مودی نے کشمیر پر خاموشی توڑی

سجاد الحسنین

ملک کی سترویں یوم آزادی کے سلسلے میں ذرا یاد کرو قربانی کے نام سے جنگ آزادی کی تحریک کی یاد تازہ کرنے کے لئے شروع کی جارہی مہم کا مدھیہ پردیش کے ضلع علیراج پور سے افتتاح کرتے ہوئے مودی نے ایک جلسے عام سے خطاب کیا۔ ایک مہینے کے طویل عرصے بعد کشمیر پر اپنی خاموشی توڑتے ہوئے وزیر آعظم نے کشمیر کے حالات پر افسوس کا اظہار کیا۔ وزیر آعظم نے کشمیر میں امن کی اپیل کرتے ہوئے اس بات پر افسوس ظاہر کیا ہے کہ کشمیر جنت نظیر کے نوجوان جن کے ہاتھوں میں لیپ ٹاپ ہونے چاہیے تھے انہوں نے پتھر اٹھا رکھے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کشمیر میں قیام امن کے لئے مرکزای سرکار ہر ممکن کوششکریگی۔ کشمیر میں بیروزگاری کے خاتمے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ بیروزگار نوجوانوں کا استحصال کیا جارہا ہے اور انہیں شدت پسندی کی جانب ڈھکیلا جارہا ہے۔ انہوں نے پاکستان کا نام لئے بغیر کہا کہ کشمیر میں کچھ عناصر حالات خراب کرنا چاہتے ہیں اور یہ ایک المیہ ہے اور کشمیر کے لوگوں کو اس سازش کو سمجھنا ہوگا۔ کشمیر کی گونج آج بھی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں گونج سنائی دی۔ اایوان بالاراجیہ سبھا میں کشمیر میں جاری تشدداورکشیدگی پر اج پھرہنگامہ ہوا۔ کانگریس لیڈر غلام نبی آزاد نے کشمیر کے حالات پر بحث کی مانگ کی ساتھ ہی اس مسئلہ پرکل جماعتی اجلاس طلب کرنے کا بھی مطالبہ کیاہے۔ سماج وادی کے رکن پارلیمان نے اس مسئلہ پر آج ہی بحث کامطالبہ کیاجبکہ پرمود تیواری نے پوچھاکہ اخراس موضوع پرایوان میں آج بحث کیوں نہیں ہوسکتی ہے۔ جواب میں وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے کہا کہ وادی میں حالات انتہائی سنگین ہیں اورحکومت اس معاملے پر بحث کے لئے تیارہے۔ ان کاکہناتھاکہ مسئلہ کشمیرتمام سیاسی جماعتوں کے تعاون سے حل ہوگابہوجن سماج پارٹی سربراہ مایاوتی نے مسئلہ کشمیراوردلتوں کی ہراسانی معاملہ میں وزیر اعظم سے ایوان میں بیان دینے کی اپیل کی ہے۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ بی جے پی یا پھر مودی ایوان میں اس سلسلے میں بیان دینے کے بجائے عوامی جلسوں میں اس مسئلے کو اچھالنے میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ کشمیر پر اگر وزیر آعظم پہلی بار بولے بھی تو ان کا رویہ ہمدردی کے بجائے ناقدانہ تھا اور انہیں افسوس اس بات پر ہوا کہ نوجوانوں کے ہاتھوں میں لیپ ٹاپ نہیں تھے۔ انہیں اس بات کا احساس آخرکیوں نہیں ہوا کہ ان پر گولیاں چلائی گئی ہیں۔ وہ پتھر بازی کا تذکرہ کرنا نہیں بھولے مگر افسوس کہ انہوں نے پیلٹ گنوں کے استعمال اور سیکیوریٹی فورسسکے رویہ پر کچھ بھی کہنے سے گریز کیا ہے گویا خاموشی توڑی بھی تو ایسی کہ جس کو سن کر کشمیر بے ساختہ کہ اٹھیں کہ ہم کو ہے ان سے وفا کی امید۔ جو یہ نہیں جانتے کہ وفا کیا ہے۔ اگر کسی ملک کے وزیراعظم کو طیش میں آ کر کہنا پڑے کہ ’گولی مارنی ہے تو مجھے ماریے‘، تو سمجھ لیا جانا چاہیے کہ اسے اپنی سیاسی زمین پر پھیلی پھسلن صاف نظر آنے لگی ہے۔ یادرہے کہ کشمیریوں پر فائیرنگ اور ہلاکتوں پر مودی کو کوئی افسوس نہیں ہے جبکہ دلتوں پر حملے ہورہے تھے اور گجرات میں دلتوں نے مودی حکومت اور سنگھ پریوار کے خلاف مہم چلائی تھی تو یہی مودی تھے جنہوں نے انتہائی درد کے ساتھ گو رکشکوں سے اپیل کی تھی کہ اگر گولی مارنا ہے تو مجھے ماریئے مگر میرے دلت بھائیوں کو بخش دیجئے۔ یادرہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو ایک ہفتے میں دو بار گائے کے خود ساختہ محافظوں کو سخت و سست کہتے ہوئے ان کے خلاف قانونی کارروائی کی بات عوامی فورم پر کرنی پڑی کیونکہ انھیں یہ سمجھ میں آ گیا ہے کہ اگر اس پھلسن پر ایک بار ان کا پیر پھسل گیا تو سہارا دے کر اٹھانے والا کوئی نہیں ملے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ سیاسی پھسلن اسی گجرات سے پیدا ہوتی اور پھیلتی نظر آ رہی ہے جسے دہائیوں سے ’ہندوتوا کی لیبارٹری‘ کہا جاتا رہا ہے اور جہاں نریندر بھائی مودی نے 15 برس تک حکومت کرکے ’ہندو ہردے سمراٹ‘ کا تمغہ حاصل کیا۔ آخر انھیں کیوں ان گﺅ رکشکوں (گائے کے محافظوں ) کو براہ راست خطاب کرتے ہوئے کہنا پڑا: ’اگر وار کرنا ہے تو مجھ پر کیجیے، میرے دلت بھائیوں پر وار کرنا بند کر دیجیے۔ گولی چلانی ہے تو مجھ پر چلایے میرے دلت بھائیوں پر مت چلایے۔ ‘مودی ہی نہیں بلکہ بی جے پی کو پیدا کرنے والی تنظیم آر ایس ایس کو بھی گائے کے محافظوں کے خلاف باقاعدہ بیان جاری کرنا پڑا۔ تاہم کشمیریوں کے حوالے سے مودی کی زبان میں وہ درد نہیں دیکھا گیا ہے ایسے میں اگر کشمیری یہ کہتے ہیں کہ۔ ۔ جب توقع ہی اٹھ گئی غالب کیوں کسی کا گلہ کرے کوئی۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔