نوٹ بندی سے ملک میں جرائم کے بڑھنے کے اندیشے

سدھیرجین

نوٹ بندی کے اثرسے ہوئےحادثوں اور افراتفری کو تو ملک نے دیکھ ہی لیا ہے۔ حادثوں کی تعداد اور افراتفری کی مقدار کو ناپنے کا کوئی آلہ ہمارے پاس نہیں ہے، لیکن نوٹ بندی کی کل میعاد کا نصف سے تھوڑا کم حصہ ہم نے جھیل لیا ہے۔ نوٹ بندی سے اب جو ہمیں حاصل ہونے کی امید بندھائی گئی ہے اس کے سہارے ایک مہینہ اور بھی کاٹا جا سکتا ہے، لیکن اس کے دوسرے خطرات اور اندیشوں کو دیکھ کر اس سلسلے میں پہلے سے انتظامات کر کے رکھ لینا چاہئے۔ ایسا ہی ایک اندیشہ ہے کہ ملک جرم کے بڑھنے کو لے کر حساس ہو چکا ہے۔ ماہرین جرمیات کی زبان میں اسے کرائم پرون یعنی جرم کا  شکار ہو جانا کہتے ہیں۔ ماہرین جرمیات کے مطابق کسی ملک کے خستہ اقتصادی حالات میں مخصوص قسم کے جرم بڑھتے ہیں، اسی لیے قانون کی دیکھ بھال کرنے والی ایجنسیوں کو ابھی سے متوجہ ہو جانے کی ضرورت ہے۔

معیشت کا جرائم سے تعلق

جرائم کی 80 سے زیادہ اہم وجوہات کی جب درجہ بندی کی جاتی ہے تو سمجھنے کے لئے انہیں چار حصوں میں تقسیم کر لیتے ہیں۔ یہ ہیں – سیاسی، سماجی، اقتصادی اور قانونی۔  جرم کی وجوہات میں سب سے بڑی وجہ پر جب غور کرتے ہیں تو اب تک کی تحقیق کا نتیجہ یہ ہے کہ چاروں وجوہات میں اقتصادی وجہ سے سب سے بڑی ہے۔ اسی لئے ماہرین جرمیات کو اقتصادیات کے کچھ اصول پڑھائے جاتے ہیں۔ نوٹ بندی سےپیدا ہونے والے اقتصادی حالات یہ اشارہ دے رہے ہیں کہ ملک میں صنعت اور کاروبارکی حالت  بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ البتہ ان حالات کو معمولی بتایا جا رہا ہے۔

کس طرح کے جرائم کا اندیشہ ہے

بے روزگاری کی دھماکہ خیز شکل، تمام قسم کی پیداواری سرگرمیوں میں غیر متوقع کمی، صنعتی علاقے میں اچانک چھنٹنی کا شروع ہونا، یہ ایسے علامات ہیں جو اس بات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ نجی سطح پر اقتصادی بحران پیدا ہو گیا ہے۔ ان حالات میں چوری اور جھپٹ ماري کی واردات خوفناک طور پر بڑھ جاتی ہیں، لیکن سب سے زیادہ فکر کی بات ٹھگی یعنی دھوکےکے معاملات ہیں۔ یہی دھوکہ جب بہت بڑے سطح پر ہو جائے تو اسے اقتصادی گھوٹالہ کہا جاتا ہے۔ اقتصادی استحصال کو اپنے یہاں ابھی بڑا جرم نہیں سمجھا جاتا، لیکن خستہ حال اقتصادی حالات میں بے روزگاروں اور کام پر لگے مزدوروں اور چھوٹے ملازمین کا استحصال آسانی سے ہونے لگتا ہے۔

دھوکے کے بڑےمعاملے کا اندیشہ

دھوکے کے چھٹپٹ معاملے ذاتی سطح پر ہونے کی وجہ سے اپنے ہونے کا اتنا احساس نہیں کراتے۔ عام طور پر لوگ انہیں اپنی لاپرواہی اور جہالت مان کر خاموش ہو جاتے ہیں، لیکن معیشت کے کسی برےدور میں یا اچانک پیدا ہونے والی خستہ حالی کےدور میں ایک ساتھ ہزاروں اور لاکھوں لوگوں کو ٹھگنے کی منصوبہ بندی آسانی سے بننے لگتی ہے۔ ایسا دھوکہ کی کسی موڈس آپرینڈی یعنی دھوکے کے طریقے کو پہلے سے بھانپنا مہرین جرمیات کے لئے بھی مشکل کام ہے۔ پھر بھی حال میں پیدا ہوئے حالات میں اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ سود کا لالچ دے کر لاکھوں کی محنت کی کمائی کو ایک جگہ جمع کرنا ایسے ہی موقعوں پر آسان ہو جاتا ہے۔ سونے، چاندی اور دوسری چیزوں کے وعدہ بازاروں میں جو سٹے بازی ہوتی آئی ہے اسے بھولے بھالے لوگوں کو زیادہ منافع دار بتانا ایسے ہی دنوں میں زیادہ بڑھتا ہے اور دھوکے ینےکے بڑے اسکینڈل ہو جاتے ہیں۔ اسٹاک مارکیٹ اور بینک ایسی ہی حالت میں شکار ہوتے پائے گئے ہیں۔ نئی نئی انشورنس کمپنیاں طرح طرح کی لالچ دے کر سامنے آنے لگتی ہیں۔

عام لوگوں کے لئے کیاحل ہے؟

نجی کاری اور لبرلائزیشن کے اس دور میں قانون کی زیادہ باتیں کرنا بہت سے دانشوران کو فضول کی بات لگ سکتی ہے۔  لیکن دھوکہ سے بچنے کیلئے بیداری بھی ایک بڑا حل ہے۔ تاہم بیداری کی بھی ایک حد ہے۔ ذریعہ معاش کے لئے ضرورت سے دوگنی محنت کرنے والے شہری صبح سے شام تک اپنے کام پر ہی لگے رہنے کو مجبور ہیں۔ اس لئے ان پر زیادہ بیداری کا بوجھ ڈالنا غیر اخلاقی ہی سمجھا جائے گا۔ لہذا ایک ہی مشورہ دیا جا سکتا ہے کہ یہ وقت لالچ سے بچنے کا ہے۔ اسی لئے یہ کہاوت بنی ہے کہ اس جگہ دھوکہ دینے والے  نہیں پائے جاتے، جہاں لالچی نہیں رہتے۔

مترجم : شاہد جمال

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔