کیوں نہیں جاتے

اشہد بلال ابن چمن

یک مشت نہیں ہو تو بکھر کیوں نہیں جاتے
گر زندگی بے سود ہے مر کیوں نہیں جاتے

شکوہ ہے اگر تم کو مری راہبری سے
پھر چھوڑ کے واپس یہ سفر کیوں نہیں جاتے

میں پاس نہیں ہوں تو مری یاد بھی کیوں کر
میں ساتھ اگر ہوں تو نکھر کیوں نہیں جاتے

مدّت سے ہیں اپنوں کے لیے لوگ پریشاں
غیروں کے لیے کام بھی کر کیوں نہیں جاتے

ملتی ہے ہر اک گام نصیحت سبق آموز
ہو اہل خرد تم تو سنور کیوں نہیں جاتے

سامانِ محبت ہی ہے سامانِ تسلی
پھر پیار میں تم حد سے گزر کیوں نہیں جاتے

دریاؤں کی تحسین ہیں موجوں کے تھپیڑے
تم حسن کا دریا ہو بپھر کیوں نہیں جاتے

دیوانے چلے جاتے ہیں میخانے کی جانب
میکش کبھی دیوانہ ڈگر کیوں نہیں جاتے

آسان ہے الفت کا سفر ساتھ کسی کے
تنہا کبھی تاروں سے گزر کیوں نہیں جاتے

حالات نے کروایا تھا پردیس کا سودا
گر ٹھیک ہیں حالات تو گھر کیوں نہیں جاتے

بیزار کئے دیتے ہیں دنیا کے جھمیلے
رسم و رہِ دنیا سے مکر کیوں نہیں جاتے

دنیا کو نہیں ابنِ چمنؔ بھاتی ترقی
تم اپنی بلندی سے اتر کیوں نہیں جاتے

تبصرے بند ہیں۔