مودی سرکار کا ہاف ٹائم : آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا

تحریر: رام چندر گوہا۔۔۔ ترجمہ:عبدالعزیز
مودی سرکار نے آفس میں رہ کر اپنے ڈھائی سال پورے کئے۔ ڈھائی سال کے بعد انھیں دوبارہ اپنے اقتدار کی عمر بڑھانے کیلئے انتخاب میں حصہ لینے کی ضرورت پڑے گی۔ اس وقت سرکار کی اقتصادی پالیسی سرخیوں میں ہے۔ خاص طور سے 500 اور 1000 روپئے کی نوٹ بندیوں کا معاملہ۔ ابھی قبل از وقت ہوگا ان کی اقتصادی پالیسیوں پر کوئی تبصرہ یا تنقید کرنا۔ جی ایس ٹی کیلئے اس کی پیش قدمی کے بارے میں بھی اسی قسم کی بات کہی جاسکتی ہے۔ سال دو سال نہیں کئی سال کی مدت درکار ہے جب اس کے اچھے برے نتائج سامنے آئیں گے۔
لیکن مودی سرکار کا دوسرے معاملات میں جائزہ لینے میں کسی پس و پیش کی ضرورت نہیں ہے۔ مثال کے طور پر کلچر اور تعلیم کے معاملہ میں یہ بات صاف طور پر کہی جاسکتی ہے کہ جو لوگ یہ سمجھتے تھے کہ مودی سرکار پر آر ایس ایس کا اثر نہ ہوگا وہ غلط ثابت ہوا۔ آر ایس ایس ایسی فرسودہ اور متروک چیزوں کیلئے جانی جاتی ہے جو ملک کیلئے انتہائی خطرناک اور دہشت ناک ہے ملک کے مستقبل کا انحصار کثرت میں وحدت پر ہے جبکہ آر ایس ایس تکثیری معاشرہ کی دشمن ہے۔
مودی سرکار میں آر ایس ایس کی ذیلی تنظیموں کا اثر و رسوخ بے پناہ طریقہ سے بڑھا ہوا ہے۔ وشو ہندو پریشد کا ہاتھ، گؤ رَکشک (گائے کے محافظ) کی سرگرمیاں دو ریاستوں میں ہریانہ اور مہاراشٹر میں شرارت کی حد تک بڑھ گئی ہیں جہاں بھارتیہ جنتا پارٹی کی سرکاریں ہیں۔ دونوں ریاستوں نے ان گؤ رَکشکوں کو شناختی کارڈ تک جاری کر رکھا ہے تاکہ وہ گؤ ماتا کی زیادہ رکھوالی کرسکیں۔ بی جے پی کی طلبہ تنظیم اکھل بھارتیہ ودیا پریشد کی زہر ناک سرگرمیاں جگ ظاہر ہیں، اس تنظیم نے ہندستان کی دو پُر وقار اور نامور یونیورسٹیوں جواہر لال نہرو یونیورسٹی اور حیدر آباد یونیورسٹی کے وقار اور مرتبہ کو ہر طرح سے ملیا میٹ کرنے کی کوششیں کیں۔
بہت سے لوگوں نے 2014ء میں مودی جی کو یہ سمجھ کر ووٹ دیئے کہ وہ اپنے ماضی کو فراموش کر دیں گے اور ’’وِکاس پُرس‘‘ (Man of Development) کا رول ادا کریں گے۔ نریندر مودی نے گجرات میں آر ایس ایس اور وشو ہندو پریشد کو حاشیہ پر کھڑا کر دیا تھا۔ لوگوں نے سمجھا تھا کہ گجرات کی طرح ملکی اور قومی پیمانے پر بھی مودی اسی قسم کا مظاہرہ کریں گے۔ آر ایس ایس رہبر اور افسر کی حیثیت سے نظریہ فراہم کرتا ہے۔ وشو ہندو پریشد اور اے بی پی ٹھگوں اور بدمعاشوں پر مشتمل ہے۔ ان دونوں کی شری طاقتیں 2014 ء سے کافی بڑھی ہیں جن کے پر تو سے نہ صرف حکومت کا معیار اور مرتبہ اثر انداز ہوئے ہیں بلکہ امن و سکون کا بھی برا حال ہوا ہے۔
ان دونوں نے سول سوسائٹی (مدنی معاشرہ) کے خد و خال کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ مودی سرکار نے قومی اداروں کوبھی بیحد متاثر کیا ہے۔ اندرا گاندھی کے زمانہ سے بیورو کریسی اور دیگر اداروں کو متاثر کیا جاتا رہا ہے۔ منموہن سنگھ کی حکومت بھی اس سے مستثنیٰ نہیں تھی۔ منموہن سنگھ کے وقت سی بی آئی کے ادارے کو سپریم کورٹ نے پنجڑے میں بند طوطے سے تشبیہ دی تھی؛ کیونکہ سرکار نے اپنے مخالفین کو ہراساں اور پریشان کرنے کیلئے اس کا استعمال بے دریغ کیا تھا۔ مودی سرکار نے بھی سی بی آئی کو اسی طریقہ سے اپنے کاموں کیلئے استعمال کیا ہے؛ حالانکہ بی جے پی کے لوگ سی بی آئی کو کانگریس کی تحقیقی ایجنسی (CBI) کہہ کر طعنہ زنی کرتے تھے، وہی ایجنسی اب بی جے پی کی خانہ ساز ہوگئی ہے۔ نریندر مودی نے بھی اسے آزادانہ کام کرنے کا موقع نہیں دیا۔ مودی سرکار نے اپنے مخالفین کی اسی سی بی آئی کے ذریعہ خبر لینا شروع کیا۔ سی بی آئی پہلے سے کہیں زیادہ حکومت کی حاشیہ برداری کیلئے مری جارہی ہے۔ جن لوگوں نے مودی کی14 -2013 ء کی تقریریں سنی ہیں ان کیلئے یہ چیز کوئی حیرت انگیز نہیں ہے کیونکہ نریندر مودی نے گجرات میں پولس محکمہ اور خفیہ محکمہ کو اپنے لئے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا شروع کیا تھا۔ بیورو کریسی کو سرکار اور حکمراں جماعت بری طرح گجرات میں استعمال کرتی تھی۔
مرکز میں آنے کے بعد نریندر مودی وزیر اعظم کی حیثیت سے عدلیہ کو اپنے زیر اثر لانے کی بھر پور کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ سپریم کورٹ کے ججوں کے تقرر میں جانبداری کا مظاہرہ کرنے کیلئے پر تول رہے ہیں تاکہ سرکاری جج سرکار کی وقتاً فوقتاً مدد کرسکیں۔ تکثیری معاشرہ اور اداروں کی خود مختاری جمہوریت کے دو بڑے ستون ہیں۔ کانگریس کے زمانے میں بھی ان اداروں پر شب خوں مارنے کی کوشش کی گئی مگر اب جس طرح شب خوں مارا جارہا ہے عدلیہ کے لوگ بھی چیں بہ جبیں ہیں، یہاں تک کہ چیف جسٹس کوبھی حکومت کے رویہ کے خلاف منہ کھولنا پڑا۔ دو ڈھائی سال میں مودی سرکار نے سرکاری اداروں اور عدلیہ کو اپنے تسلط میں لینے کیلئے ہر جتن کر رہی ہے۔ جب سے مودی اقتدار میں آئے ہیں سیاست کی دنیا زہر آلود اور تاریک سے تاریک تر ہوتی جارہی ہے۔ منموہن سنگھ کی حکومت اقربا پروری اور اپنے دوستوں کی خوشنودی حاصل کرتی تھی جو انتہائی خراب بات تھی لیکن اب اس کی جگہ بدلہ اور انتقام کی سیاست نے لی ہے اور حکومت کے ناقدوں کا ناطقہ بند کرنے کے درپے ہے۔ مرکزی حکومت نے NDTV (این ڈی ٹی وی) کو اس کے ناقدانہ طرز عمل کی وجہ سے ایک دن کیلئے اس کی ٹیلی کاسٹ کو بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ چھتیس گڑھ میں کئی فنکاروں اور اسکالروں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ ’دی ٹیلیگراف‘ نے اس پر تبصرہ کیا ہے کہ یہ انتہا درجہ کے جبر و ظلم، بدلہ و انتقام اور کینہ پروری کا مظاہرہ ہے۔ یہ بالکل درست تبصرہ ہے۔ ٹیلیگراف نے مزید لکھا ہے کہ یہ عدم برداشت کی انتہائی بری اور مکروہ علامت ہے جس طرح اسکالروں کے خلاف بے بنیاد الزامات تراشے گئے، اس کی مثال بہت کم ملتی ہے۔
چھتیس گڑھ میں رمن سنگھ کی بی جے پی حکومت نے صحافی، حریت پسند شہریوں کی ناک میں دم کر دیا ہے اور چھتیس گڑھ کو پولس اسٹیٹ بنا دیا ہے۔ جب یو پی اے کی حکومت مرکز میں تھی تو وہ بھی ریاستی حکومتوں کی دھاندلیوں پر منہ بند رکھنا پسند کرتی تھی۔ اب جبکہ مرکز میں بی جے پی سرکار آگئی ہے تو چھتیس گڑھ کی حکومت کو اپنے ناقدین کو قتل کرنے کا لائسنس دے دیا ہے۔
جب سے مودی جی مرکزی حکومت میں آئے وہ اس بات کی وکالت کرتے ہیں کہ مرکز اور ریاست میں ایک ہی پارٹی کی سرکار ہونا چاہئے تاکہ ریاست کو مرکز سے فائدہ حاصل کرنے میں سہولت اور آسانی ہو۔ بہار میں جب اسمبلی الیکشن ہورہا تھا تو مودی جی اسی کار خیر کا پرچار کر رہے تھے۔ اب پنجاب اور اتر پردیش میں الیکشن ہونے والا ہے تو وہاں کے انتخابی جلسوں میں اسی بدعنوانی اور دھاندلی کی وکالت فرما رہے ہیں۔ یہاں تک کہ ان ریاستوں میں جہاں بی جے پی کی حکومت ہے فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور شہریوں کی آزادی کا مسئلہ ہے وہ انتہائی خراب اور افسوسناک حد تک صورت حال ہے۔ 2002ء میں گجرات کا یہی حال تھا۔ اس وقت مرکز میں بی جے پی کی حکومت تھی۔ اس وقت بھی اسی طرح دانشوروں، صحافیوں اور اقلیتوں پر حملے ہورہے تھے جیسے آج چھتیس گڑھ، ہریانہ اور مہاراشٹر جیسی ریاستوں میں ہورہے ہیں۔ ان ریاستوں کے وزراء اعلیٰ کو معلوم ہے کہ مرکز ان کی حکومت کو تحفظ دے گا۔
گجرات ماڈل کا مطلب ہے انتقام اور بدلہ، دھونس اور دھمکی۔ گزشتہ ڈھائی سال میں مودی حکومت نے پورے ملک کو گجرات ماڈل کے سانچے میں ڈھال دیا ہے جس کی وجہ سے سماجی زندگی اور سرکاری ادارے متاثر ہیں۔
اس مضمون نگار کو کانگریس حکومت کا مرکز سے ختم ہونے پر ذرا بھی افسوس نہیں ہے کیونکہ کانگریس سرکار نے بھی جمہوریت کی لاج نہیں رکھی۔ تاملناڈو، اتر پردیش، پنجاب، مغربی بنگال کی حکومتیں بھی بدعنوانی اور اقربا پروری میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ یہ سب حکومتیں کانگریس کلچر کا حصہ یا علامت ہیں۔ بی جے پی بدلہ و انتقام، کینہ پروری اور نفرت کے طور طریقہ پر گامزن ہے۔
جب سے مودی بر سر اقتدار آئے ہیں جمہوریت کی پامالی پہلے سے بڑھ گئی ہے۔ میں نہیں کہہ سکتا ہوں کہ حکومت کی معاشی پالیسیوں کا کیا حال ہوگا لیکن یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ جہاں تک انفرادی حقوق دو اداروں کے وجود اور شناخت کا معاملہ ہے مودی سرکار کا رویہ بہتر نہیں ہے بلکہ بعض معاملہ میں مودی سرکار پہلے سے بھی بد تر اور بدکردار ہے۔
مضمون پر تبصرہ: رام چندر گوہا نے نریندر مودی کی ڈھائی سالہ حکومت پر جو تبصرہ کیا ہے وہ محتاط انداز سے کیا ہے۔ کانگریس حکومت سے موازنہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ حکومت پہلے سے بہتر نہیں ہے بلکہ بعض معاملہ میں اس سے بھی خراب تر ہے۔
یو پی اے II میں بدعنوانی بڑھ گئی تھی مگر ملک کے نظم و نسق کی حالت اس قدر خراب نہیں تھی جس قدر اس وقت ہے۔ حکومت اور اس کی پارٹی نے تو اقلیتوں کا خاص طور سے مسلم اقلیت کا جینا حرام کر دیا ہے۔ حکومت اقلیت کے وجود کے درپے ہے جیسے اس کی بقا کی دشمن بن گئی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ملک کو مودی سرکار اور حکمراں پارٹی خانہ جنگی کی طرف دھکیلتی چلی جارہی ہے۔ ملک کے دانشوروں اور امن پسندوں کو موجودہ حکومت کے رویہ کی سخت مخالفت کرنے کی ضرورت ہے۔ خاص طور سے پنجاب اور اتر پردیش میں بی جے پی کو سبق سکھانے کی ضرورت ہے۔ جب ہی اس کی پریشان کن حرکتیں کچھ کم ہوسکتی ہیں۔ عوام اور خواص اس سے لاپرواہ ہوئے تو ملک کا خدا ہی حافظ ہے۔
یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔