غریبوں کی قطاریں اورمسائل کے انبار

سفینہ عرفات فاطمہ

ان دنوں مفلسی‘غریبی ‘تنگ دستی ‘ مجبوری‘لاچاری ‘ بیماری‘ضعیفی ‘ناخواندگی اورکم مائیگی کی طویل قطاریں سردیوں سے بوجھل دن اوراداس شاموں میں حزن و ملال گھول رہی ہیں۔

بینکوں کے باہر‘ اپنی باری کے منتظرمردو خواتین اور ان کی ’’ضرورتوں‘‘کونمایاں کرتی ان کے چہروں کی بے چینی و بے کلی ڈیرہ ڈالے ہوئے ہے۔
ایک خاتون نے رندھی ہوئی آوازاورمغموم لہجے میں بتایا کہ میری چھوٹی بچی دواخانے میں شریک ہے ‘ مجھے پیسوں کی سخت ضرورت ہے ‘لیکن تین دن سے لائن میں لگنے کے باوجود بھی مجھے پیسے نہیں ملے۔
ایک دوسری خاتون:’’مجھے شوگرہے اورمیں صبح آٹھ بجے سے اب تک بھوکی پیاسی یہاں کھڑی ہوں ‘ شاید آج بھی میری باری آنے سے پہلے بینک کا ٹائم ختم ہوجائے۔‘‘
کئی خواتین اپنے شیرخواربلکہ نوزائیدہ بچوں کو گھر میں چھوڑکریہاںآئی تھیں۔بدانتظامی اور آدھی ادھوری معلومات کے سبب بھی وہ پریشان تھیں۔ رقم جمع کرنے (deposit) اور نکالنے (withdrawal)کاعمل قسطوں میں ہورہاہے‘ پہلادن ٹوکن کے حصول کی نذر دوسرا ‘تیسرا بلکہ چوتھا دن گنوانے کے بعد روپئے حاصل ہورہے ہیں ۔ ضعیف اورناخواندہ مردوخواتین کورقم جمع کرنے اور نکالنے کے لیے شدید دشواریوں کا سامناہے ۔
عمربھرکی کمائی لٹ جائے توکیسالگتاہے؟ایک خاتون بینک میں چالیس ہزارروپئے جمع کروانے آئی تھیں‘ ہجوم میں انہیں خبرہی نہ ہوئی کہ کب کسی نے ان کا پرس کاٹ کررقم ہڑپ لی۔جب وہ کاوئنٹرکے قریب پہنچیں اور دیکھاکہ ان کے پرس سے روپئے غائب ہیں تو ان کاصدمہ سے براحال ہوا‘ وہ بے تحاشا رونے لگیں۔ایک غریب خاندان کے لیے یہ خسارہ معمولی تو نہیں۔
ایک غیرمسلم معمر خاتون بتارہی تھیں کہ انہوں نے برسوں دہی بیچ کر رقم جمع کی تھی کہ برے وقت میں کام آئے گی ‘ اب اسے بینک میں جمع کروانے کے لیے انہیں تکلیف اٹھانی پڑرہی ہے ۔
پانچ سو اورہزار کے نوٹوں کی منسوخی سے متاثر ہونے والا ایک طبقہ ان گھریلو خواتین کابھی ہے جنہوں نے کبھی بینک کی صورت نہیں دیکھی ۔اپنے بچوں کی پڑھائی ‘بیٹیوں کی شادی اور کسی ناگہانی صورتحال سے نمٹنے کے لیے تنکاتنکاجوڑ رکھا تھا۔مٹی کے غلہ میں‘کسی اناج کے ڈبے میں یا کپڑوں کی تہوں میں ۔
شوہر یا بیٹے کی محدود آمدنی سے کچھ روپئے پس اندازکرکے کسی اچانک افتاد پرخواتین اپنے افرادِ خاندان کے لیے ایک بہت بڑا سہاراثابت ہوتی ہیں۔
ایک بیوہ خاتون ہرروزمحلہ میں شیرمال فروخت کرنے آیاکرتی تھیں‘ان کا کوئی کفیل نہیں تھا‘ انہوں نے اپنی محنت کی کمائی سے ایک ایک روپیہ بچاکر حج کا فریضہ انجام دیاتھا۔
ایک خاتون نے شوہر کی غیرموجودگی میں بطور گھریلو ملازمہ کام کرکے جہیز جمع کیا اورکچھ لوگوں کی مدد سے اپنی تین بیٹیوں کی شادی کی۔
کئی خواتین گھریلوہنروروزگارسے جڑکر اپنے کنبہ کی اعانت کرتی ہیں۔ کبھی کوئی کفیل نہ ہونے پر توکبھی شوہرکے بے روزگاریاغیرذمہ دارہونے پر تو کبھی گھر کے اخراجات اور ضرورتوں کوملحوظ رکھ کر وہ اپنے آرام ‘اپنی نیند کوقربان کرکے چند روپیوں کی خاطر دن رات مصروف رہاکرتی ہیں۔
اکثرخواتین کواپنی ضرورتیں بھی دکھائی نہیں دیتیں ‘خواہشات کا تو وہ پہلے ہی گلادباچکی ہوتی ہیں۔ دراصل وہ اپنی ضرورتوں پر اپنے بچوں کی چھوٹی چھوٹی خواہشوں کوترجیح دیتی ہیں۔
سارا دن توکیوں کپڑے سیتی رہتی ہے
تو نے کیوں اپنا سب زیور بیچا ماں
سیناپروناجاننے والی عورتیں سوئی میں دھاگہ ڈالتے ڈالتے بینائی میں نقص پیدا ہونے کے سبب موٹی بدوضع فریم والی عینکیں اپنی آنکھوں پرچڑھالیتی ہیں لیکن کپڑوں کی سلائی کاکام نہیں چھوڑتیں۔وہ اس رقم سے کیسے دستبردار ہوسکتی ہیں جوقلیل ہی سہی لیکن ضرورت کے وقت کام آتی ہے۔
اس ملک کے عام آدمی کے لیے قطاروں میں کھڑاہونااورلائن میں لگنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔کبھی کوئی ضرورت‘ کبھی کوئی آس‘ کبھی کوئی مجبوری اسے قطار کاحصہ بنادیتی ہے۔سرکاری اسپتالوں میں ‘راشن کی دکانوں میں‘ روزگار کے لیے ‘قرض کے لیے‘پنشن کے لیے قطاربندی‘ کبھی امیدبرآنا‘کبھی مایوس لوٹ جانا۔ حتی کہ یہ قطاریں کسی کوپاگل توکسی کو موت سے ہم آغوش بھی کردیتی ہیں۔
نوٹ بندی کے بعداین ڈی ٹی وی اورخاص طور پراس سے وابستہ حساس صحافی رویش کمارنے عام آدمی کے مسائل کو ’’پرائم ٹائم‘‘میں جگہ دی ۔بینکوں کے باہر قطاروں میں لگنے والے غریبوں‘ مزدوروں اورکسانوں کے بشمول خواتین کو درپیش مشکلات کاجائزہ لیا‘ ان سے بات کی اور ان کی روزمرہ کی دشواریوں کوپیش کیا۔ کاروباریوں اور چھوٹی صنعتوں کے مالکین کے مسائل پربھی روشنی ڈالی۔
نوٹوں پرامتناع کے سبب کوئی مزدور اپنی بیوی کا بروقت علاج کرانے سے قاصر ہے ۔کوئی کینسرکا مریض لائن میں کھڑا ہونے پرمجبورہے ‘کسی کی شیرخواربیماربچی کودوا کی حاجت ہے تو کسی کا روزگار خطرے میں ہے ۔
اس ملک میں ایسے لاکھوں افراد ہیں‘ جن پر زندگی ہرروز ایک قیامت برپاکرتی ہے۔جنہیں ہردن اپنی بقا کے لیے جدوجہد کرنی پڑتی ہے ۔سینکڑوں مقروض کسان‘خشک سالی‘ خاطرخواہ فصل کے نہ ہونے کے سبب خودکشی کرلیتے ہیں ۔ دیہاتوں میں رہائش پذیر زراعت سے جڑے افراد کے لیے ان کے جانور بھی ارکانِ خاندان کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ لیکن اب ان کے لیے چارے کا انتظام بھی آسان نہیں رہا۔ ایک زمین کا چھوٹا ساٹکڑا ‘ان کے جینے کی آس ہوتا ہے۔ بیج کے بونے سے لے کر فصل کے اگنے تک کاانتہائی پرمشقت اور صبرآزمامرحلہ ‘وہ عمدہ فصل کی امید میں طئے کرتے ہیں ۔ لہلہاتی فصلیں اوران پر نمودار ہونے والے اناج کے خوشے جہاں انہیں لامتناہی مسرت اور اطمینان سے ہم کنار کرتے ہیں ‘وہیں بارش کی کمی یا خشک سالی کے سبب غیر تسلی بخش فصل سے ان کے چہرے مرجھاجاتے ہیں ۔اس بار انہیں نوٹوں کی منسوخی نے پژمردہ کردیاہے۔
کسی شاعرنے ایک کسان کے کرب کویوں پیش کیاہے ؂
اب میں راشن کی قطاروں میں نظرآتا ہوں
اپنے کھیتوں سے بچھڑنے کی سزاپاتاہوں
وہ لوگ کیا کریں جن کی بینک تک رسائی نہیں جو اے ٹی ایم اورپے ٹی ایم سے واقفیت اور اس کی سہولت نہیں رکھتے۔ بہرحال صاحب اقتدار اورچندزرداروں کے اس کھیل میں کمزور طبقہ بری طرح متاثرہورہاہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔