مودی کا سفر: پتلی گلی سے اکھنڈ بھارت تک!

حفیظ نعمانی

سیاسی حلقوں میں یہ بحث شروع ہوگئی ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی ’’کانگریس مکت بھارت‘‘ کے نعرہ سے چلے تھے اور اس میں کامیاب بھی ہوتے نظر آرہے ہیں ۔ لیکن ابھی اسے وہ دانت سے کیوں پکڑے ہوئے ہیں ؟ ابتدا میں انہوں نے بڑے بڑے گھپلے بڑی بڑی بدعنوانیاں اور بھرشٹاچار کو اس کا سبب بتایا تھا اور یہ بات آج بھی وہ کہتے رہتے ہیں کہ تین سال میں ایک بھی بھرشٹاچار کا معاملہ سامنے نہیں آیا۔ ہمارے خیال سے یہ بات ضمنی ہے اصل بات وہ ہے جو اب آدتیہ ناتھ یوگی کو وزیر اعلیٰ بنانے سے سامنے آئی ہے کہ اُترپردیش میں اب زعفرانی رنگ کے کپڑے پر لڑکے اور لڑکیاں ٹوٹ پڑی ہیں ۔ لڑکے اسے گلے میں ڈالے ہوئے ہیں اور لڑکیاں دوپٹہ بنا رہی ہیں ۔ اور ہمارے نزدیک سب سے اہم تبصرہ وہ ہے جو ایک صورت اور لباس سے بہت ممتاز شخصیت نے کیاکہ اب اپنے لڑکوں کو سنیاسی کیوں نہ بنایا جائے کہ حکومت کی جتنی رعایتیں ہیں وہ بابا رام دیو اور آدتیہ ناتھ یوگی کو مل رہی ہیں ؟

پنڈت نہرو نے ہندو فرقہ پرستوں کے آگے گھٹنے ٹیکنے سے انکار کردیا تھا اور ہندو مہاسبھا یا آر ایس ایس کے خلاف چٹان بن کر کھڑے ہوگئے تھے۔ یہ ان کی بدقسمتی تھی کہ کانگریس میں شروع سے اچھی خاصی تعداد اسی نظریہ کی تھی جو ہندوستان کو اکھنڈ بھارت بنانا چاہتے تھے اور ان میں سردار پٹیل، پنڈت پنت، کیلاش ناتھ کاٹجو، پرشوتم داس ٹنڈن، مرارجی ڈیسائی، ایس کے پاٹل ہی نہیں لال بہادر شاستری بھی اگر زندہ رہ جاتے تو شاید وہ کام بہت پہلے ہوجاتا جو سونیا گاندھی اور راہل گاندھی کے زمانہ میں ہوسکا۔ پنڈت نہرو کو بنگال، کیرالہ اور تمل ناڈو کے وہ لیڈر مل گئے جو دھرم کو سیاست سے الگ مانتے تھے اور ان کی طاقت اتنی تھی کہ وہ بغاوت کرکے ملک کی دوسری تقسیم بھی کراسکتے تھے۔

شاستری جی کی زندگی نے ساتھ نہیں دیا اور اندرا گاندھی نے وہ کیا جو اپنی سسرال میں کرکے آئی تھیں کہ اپنے دونوں بچوں کو لے کر آگئیں اور فیروز گاندھی کو ان کی شرافت اور پنڈت نہرو سے محبت نے خاموش رہنے پر مجبور کردیا اور پھر اندرا گاندھی نے نہ اپنے باپ کی جمہوریت کو باقی رکھا اور نہ کسی کو سر اُٹھانے کا موقع دیا۔ انہوں نے پہلی ایمرجنسی تو پارٹی کے اندر لگائی جس میں ’’اندرا اَز انڈیا- انڈیا اَز اندرا‘‘ کہا جانے لگا اور دوسری طرف صوبوں کے وزیر اعلیٰ کو ذاتی ملازم بنا دیا کہ وہ ہر مہینے حاضری دیں اور تین سال سے زیادہ اپنے عہدہ پر نہ رہیں ۔

حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اتنی بڑی کانگریس ایک ڈگڈگی پر ناچتی رہی اور کسی نے صوبوں کی تنظیم ان کے الیکشن اور عہدے کسی مسئلہ پر سر نہیں اُٹھایا ورکنگ کمیٹی یا پارلیمنٹری بورڈ ہر چیز کو نمائشی بنا دیا اور صرف اپنا حکم چلایا۔ اور یہ بھی اس کی خوش نصیبی تھی کہ اس کے راستے کا سب سے بڑا پتھر جو اس کا بیٹا بن کر سامنے آیا اسے قدرت نے ہٹا دیا لیکن اس کے بعد بھی انہوں نے یہ نہ سمجھا کہ اللہ کے بندوں کے ساتھ اسے کیسا برتائو کرنا چاہئے؟

اندرا گاندھی انتہائی توہم پرست تھیں اور ان کی زندگی نے آر ایس ایس کو اور بڑھایا اور آج جو ماحول مودی کے اقتدار کے تین سال کے بعد اچانک بنا ہے اس کے لئے اندرا گاندھی ماحول بنا گئی تھیں ۔ سونیا گاندھی نے صرف ہندوستان میں رہ کر اپنی ساس کو دیکھا اور یہ اس کی ذہانت تھی کہ اس نے ہر بات سیکھ لی اور شاید اس لئے کہ وہ یہ سمجھتی ہوگی کہ ہوسکتا ہے کہ اسے اپنے شوہر کی مدد کرنا پڑے۔ اور تقدیر نے اسے یہ موقع بھی دے دیا۔ اب یہ راجیو گاندھی کی بدقسمتی تھی کہ اس کے اوپر ارون نہرو شیطان کی طرح سوار ہوگئے اور انہوں نے بابری مسجد کا تالا کھلوایا اور شلانیاس کراکے ملک کی فضا کو زعفرانی بنانے میں حصہ لیا۔

اب مودی کا بھرشٹاچار کا نعرہ بے جان ہوگیا ہے کیونکہ اب بات وہاں آگئی ہے کہ ان سے دو دو ہاتھ کئے جائیں جو مودی اور امت شاہ کو اپنی زمین پر قدم بھی نہیں رکھنے دے رہے کیرالہ کے کمیونسٹ اور مسلمان بنگال کے دھرم سے بے تعلق تمل ناڈو کے ناستک اور اُڑیسہ کے غریب۔ اب اتنا زمانہ ہوگیا کہ بی جے پی میں اب بھی آپس میں وہ شروع ہوگیا جو کانگریس میں آخری زمانہ میں ہوا تھا بہار میں شروگھن سنہا اور چھوٹے مودی دہلی میں پارٹی کے صدر اور پارٹی کے وزیر گوئل پوری طرح آمنے سامنے ہیں اور نہ جانے کتنے ہیں جن کے دل میں پھوڑے ہیں کہ بی جے پی بھی کانگریس کے راستہ پر چل رہی ہے کہ 320  ممبروں کے ہوتے وزیر اعلیٰ اور نائب وزیر اعلیٰ پارلیمنٹ کے ممبروں کو بنایا جارہا ہے اور جنہوں نے جان کھپائی وہ دری بچھا رہے ہیں ۔ اس کا اندازہ بی جے پی کو 2019  کے الیکشن میں ہوجائے گا۔

اب تین سال پورے ہونے کا جشن منانے پر سارا زور ہے اور 10  کروڑ انسانوں کو بتائیں گے کہ اچھے دن آئے۔ اور وہی جواب دیں گے کہ کس کے اچھے دن آئے ہیں ؟ بے روزگاری، کسانوں کی خودکشی، غریبوں کے فاقے، کہیں کہیں کرنسی کی مارا ماری اور دنیا کا کوئی ملک نہیں آیا جو کارخانے لگاتا مودی جی پوری طرح ناکام ہوئے آسٹریلیا ، فرانس اور امریکہ جس سے وعدے ہوگئے تھے کہ ہندوستان کو کہاں سے کہاں پہونچا دیں گے وہ سب ٹھنڈے ہوگئے۔ اسی کی بھڑاس تھی جو بڑے نوٹ بند کرکے نکالی اس کا ایک فائدہ یہ ضرور ہوا کہ منی پور اور گوا کو خرید لیا اور اُترپردیش اور اتراکھنڈ میں مخالفوں کو فقیر بناکر انہیں ہرادیا لیکن ہندوستان ختم نہیں ہوا اور نہ ہر دو سال کے بعد نوٹ بند کرسکتے ہیں گجرات، راجستھان اور مدھیہ پردیش کے الیکشن سامنے ہیں جہاں ان کی حکومت ہے۔ ان کے سامنے ہارنے کا خطرہ اگر نہیں ہے تو یہ خطرہ تو ہے کہ وہ اپنی طاقت برقرار رکھ پائیں گے یا نہیں ؟ ان سب کے باوجود مودی ملک کو جدھر لے جانا چاہتے ہیں اس میں انہیں ناکامی نہیں ہوئی اگر ایک اچھا مخالف محاذ بن گیا تو ہوسکتا ہے کہ ان کے قدم رُک جائیں ورنہ جو ہوگا وہ دنیا میں ایک ہی نمونہ ہوگا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔