے دنیا کی زندگی میں کیا کیا عمل کئے تھے۔ سوچنے کی بات ہے کہ اس وقت ہمارا کیا حال ہوگا؟ اور اس میں یہ اضافہ کرلیجئے کہ ہر مسجد کے درو دیوار زمین اس کی چھت اس کی چٹائی اس کا مائک اور اس کی ہر چیز گواہی دے گی کہ میرے سینے پر کھڑے ہوکر تیرے کلام کو کیسے بگاڑکر پڑھا گیا اور کس رمضان میں کس حافظ نے پڑھا اور وہ کون کون تھے جن کا اصرار تھا کہ جلدی جلدی پڑھو اور اس مسجد کا متولی کون تھا اور منتظم کون تھا جو کہتا تھا کہ کتنی دیر میں تراویح ختم ہوجانا چاہئے۔

میں بار بار عرض کرچکا ہوں کہ میں عالم دین نہیں ہوں اور یہ حقیقت ہے کہ ہندوستان میں آج بھی ہر مسلمان کسی نہ کسی عالم کی بات مانتا ہے ان کے ہی فیصلہ کے بعد روزہ رکھتا ہے اور ان کے فیصلے کے بعد ہی عید مناتا ہے۔ اسی سال جن کروڑوں مسلمانوں نے 17 مئی کو روزہ رکھا انہوں نے اپنے عالموں کی بات مانی اور جنہوں نے 18  مئی کو پہلا روزہ رکھا انہوں نے اپنے عالموں کی بات مانی یہ علماء اتنے اہم معاملہ میں کیوں خاموش ہیں کیوں نہیں اپنی مسجدوں میں خاص طور پر جمعہ کے دن کیوں نہیں کہتے کہ قرآن شریف فرض نماز میں پڑھا جائے یا سنت اور نفل میں یا ثواب کے لئے بغیر نماز کے تلاوت کی جائے اس کی پابندی کی جائے کہ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ورتل القرآن ترتیلا۔ اور اس کو خوب صاف صاف پڑھو اور اگر خوب صاف صاف نہ پڑھا گیا تو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہوگی۔

میرے پاس مختلف مقامات سے فون آئے ممبئی والوں کو شکایت ہے کہ رمضان شریف میں اُتر سے حافظ آتے ہیں مسجد میں تراویح پڑھانے کا سودا کرتے ہیں اور جو آپ نے لکھا ہے وہ کرکے پیسے لے کر چلے جاتے ہیں اللہ جانے ہماری نماز ہوئی یا نہیں ہوئی۔ آپ مسلسل اس موضوع پر لکھئے نہ جانے کیوں دوسرے اخبار نہیں  لکھتے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔