مودی کا گجرات ماڈل

راحت علی صدیقی قاسمی

وزیر اعظم نریندر مودی ہمیشہ سے ہی انتخابی تشہیر میں گجرات کا استعمال کرتے رہے ہیں، گجرات کا ماحول، معیشت، روزگار، ترقی کا معیار، تعلیمی احوال و کوائف کو اعلیٰخیال کرتے ہوئے، پورے ملک کے لئے ماڈل قرار دیتے رہے ہیں، اْسی طرز پر ہندوستان کی تعمیر و ترقی کے دعوے کرتے رہے ہیں، انہوں نے اسمبلی انتخاب سے قبل بارہا اپنی تقریروں میں یہ دعوی کیا ہے کہ وہ پورے ملک کو گجرات کے مانند بنائیں گے، ترقی کے اسی معیار پر فائز کریں گے، جو گجرات میں ہے، ان کے یہ جملے انتخاب میں انتہائی مؤثر کن ثابت ہوئے، ملک کی اکثریت ان جملوں کی دیوانی محسوس ہوئیتھی، تالیوں گڑگڑاہٹ اور سیٹیوں کی گونج میں ان کی زبان ان جملوں کو ادا کرتی  جس سے عوام کے قلوب مطمئن ہوجاتے، ملک کی ترقی کا خواب نگاہوں میں پھر جاتا تھا، مسائل حل ہو جانے کی امیدیں خوش فہمی میں مبتلا کردیتیں۔

 یہ سلسلہ جاری رہا، اور ملک میں بی جے پی بر سر اقتدار ہوگئی۔، ترقی کے عنوان کے ساتھ ساتھ مذہبی معاملات کو بھی بی جے پی نے انتخاب میں بھرپور استعمال کیا، دیوالی رمضان قبرستان جیسے الفاظ اور افتراق کے جملے وزیر اعظم کی زبان سے بھی ادا ہوئے، اور ووٹ حاصل کرنے کے لئے تمام ممکنہ حربوں کا استعمال کیا گیا، عوام کو نعروں میں الجھا دیا گیا، ترقی کے خواب دکھائے گئے، گئو رکشکوں کا خونی کھیل بھی جاری رہا، مذہبی منافرت بھی پھیلتی رہی، بھگوا خیالات کا پرچار کرنا، ہندتوا کے نعرے لگانا، مسلم عورتوں کے مسائل حل کرنے کا دعوی کرنا، شرعی مسائل پر انگشت نمائی کرنا، اسی مقصد کی تکمیل کے طریقے تھے۔  ان طریقوں اور حربوں کی بناء￿  بنیاد پر بی جے پی طاقت ور ہوتی چلی گئی، وکاس کا نعرہ بھی لگایا گیا، ترقی کی گفتگو بھی ہوئی، ملک کو غربت سے چھٹکارہ دلانے کی جہد مسلسل کا اعلان بھی کیا گیا، لیکن وہ سب دعوے کھوکھلے نظر آئے، ترقی  لفظی ڈھونگ ثابت ہوئی، نوٹ بندی نے ملک کی کمر توڑ کر رکھ دی، جی ایس ٹی نے کاروباریوں کی نیندیں حرام کردیں، پیٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے سفر کو مہنگا کردیا۔

 ان سب باتوں کے باوجود بی جے پی کے وزراء کا بڑ بولا پن ہمیشہ باقی رہا، ہر ناکامی کو کامیابی کا لباس پہنانے کی کوشش کی گئی، الٹی سیدھی تاویلیں کی گئیں، جملے کسے گئے، اپوزیشن کی کمزوری کا بھرپور فائدہ اٹھایا گیا، میڈیا نے چند مدعوں تک لوگوں کو سمیٹ کر ان مسائل سے بے خبر رکھنے کی کوشش کی۔ ان سب کے باوجود لوگوں کو مسائل کسی حدتک نظر آنے شروع ہوگئے ہیں، جو بی جے پی کے لئے خطرہ کی گھنٹی ہے، گجرات میں لاکھ جتن کے باوجود بھی بی جے پی احمد پٹیل کو ہرانے میں ناکام رہی، یہ ہار بی جے پی کے لئے حوصلہ شکن ثابت ہوئی، پٹیل براداری کی تحریک نے اسے نقصان پہونچایا، پاٹی داروں کی تحریک سے لوگ متاثر ہوئے، وعدوں کی تکمیل نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کا نظریہ تبدیل ہوا ہے، خاص طور پر دو برادریاں پوری طرح سے بی جے پی کے خلاف ہیں، جی ایس ٹی کے نفاذ کے بعد  ٹیکسٹائل سے جڑے ہوئے افراد بھی ان کے خلاف جاتے دکھ رہے ہیں، جب کہ گجرات کے شہر سورت میں تقریبا 400 ٹیکسٹائل بازار ہیں، جی ایس ٹی کے خلاف مظاہرہ کرکے ان سے وابستہ لوگوں نے اپنے غصہ کا ثبوت بھی پیش کردیا ہے۔

 آگ میں گھی کا کام مشہور ویب سائٹ ’دی وائر ‘کے خلاصوں نے کیا، ان تحقیقات کے بعد نفرت میں مزید اضافے کے امکانات روشن ہیں، چونکہ ویب سائٹ نے واضح کیا ہے، مودی کے دورِ حکومت میں امیت شاہ کے بیٹے کو کروڑوں کا فائدہ ہوا حالانکہ اس سے قبل انکی کمپنی انتہائیخسارے میں تھی۔ وہ اس نیوز ویب سائٹ ’دی وائر‘ پر ہتک عزت کا کیس کر چکے ہیں، مگر ویب سائٹ اپنے دعووں پر قائم ہے۔

اس صورت حال میں جہاں بی جے پی کی پکڑ ڈھیلی ہوتی ہوئی محسوس ہورہی ہے، وہیں انتخاب میں انہیں نقصان ہونے کا قوی اندیشہ ہے، اور کچھ ایسے واقعات بھی گجرات میں رونما ہوئے ہیں، جو بی جے کے لئے پوری طرح راہیں مسدود کرسکتے ہیں، اور عوام کے ذہنوں خدشات و سوالات پیدا کرسکتے ہیں، اگر اب بھی ان پر بھروسہ کیا گیا تو مستقبل کیا ہوگا ؟ دلتوں پر جو مظالم ہوئے ہیں، انہون نے گجرات ماڈل کی پول کر رکھدی، اور یہ احساس کرادیا کہ آسان نہیں ہے ڈگر پنگھٹ کی، ساتھ ہی یہ بھی عیاں ہو گیا جس ریاست کے نظم و نسق اور لاء اینڈ آرڈر کو وزیر آعظم پورے ملک کے لئے آئیڈیل قرار دے رہے تھے، وہاں ایک دلت کو صرف اس لئے قتل کردیا گیا کہ وہ اعلیٰ ذات کی نوراتری کا رقص دیکھ رہا تھا، اس رقص کی تقدیس کے باعث دلت اس کو دیکھنے کا حق دار نہیں تھا، اس دعوی کی بناء پر اسے پیٹ پیٹ کر قتل کر ڈالا گیا۔

 یہ ہے مودی کا ماڈل، اکیسوی صدی میں ترقی اعلی معیار پر ہے، ذہنوں میں وسعت ہے، مذہبی شدت رسوم و رواج کو کم کرنے کی مہم چلائی  جا رہی ہے، خاص طور پر اسلامی احکامات جو پوری طرح سائینٹفک ہیں، انہیں تنگ نظری کی علامت تشدد کی منہ بولتی تصویر ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، گاندھی کی سرزمین پر ہوا یہ دلدوزواقعہ زبان حال سے سوال کررہا ہے  کہ مودی جی نے کبھی ہندؤوں میں اصلاح کی کوشش کی ؟ دلتوں کے لئے نفرت کو کم کرنے پر زور دیا ؟ کبھی انہیں یہ احساس ہوا کہ دلت بھی انسان ہے ؟ اس حقیقت سے قوم کو واقف کرایا جائے ؟ انکی حیثیت تسلیم کرائی جائے، تکبر و عناد پر مبنی اس کھیل کو بند کیا جائے ؟ حالات و واقعات اس کا سوال کا جواب نہیں میں دیتے ہیں  اور یہ صورت حال گجرات کی ہے، اس سے بڑھ کر ملک کا منظرنامہ انتہائی دل شکن ہے، ان کے وزیر نے دلت کو کتا کہا، دلت طلبہ کو حقارت کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے، کبھی ان کی تقریر نے اس مسئلہ کو چھیڑنے کی کوشش کی ؟ غور کیجئے تقریریں سنئے اندازہ کیجئے انکا مقصد کیا  ہے ؟ دلت حاملہ عورت کو زدو کوب کیا گیا، اور یہ واقعہ بھی ان کے ماڈل گجرات میں پیش آیا، مگر ان کی زبان سے ایک لفظ نہیں نکلا، میڈیا پروپیگنڈا کرنے میں مشغول رہا، ایک شخص کو صرف مونچھیں بڑھانے کے جرم میں پیٹا گیا، اور جمہوریت کا مذاق اڑایا گیا، کیا واقعی یہ عوامی حکومت کا طرز عمل ہے ؟ کیا ان معاملات پر خاموشی صحیح ہے ؟ کیا اس ریاست کو ماڈل کہنا درست ہوگا ؟

ان سوالات کے جوابات آپ کے ذہنوں میں ہیں، غور کیجئے زبان پر بھی آجائیں گے، اور احساس ہو جائیگا پورے ملک کی کیفیت یکساں ہے، اور انسانوں کو محض ووٹ تصور کیا جارہا ہے، انتخاب میں دلتوں ہندتوا کی یاد دلائی جاتی ہے، اور انتخاب کے بعد بھلا دیا جاتا ہے، ان کے تکالیف و درد کا مذاق اڑایا جاتا ہے،  اب گجرات انتخاب میں واضح ہوجائیگا، کہ بی جے پی کس صورت حال میں ہے، اور 2019 کا انکا خواب شرمندہ تعبیر ہوگا یا نہیں، عام آدمی کے لئے بھی ضروری کے وہ ان احوال سے باخبر رہے اور سبق حاصل کریں تاکہ مستقبل میں انہیں جھیلا نا جاسکے  اور ملک کو نفرت وتعصب سے بچایا جاسکے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔