محفوظ الرحمن نامی

مولانا محفوظ الرحمن نامی صوبہ اتر پردیش ضلع بلیا کے تحصیل رسٹرا میں 20 دسمبر، 1912ء کو ایک معزز علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ مشرقی یوپی کے عظیم دینی، تربیتی ادارہ جامعہ مسعودیہ نور العلوم بہرائچ بہرائچ اور عصری تعلیم کا مرکز آزاد انٹرکالج بہرائچ کے بانی اور موسس، یو.پیگورنمنٹ کی وزارت تعلیم میں پارلیمنٹری سکریٹ رہے۔

تعلیم اور اساتذہ

حضرت مولانا محفوظ الرحمن نامیؔ نے ناظرہ قرآن پاک، اور ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد حضرت مولانا نور محمد صاحبؒ سے حاصل کی، پھر مزید تعلیم کے لئے مؤ ناتھ بھنجن، ضلع اعظم گڑھ کے مدرسہ مفتاح العلوم میں داخلہ لیا، اور یہاں عربی فارسی کی ابتدائی کتابیں پڑھیں، مدرسہ مفتاح العلوم میں آپ کے اساتذہ میں مولانا عبد اللطیف صاحب نعمانیؒ، شیخ الحدیث حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔ پھر آپ کے والد بزرگوار نے برائے حصول تعلیم 1925ء مطابق 1344ھ میں دار العلوم دیوبند، دیوبند بھیجا۔ حضرت مولاناؒ نے وہاں پانچ سال رہ کر مختلف علوم وفنون کی کتابیں پڑھیں، اور 1929ء مطابق 1348 ھ میں دورہ حدیث سے فراغت حاصل کی۔ دار العلوم دیوبند میں آپ کے اساتذہ کرام میں شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی، شیخ الادب صاحب بلیاوی وغیرہ کے نام خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔ حضرت مولانا نامیؒ نے دار العلوم سے فراغت کے بعد الہ آباد بورڈ سے مولویؔ، عالمؔ، فاضلؔ کے امتحانات میں نمایاں اور امتیازی حیثیت سے کامیابی حاصل کی۔

اصلاحی تعلق اور خدمات

حضرت مولانا محفوظ الرحمن صاحب نامیؔ نے نجیب آباد ضلع بجنور کے ایک بزرگ حضرت مولانا نجیب اللہ شاہ صاحب سے اپنا اصلاحی تعلق قائم کر رکھا تھا، اکثر وبیشتر رمضان اپنے شیخ کے پاس نجیب آباد میں ہی گذارتے تھے، لیکن کچھ نامساعد حالات کے باعث مولانا نامیؒ نے اپنے موجودہ شیخ سے بیعت فسخ کرلی، اور حضرت مولانا فضل رحمن صاحب گنج مرادآبادی کے خلیفہ ومجاز حضرت حاجی عبد الرحیم صاحب سے اپنا اصلاحی تعلق قائم کیا، اور پھر اخیر عمر تک ان ہی کے مسترشد رہے، حضرت حاجی صاحب کا قیام فیض آباد میں رہتا تھا، مولانا نامیؒ رمضان المبارک کا آخری عشرہ اکثر وبیشتر حضرت حاجی صاحب کے پاس گذارتے تھے، اور منازل سلوک طے کرتے تھے، اس طرح حضرت مولانا نامیؒ نے تکمیل سلوک اور اجازت بیعت کے بعد اپنے شیخ کی ظاہری وباطنی فیوض کو عام کرنے کے لئے شہر وضلع بہرائچ کے مضافات میں بہت سے لوگوں کے قلوب کی اصلاح فرمائی، اور ان کو اپنے سلوکی سلسلۃ الذہب میں جوڑ کر ان کی دنیا وآخرت کو آراستہ وپیراستہ فرماتے رہے۔ اسی لئے حضرت مولانا نامیؒ کے مریدین ومتعلقین کی ایک بڑی تعداد کپور پور، گجیا پور، سرجو پوروہ، عاقلپور، نرہرگونڈہ، خیرتیا، حمید پور وغیرہ میں موجود ہے۔

خدمات

قیام نور العلوم حضرت مولانا نامیؒ کے والد بزرگوار حضرت مولانا سے بذریعہ ریل روانہ ہوئے ٹرین میں سوار ہونے کے کچھ ہی دیر بعد آپ پر فالج کا اثر ہوا، اور گونڈہ پہنچتے پہنچتے وصال ہوگیا۔ وہاں سے آپ کا جسد خاکی بہرائچ واپس لایا گیا، جہاں آپ کے معتقدین، متوسلین کا جم غفیر تھا، مولوی باغ قبرستان میں آپ کی تدفین ہوئی۔ بعدہٗ شہر کی جامع مسجد میں ایصال ثواب کے لئے ایک بہت بڑا اجتماع ہوا جس میں مولانا مرحوم کے اوصاف حمیدہ، اور قربانیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے لوگوں کی توجہ حضرت کی یاد میں ایک دینی ادارہ کے قیام کی طرف مبذول کرائی گئی، جو آپ کے مشن کو نہ صرف باقی رکھے، بلکہ مزید استحکام عطا کرے، اور مسلمانوں کو ان کی صحیح حیثیت بتائے، اور آئندہ نسلوں کو دین وایمان اور صحیح عقیدہ پر قائم رہنے کا سامان مہیا کرے۔ چنانچہ اسی مجمع میں موجود شہر کی ایک موقر شخصیت جناب الحاج خواجہ خلیل احمد شاہ صاحب مرحوم نے ’’قیام مدرسہ‘‘ کی تجویز رکھی جس کی تائید دیگر خواجگان حضرات ومعززین شہر نے پر جوش طریقے پر کی۔ ا س لئے حضرت مولانا محفوظ الرحمن نامیؒ نے مخلصین ومعززین شہر کی تجویز اور اپنی دیرینہ آرزو وخواہش کے مطابق یکم ذیقعدہ 1349ھ مطابق 29؍ مارچ 1931ء بروز اتوار جامع مسجد ہی کے صحن میں صرف دو طالب علموں حضرت مولانا حافظ حبیب احمد صاحب اعمیٰ محلہ گدڑی، حضرت مولانا حافظ عزیز احمد صاحب محلہ اکبر پورہ سے جامعہ مسعودیہ نور العلومکی بنیاد رکھی، اور علم وعرفان کا ایک چراغ روشن کیا۔ مفکر ملت حضرت مولانا محفوظ الرحمن صاحب نامیؒ نے جامعہ نور العلوم کی بنیاد ایسے وقت میں رکھی جب کہ ہر چہار جانب ظلمت وتاریکی چھائی ہوئی تھی، علم سے لوگ قال اللہ وقال الرسول کے نغمے اور زمزمے کانوں میں رس گھولنے لگے۔ چنانچہ حضرت مولانا نامیؒ نے اس ادارہ کی تعمیر وترقی کے لئے اپنے آپ کو وقف کردیا، اور اس میں ہمہ تن لگ گئے، اور اپنے خونِ جگر سے اس کی آبیاری کرکے اس کو بام عروج تک پہنچایا، عمدہ تعلیم وتربیت کی وجہ سے طلبہ کی تعداد تیزی سے بڑھی اور مدرسہ کے لئے مستقل عمارت کی ضرورت محسوس ہوئی، تو لوگوں کے مشورے سے جامع مسجد سے متصل راجہ نانپارہ کی ’’لیا محل‘‘ نامی عمارت جو خالی پڑی تھی، عالیجناب سعادت علی خاں راجہ نانپارہ سے حاصل کرکے مدرسہ جامع مسجد سے اسی عمارت میں منتقل کردیا گیا۔ حضرت مولانا نامیؒ نے تعلیم کے ساتھ مدرسہ میں صنعت وحرفت کا شعبہ بھی قائم کیا، تاکہ طالبان علوم نبوت فراغت کے بعد قوم پر بار بنے بغیر کسب حلال کے ذریعہ خود کفیل ہوسکیں، اس سلسلے میں جوتا سازی، پارچہ بافی، کارپنٹری، جلد سازی کا کام شروع کرایا، آخری دونوں کام سال ڈیڑھ سال میں بند ہوگئے، لیکن جوتا سازی کا شعبہ کافی دنوں تک جاری رہا، اور بہت سے طلبہ نے فائدہ اٹھایا۔ اسی طرح مولانا نامیؒ نے جامعہ کا الحاق عربی فارسی بورڈ سے کرایا جس کے امتحانات میں طلبہ شریک ہوتے اور امتیازی نمبرات سے کامیاب ہوتے، اور جامعہ کو گورنمنٹ سے ایڈ بھی ملتی تھی۔

آزاد انٹر کالج بہرائچ

حضرت مولانا محفوظ الرحمن صاحب نامیؒ نے ملک کی آزادی کے وقت فوری طور پر علوم عصریہ کی ترویج واشاعت کے لئے ’’مولانا آزاد نور العلوم ہائی اسکول‘‘ کے نام محلہ قاسم پورہ شہر بہرائچ میں ایک کالج کی بنیاد رکھی، جو فی الحال آزاد انٹر کالجکے نام سے مشہور ومعروف ہے۔ (مختصر تعارف، خدمات، منصوبے 94-1993ء/14) تحریک قرآن فہمی: حضرت مولانا نامیؒ نے اس وقت کے مسلمانوں کی شرح ناخواندگی سے متاثر ہو کر قرآن فہمی اور قرآنی تعلیم کو عام کرنے کے لئے ’’رحمانی قاعدہؔ عربی‘‘ اردوؔ ’’معلمؔ القرآن‘‘ مفتاحؔ القرآن کے پانچ حصے مختصر نحوی صرفی قواعد پر مشتمل ترتیب دیا، تاکہ اس کے ذریعہ مسلم بچوں میں آسان طریقہ پر کم وقت میں قرآن فہمی اور ترجمہ قرآن کی استعداد وصلاحیت پیدا ہو جائے۔ پھر حضرت مولانا نامیؒ نے مذکورہ نصاب طبع کرایا، اور ضلع بہرائچ ودیگر اضلاع میں کوشش کرکے اس نصاب کو جاری کرایا، اس کے لئے آپ نے دوسرے صوبوں کا بھی دورہ کیا، بحمد للہ اس کے بہت اچھے نتائج مرتب ہوئے، اور اس وقت مفتاحؔ القرآن کے پانچوں حصے رحمانیؔ قاعدہ عربی، اردو بہت سے مدارس مکاتب اور کالجوں میں داخل نصاب ہیں۔

عہدے اور مناصب

حضرت مولانا محفوظ الرحمن نامیؒ جون 1947ء سے اکتوبر 1957ء تک 10؍ سال جامعہ نور العلوم کی موقر مجلس شوریٰ کے صدر رہے، اور ستمبر 1945ء تا فروری 1946ء عہدہ اہتمام پر فائز رہے، جب کہ از ابتداء تا 1353 ھ اور شوال 1360ھ تا ذی الحجہ 1368ھ تقریباً 12؍ سال منصبِ صدارتِ تدریس، اور ابتداء تا فروری 1946ء تقریباً ۱۵؍ سال ناظم تعلیمات کے عہدے پر متمکن رہے۔ (مختصر تعارف، خدمات، منصوبے 94۔ 9,8/1993)

حضرت مولانا نامیؒ نے 1946ء میں جمعیۃ علماء کے اشتراک سے کانگریس کے ٹکٹ پر پارلیمنٹری بورڈ سے الیکشن میں حصہ لیا، مقابلہ میں مسلم لیگ کے امیدوار مسٹر ظہیر کی ریشہ دوانیوں کے باعث حضرت مولانا نامی سے پارلیمنٹری سکریٹری کا عہدہ اس وقت کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر سمپورنا نند جی نے واپس لے لیا، اور پھر اسمبلی کی ممبری کی مدت پوری ہونے کے بعد دوبارہ اسمبلی نہیں گئے۔ حضرت مولانا نامیؒ نے ایک حج والد مرحوم کے وصال کے چار یا پانچ سال بعد کیا اور دوسرا حج مع اہل وعیال1950ء میں کیا۔ حضرت نامیؒ کے مخصوص تلامذہ اور تربیت یافتہ: جامعہ نور العلوم کے سب سے پہلے طالب علم اور نور العلوم کے قدیم ترین استاذ حضرت مولانا حافظ حبیب احمد صاحب اعمیٰ، جامعہ کے سابق ناظم تعلیمات حضرت مولانا حافظ محمد نعمان بیگ صاحبؒ، جامعہ کے سابق اساتذہ حضرت مولانا عابد علی صاحب، حضرت مولانا محمد سمیع اللہ صاحب، حضرت مولانا غلام احمد صاحب نوریؔ کے علاوہ مولانا حافظ عزیز احمد صاحب، مولانا محمد عرفان بیگ صاحب نوریؔ، مولانا جنید احمد صاحب بنارسی، مولانا عبد الباری صاحب نوریؔ، مولانا حکیم ابوالبرکات صاحب کلکتہ، مولانا محمد محب الرحمن صاحب رسٹرا بلیا، مولانا عبد الرزاق صاحب سونی پت پنجاب، مولانا حافظ صفی اللہ صاحب گونڈوی، مولانا ممتاز احمد صاحب بارہ بنکوی، مولانا عبد اللطیف صاحب گدڑی مولانا عبد الحمید صاحب دتلو پور گونڈہ، مولانا عبد التواب صاحب دتلو پور گونڈہ، مولانا محمد عمر صاحب نوریؔ کشن گاؤں، مولانا عبد المجید صاحب نانپارہ، مولانا راحت علی خاں صاحب نانپارہ، مولانا شبیر احمد صاحب دربھنگا آپ کے مخصوص تلامذہ میں سے ہیں، حضرت مولانا کلیم اللہ صاحب نوریؔ نے آپ سے بھرپور اکتساب فیض کیا، سفر وحضر میں برابر آپ کے ساتھ رہے، اور ہر ممکن آپ کے پروگراموں، تحریکوں کو کامیاب بنایا۔ نیز آپ کے فیض یافتگان میں جامعہ نور العلوم کے موجودہ صدر المدرسین حضرت مولانا مفتی ذکر اللہ صاحب قاسمیؔ، اور تلامذہ میں مولانا ولی الرحمن نوریؔ، مولانا عزیز الرحمن صاحب مرحوم بھنگا، وغیرہ خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔ حضرت مولانا نامیؒ صرف پڑھاتے ہی نہیں تھے بلکہ علوم وفنون پلاتے تھے، اور اپنے تلامذہ پر ایسی گہری چھاپ چھوڑتے تھے جو بعد میں نمایاں رہتے تھے، اللہ تعالیٰ نے آپ کو بڑی خصوصیات کا حامل بنایا تھا۔ نکاح: حضرت مولانا نامیؒ نے تین نکاح کئے، پہلا نکاح خاندان ہی میں کیا، جن سے دو صاحبزادیاں، اور ایک صاحبزادے تھے، صاحبزادے کا بچپن میں انتقال ہوگیا تھا، اور دونوں صاحبزادیوں میں سے ایک حیات ہیں۔ دوسرا نکاح بنارس کے ماسٹر عبد الرحیم صاحب کی صاحبزادی سے ہوا، ان سے چار صاحبزادے اور ایک صاحبزادی ہوئی، اور صاحبزادی کا نکاح کلکتہ میں جامعہ نور العلوم کی شوریٰ کے رکن حضرت مولانا حکیم محمد عرفان صاحب الحسینی کے ہمراہ ہوا۔ اور تیسرا نکاح حضرت مولانا نامیؒ نے ترجمہ قرآن کریم کے نصاب کو عورتوں میں رائج کرنے کی غرض سے ایک گریجوٹ خاتون جو خیرآباد ضلع سیتاپور کی تھیں ان سے کیا تھا، مگر وہ مولانا نامی کا ساتھ دینے پر تیار نہیں ہوئیں جس کی وجہ سے نکاح طلاق پر منتج ہوگیا۔ فارمیسیٹ اور تین صاحبزادیاں بشریٰ خاتون، شکریٰ خاتون، حسنیٰ خاتون ہیں۔ حضرت نامیؒ کے بڑے صاحبزادے مولانا ولی الرحمن صاحب نوریؔ یکم دسمبر 1944ء کو محلہ ناظرپورہ میں پیدا ہوئے، اور 16؍ رمضان المبارک 1421ھ مطابق 13؍ دسمبر 2000ءکو بعمر 56؍ سال 12؍ یوم انتقال فرما گئے، موصوف 1969ء سے جامعہ نور العلوم کی مجلس شوریٰ کے رکن تھے، اور1976ء سے تادمِ آخر تقریباً 24؍ سال جامعہ کی موقر مجلس شوریٰ کے نائب صدر رہے، بقیہ صاحبزادگان سرکاری ملازمت میں ہیں۔ اور آپ کے پوتوں میں سے مولانا سعید الرحمن صاحب قاسمیؔ ابن مولانا ولی الرحمن نوریؔ جامعہ نور العلوم میں بحیثیت ناظم کتب خانہ ونگراں لائبریری خدمت انجام دے رہے ہیں۔

وصال اور آخری آرامگاہ

حضرت مولانا نامیؒ نے مسلمانوں میں قرآن فہمی پیدا کرنے کے لئے بہت غور وخوض کے بعد ایک مختصر نصاب ترجمہ قرآن پاک کا ترتیب دیا تھا، اس کو رائج کرنے اور نافذ کرانے کے لئے متعدد اضلاع کا دورہ کرتے ہوئے، 1957ء میں بہار تشریف لے گئے تھے، وہیں ضلع کشن گنج کے ایک جلسہ میں بہت پرجوش تقریر فرمائی، تقریر کے بعد فوراً آپ پر فالج کا اٹیک ہوا، شہری علاقہ سے دوری کے سبب وہاں کوئی معقول علاج نہیں ہوسکا، اس لئے اسی تکلیف کی حالت میں تین دن کے بعد گھر بہرائچ تشریف لائے، اور یہاں عمدہ طریقہ پر کہنہ مشق حکما سے علاج شروع ہوا، اور تیزی کے ساتھ افاقہ ہوا، اور اللہ نے دو تین ماہ میں کھڑا کردیا، اس کے بعد پھر دوبارہ دورہ پڑا جس کے نتیجہ میں آپ سات سال تک مفلوج اور صاحبِ فراش رہے۔ اور بالآخر 17؍ نومبر 1963ء نماز عشا پڑھنے کے بعد اچانک بعمر 50؍ سال 11؍ ماہ 27؍ یوم اپنے حصہ کی خدمات انجام دے کر اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔ {{ہزاروں سال نرگس، اپنی بے نوریؔ پے روتی ہے بڑی مشکل سے ہوتا ہے، چمن میں دیدہ ور پیدا}} پھر ہزاروں سوگواروں کے درمیان شہر کے مشہور قبرستان ’’مولوی باغ‘‘ میں حضرت مرزا مظہر جان جاناں کے خلیفہ ومجاز، متعدد کتابوں کے مصنف حضرت شاہ نعیم اللہ صاحبؒ کے قریب اور اپنے والد بزرگوار کے پہلو میں دفن ہوئے۔

تبصرے بند ہیں۔