کیا مسلمان اسلام کے سب سے بڑے دشمن ہیں؟

عبدالعزیز
انگریزی زبان کے معروف صحافی حسن مسرور کا جو کئی کتابوں کے مصنف اور سماجی تبصرہ نگار ہیں ’’اسلام کے وجود و بقا کا بحران۔ صبر و تحمل کی ضرورت جو فرقہ واریت پر روک تھام کرسکتا ہے‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون انگریزی روزنامہ ’ٹائمز آف انڈیا‘ میں 25 نومبر کو شائع ہوا ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ زمانۂ جہاد کے بعد اسلام کو آج سب سے بڑے بحران کا سامنا ہے۔ کوئی شخص بھی متعلق مسلمانوں سے یہ نہیں پوچھنے کی زحمت گوار کر رہا ہے کہ اسلام کا مستقبل کیا ہے؟ کیا یہ بحران پر قابو پاسکے گا؟ اگر قابو پاسکے گا تو کس شکل و صورت میں؟ مجھے معلوم ہے کہ اگر میں ایسا سوال کرتا ہوں تو مجھے بدعتی کہہ کر پکارا جائے گا مگر میں ایسے جنگ و جہاد کو دیکھ رہا ہوں جیسے ہندومت کو آر ایس ایس اسٹائل کو ہندوتو میں تبدیل کیا جارہا ہے۔
آگے وہ لکھتے ہیں کہ ’’جہاد اسلام میں باہر کے دشمنوں کے خلاف کیا جاتا ہے لیکن یہ ہمیشہ آسان ہوتا ہے کہ خارجی دشمنوں کے مقابلہ میں متحد اور منظم ہوکر جہاد برپا کیا جائے مگر اس وقت جو خطرہ ہے اندرونی ہے۔ آپسی اور باہمی لڑائی ہے۔ مسلمان اسلام کے سب سے بڑے دشمن بن چکے ہیں۔کافر اور مسلم کی جنگ یا جہاد نہیں ہے۔ اب جہاد مسلم اور بدعتی، شیعہ اور سنی، سنی بمقابلہ سنی، شیعہ بمقابلہ شیعہ، مسلم بمقابلہ دوسرے مسلم سے ہے۔ ایک فرقہ جو قابل فخر سمجھا جاتا تھا جو عالمی اُمہ (عالمی جماعت) کے نام سے مشترکہ ایمان و عقیدہ کے نام سے جانا جاتا تھا آج ہر ایک دوسرے سے جنگ و جدل کرنے پر برسرپیکار ہے۔ گھر گھر میں جنگ برپا ہے۔ بچے بھی ایک دوسرے سے جنگ و جدل پر آمادہ ہیں۔ دنیا بھر میں فرقہ بندی، فرقہ واریت اور نفرت کا لامتناہی مظاہرہ ہے۔ کوئی چیز محفوظ اور مامون نہیں ہے۔
یہاں تک کہ حج جیسے مقدس فریضہ پر بھی نظر بد ہے۔ اسلامی اتحاد پارہ پارہ ہوگیا ہے اور خانہ جنگی مسلمانوں کا شعار بن گیا ہے۔ اسلام کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی سازش رچی جارہی ہے ۔ ایک زمانہ میں ہم سب مسلمان تھے، اب ایسے نہیں ہیں۔ہم الگ الگ خانوں میں بٹ گئے ہیں۔ دیوبندی، بریلوی، سلفی، وہابی، وہابی سلفی خود ساختہ جج بن کر ایک دوسرے کو اچھا مسلمان، برا مسلمان اگر ایسے ملاؤں کی بات کو نہ مانی جائے تو فوراً نہ ماننے والوں کو جہنم رسید کر دیتے ہیں۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ نا اتفاقی اور انتشار ہر زمانہ میں پایا جاتا تھا مگر اس کی ایک حد ہوا کرتی تھی لیکن کوئی شخص محض نا اتفاقی اور ناپسندیدگی کے اظہار کی بنیاد پر قتل نہیں کیا جاتا تھا۔ صرف شیعہ و سنی میں تھوڑی بہت چشمک اور ناچاقی تھی۔ وہ بھی محرم کے زمانہ میں ایسی چیزیں دیکھنے کو ملتی تھیں۔ آج شیعہ کو اس لئے قتل کر دیا جاتا ہے کہ وہ شیعہ ہے۔ سنی کو اس لئے موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے کہ وہ سنی ہے۔ پاکستان میں تو یہاں تک کہ غریب و غربا کو بھی معاف نہیں کیا جاتا۔ اس وقت اسلام کو انتہا پسندوں نے یرغمال بنالیا ہے۔ معمولی درجہ کے مسلمانوں کی زندگیاں بھی محفوظ اور مامون نہیں ‘‘۔
حسن مسرور نے دور حاضر کے مسلمانوں کی جو تصویر کشی کی ہے اس میں یقیناًسچائی اور صداقت کی جھلک ہے مگر ان کی تحریر میں مبالغہ آرائی بھی ہے ۔ مبالغہ کو اگر نظر انداز کر دیا جائے تو ایسی دردناک اور افسوس ناک صورت حال پر مسلمانوں کو غور و فکر کرنے کی یقیناًضرورت ہے۔ یہ کوئی مسلمان کہہ سکتا ہے کہ حسن مسرور کو ایسی تلخ و ترش باتوں کو غیروں کے سامنے پیش نہیں کرنا چاہئے لیکن اگر وہ نہ بھی پیش کرتے تو دوسرے تو پیش کر رہے ہیں اور کریں گے۔ ان کو آخر کون روک ٹوک کر سکتا ہے۔ کسی کو آئینہ دکھانا غلط نہیں ہے، ہاں آئینہ میں اپنی حالت دیکھ کر بپھرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ سنبھلنے سنبھالنے کی ضرورت ہے۔
حسن مسرور نے اپنے مضمون کے آخر میں لکھا ہے کہ سب سے خطرناک منظر سعودی سنی اور ایرانی شیعہ میں سیاسی برتری کی جنگ ہے جو دنیا کے مسلمانوں کو دو حصوں میں بانٹ سکتی ہے، جس کا بوجھ اٹھانا مسلمانوں کیلئے مشکل ترین ہوگا۔
حسن مسرور نے اپنے مضمون کے آخری پیرا گراف میں جس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے وہ دنیا بھر کے مسلمانوں کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ سعودی عرب میں بادشاہت ہے۔ بادشاہت یا ملوکیت کے اندر غور و فکر، مشاورت کی گنجائش کم ہی ہوا کرتی ہے جس کی وجہ سے بدگمانیاں کچھ زیادہ ہی پنپتی ہیں۔ ایران انقلاب کے بعد دنیا بھر کے مسلمانوں کیلئے اچھا پیغام دیتا تھا۔ امام خمینی کہا کرتے تھے کہ ’’لا شیعہ لا سنّیہ، اسلامیہ اسلامیہ‘‘۔ اس وقت شیعہ اور سنی میں اتحاد کے آثار نمایاں ہوگئے تھے؛ حالانکہ شیعہ حضرات تبرہ اور صحابہ کرامؓ کی شان میں گستاخیاں کرنے سے باز نہیں آتے تھے۔ امام خمینی کی ہدایت کا لحاظ نہیں کرتے تھے حج کے دوران قابل اعتراض کتابیں بھی مکہ اور مدینہ لے جاتے تھے پھر بھی مسلمانوں کے اندر ان کا ایک بھرم تھا لیکن آہستہ آہستہ ایرانی حکومت پر بھی شیعیت غالب ہوگئی۔ اب امریکہ اور روس شیطان اکبر اور شیطان اصغر نہیں ہے بلکہ سعودی ہی شیطان اکبر و شیطان اصغر ہے۔ شام میں جو ایران کردار ادا کر رہا ہے وہ انتہائی غلط ہے۔
میں نے انقلابِ ایران کی حمایت میں بہت کچھ لکھا ہے۔ ایرانی حکومت کی دعوت پر ایران بھی گیا تھا۔ وہاں کے عالموں اور حکمرانوں سے مل کر خوشی بھی ہوئی تھی۔ بعض چیزیں ایسی بھی تھیں جن کی طرف راقم نے بھری بزم میں توجہ دلائی تھی۔ سابق صدر ایران احمدی نژاد کے سبکدوش ہونے کے بعد ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نئے صدر یا نئے حکمراں اپنے پرانے دشمن کو بھول گئے ہیں اور سنی سعودی عرب کے نام سے اپنا ایک فرضی دشمن بنالیا ہے۔ سعودی حکومت کا رول یقیناًپہلے بھی اچھا نہیں تھا مگر ایرانی حکومت فراخ دلی کا مظاہرہ کرتی تھی۔ ایرانی حکومت کی فراخ دلی اب ختم ہوگئی ہے اور شیعیت کا حکومت پر غلبہ ہوگیا ہے۔ یہ افسوس ناک صورت حال ہے۔
سعودی عرب کی طرف سے ایران کے خلاف جو باتیں عام لوگوں کے بیچ میں کہی جاتی ہیں وہ سنیوں کیلئے ناقابل برداشت ہوتی ہیں۔ وہ ہے صحابہؓ اور صحابیاتؓ کے خلاف ان کے گستاخانہ کلمات، مقدس ہستیوں کے خلاف ان کی نازیبا تحریریں، تقریریں اور باتیں یقیناًعام سنیوں کو مشتعل کرنے کیلئے کافی ہوتی ہیں۔ بارہا ان سے کہا جاتا ہے کہ گالی گلوج یا تبرہ بازی کسی بھی شریف النفس کا کام نہیں ہے پھر بھی وہ اپنی عادت سے باز نہیں آتے ہیں اور اپنے مذہب کا حصہ قرار دیتے ہیں جو سراسر اسلام میں تو دور کی بات کسی غیر اسلامی مذہب میں اس طرح کی چیزوں کی گنجائش نہیں ہے۔ شیعہ بھائیوں کو اپنے اس عمل سے باز آنا چاہئے۔ سنیوں میں ایسے لوگ ہیں جو شیعہ اور سنی اتحاد کے قائل ہیں مگر شیعوں کو ایسی بری حرکتوں سے باز آنا ہوگا۔ سعودی عرب شیعوں کے بارے میں مبالغہ آمیز رائے رکھتا ہے اور وہ اس کی تبلیغ و تشہیر کر رہا ہے۔ اسے بھی اس اقدام سے رکنا چاہئے اور سنیوں کو بھی ایران اور سعودی کے خانے میں نہیں بنٹنا چاہئے۔ اگر دونوں ممالک لڑ رہے ہیں تو یہ حکمرانوں کی جنگ ہے، اس سے شیعہ اور سنی دونوں کو دور رہنا چاہئے۔اچھی بات یہ ہے کہ ہندستان میں اس کا اثر نہیں کے برابر ہے۔ آر ایس ایس یا دوسری مسلم دشمن طاقتیں اس معاملہ میں کوشش کے باوجود ناکام ہیں۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ کی مشترکہ پلیٹ فارم پر تمام مکاتب فکر کے اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ ابھی چند دنوں پہلے کلکتہ میں ہوا۔ دیگر شہروں میں بھی ہوا ہے۔ یہاں تک کہ لکھنؤ کی ایک مسجد میں شیعہ اور سنی دونوں فرقوں کے لوگوں نے ایک ساتھ مل کر نماز پڑھی ہے۔ یہ ایک ایسا مظاہرہ ہے جو دشمنوں کے منہ پر زبردست طمانچہ ہے ۔ ایسے مظاہرہ اکثر و بیشتر ہونے چاہئے تاکہ ہماری صفوں میں جو آستین کے سانپ ہیں یا صفوں سے باہر ہیں وہ اتحاد و اتفاق کو پارہ پارہ نہ کرسکیں۔
حسن مسرور صاحب کو معلوم ہونا چاہئے کہ جو کچھ اسلام کے خلاف مسلمان کر رہے ہیں۔ ایسے مسلمانوں کی تعداد زیادہ نہیں ہے وہ اقلیت میں ہیں۔ الحمدللہ مسلمانوں کا سوادِ اعظم بگڑا ہوا نہیں اور نہ ہی وہ گمراہ ہیں۔جو لوگ مسلمان ہوکر آپسی جنگ کو ہوا دے رہے ہیں جس سے مسلمانوں کی ہوا اکھڑ رہی ہے۔ وہ اللہ کے نزدیک معتوب اور مغضوب پہلے بھی رہے ہیں اور آج بھی ہیں۔ اللہ ایسے لوگوں کو اگر رجوع الی اللہ نہیں کرتے تو نیست و نابود کر دے گا اور ان کی جگہ ان سے بہتر لوگوں کو لائے گا جو اسلام اور مسلمانوں کیلئے قوت و شوکت کا سبب بنیں گے۔ آج بھی ہر روز دنیا بھر میں ہزاروں مرد و عورت حلقہ بگوش اسلام ہوتے ہیں۔ حسن مسرور کو معلوم ہے کہ یہ تعداد دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت روکنے میں ناکام اور نامراد ہے۔ اللہ کو بروں کو مٹانے میں نہ مشکل ہوتی ہے اور نہ نیکو کاروں کو پیدا کرنے میں کسی قسم کی دشواری پیش آتی ہے۔ جو لوگ بگاڑ کے راستے پر گامزن ہیں اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کر رہے ہیں وہ در اصل اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کر رہے ہیں اور نہ ہی مسلمانوں پر ظلم کر رہے ہیں بلکہ وہ خود رسوا اور ذلیل و خوار ہورہے ہیں اور اپنے آپ پر ظلم کر رہے ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔