جو جتنا چاہے لوٹ لے اس ملک کو!

محمد خان مصباح الدین

بدعنوانی ہر ملک اور سماج کے لیے زہر ہے جو قوم وملک اور معاشرے کے غلط لوگوں کے ذہن میں پنپتا اور پھیلتا ہے, اور اسی تناظر میں محض ذاتی فائدے کے لیے عام انسانوں کی جان ومال اور سازوسامان اور وسائل کو نقصان پہونچایا جاتا ہے, اور یہ کام ان لوگوں کی طرف سے ہوتا ہے جو اپنی طاقت اور عہدے کے نشے میں انسانیت تک کو بھول جاتے ہیں اور اپنی طاقت اور پوزیشن کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں ، اب چاہے وہ حکومت ہو یا غیر سرکاری تنظیم ہو, بدعنوانی نے جہاں ملک کی کمر توڑی ہے وہیں عام انسانوں کو روڈ پر لا کھڑا کیا ہے ، اور یہ معاشرے کے درمیان عدم مساوات کی ایک بڑی وجہ ہے، یہ سیاسی، اقتصادی اور سماجی ترقی کے ساتھ ساتھ ملک کی ترقی میں بھی رکاوٹ ہے,

ہندوستان کی آزادی کے فورا بعد ہی بدعنوانیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا,بدعنوانی کے خاتمے کے لیے 21دسمبر 1963 کو پارلیمینٹ میں بحث ہوئی جس میں ڈاکٹر رام منوہر لوہیا نے کھلے لفظوں میں کہا تھا کہ ہندوستان میں سیاست اور تجارت کے تعلقات اتنے بد عنوان ہو گئے ہیں دنیا کی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا.

قارئین کرام!

جس طرف ہم جا رہے ہیں اگر ہم نے اس بربادی کو یہیں نہیں روکا یا اپنے قدم اس راست سے نہیں ہٹائے اور اس پر غور نہیں کیے تو بہت بڑی تباہی اور نقصان میں پڑ جانے کا مکمل خطرہ ہے جسکا ازالہ برسوں تک ممکن نہ ہوگا,

یوں تو ہمارے ملک میں ہر روز بدعبوانی, لوٹ,چوری,ڈاکہ زنی ہوتی رہتی ہے جس میں سے کچھ ہی عوام کے سامنے آتے ہیں باقی ظاہر ہوکر بھی چھپا لیے جاتے ہیں , آئیے ہم سرسری طور پر ان بدعنوانیوں اور اسکے تنائج کو دیکھتے ہیں :

جیپ سکیم!

آزادی کے بعد، حکومت ہند نے لندن کی ایک کمپنی سے 2000 جیپ کی خریداری کی, یہ خریداری 80 لاکھ روپے کی تھی, لیکن صرف 155 جیپ ہی موصول ہوئی اس سکینڈل میں ہندوستان کے ہائی کمشنر وی کے کرشن مینن کا ہاتھ ہونے کی بات سامنے آئی لیکن1955میں کیس بند کر دیا گیا , اور اسکے بعد مینن جلد ہی نہرو کی کابینہ میں شامل ہو گئے.

سائیسکل درآمد! (1951)

تجارت اور صنعت وزارت کے سیکرٹری ایس اے وینکٹرمن نے ایک کمپنی کو سائیسکل درآمد کوٹہ کے بدلے میں رشوت لیا, جسکی وجہ سے اسے جیل کی ہوا کھانی پڑی.

منڈرا ماس! (1958)

ہارداس مندھرا کی طرف سے قائم کردہ چھ کمپنیوں میں لائف اینسورینس آف انڈیا  کے 1.2 کروڑ روپیے سے متعلق کیس سامنے آیا,اس میں مالیاتی وزیر ٹی ٹی کرشنامچاری،فنانس سیکرٹری ایچ ایم پٹیل، ایل آئی سی کے چیئرمین ایل ایس ویگھیاناتھن، وغیرہ نامزد ہوئے. کرشنامچاری کو استعفی دینا پڑا اور مندھرا کو جیل جانا پڑا.

فاسٹ قرض!

1960 میں ، ایک تاجر دھرم تیجا نے شیپینگ کمپینی شروع کرنے کیلیےحکومت سے 22 کروڑ روپیہ کا قرض لیا, لیکن بعد میں پیسہ ملک سے باہر بھیج دیا گیا مگر وہ یورپ میں گرفتار کیا گیا اور صرف چھ سال تک قید کیا گیا.

پٹنایک کیس!

1965 میں ، اڑیسا کے وزیر اعلی بیجو پٹنایک کو استعفی دینے پر مجبور کیا گیا تھا ان پر الزام لگایا گیا تھا کہ ان کی نجی کمپنی ‘کلنگ ٹیوبس’ کوسرکاری کونٹریکٹ دلانے کے لیے انہوں نے مدد کیا تھا.

ماروتی گھوٹالہ!

ماروٹی کمپنی بننے سے پہلے، وہاں ایک گھوٹالہ ہوا تھا جس میں سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی کا نام آیا,اس معاملے میں مسافر کار بنانے کا لائسنس دینے میں سنجے گاندھی کی مدد کی گئی تھی.

کووو تیل کا معاہدہ!

1976 میں تیل کے گرتے داموں کے مدنظر انڈین آئل کارپوریشن نے ہانگ کانگ  کی ایک فرضی کمپنی کے ساتھ تیل خریدنے کا معاہدہ کیا ،  اس معاملے میں ہندوستانی حکومت کو13 کروڑ کا چونا لگایا گیا. اور لوگوں نے یہاں تک کہا ہیکہ اس معاملے میں اندرا اور سنجیے گاندھی کا بھی ہاتھ تھا.

انتولے ٹرسٹ!

1981 میں ، مہاراشٹر میں سیمنٹ گھوٹالہ ہوا پھر مہاراشٹر کے وزیر اعلی اے آر انتولے پر الزام لگا کہ وہ عوام کی فلاح وبہبود میں استعمال ہونے والی سیمنٹ خاص لوگوں کو دے رہے ہیں ،

ایچ ڈی ڈبلیو دلالی! (1987)

جرمنی کی سب مرین تیار کرنے والی کمپینی ایچ ڈی ڈبلیو کو سیاہ فہرست میں شامل کردیا گیا, معاملہ یہ تھا کہ اس نے 20 کروڑ روپیہ بطور کمیشن دیا ہے,کیس 2005 میں بند ہو گیا یہ فیصلہ ایچ ڈی ڈبلیو کے حق میں تھا, اس معاملے میں کل 32 کروڑ کا گھوٹالہ ہوا جسکا 5 مارچ 1990 کو کیس تو رجسٹرڈ ہوا مگر سزا کسی کو نہیں ہوئی اور نہ ہی رقم کی وصولی ہوئی اور اب معاملہ یہاں تک آیا کہ سی بی آئ نے کیس بند کرنے کی اجازت طلب کی ہے.

بوفورس سکینڈل!

1987 میں سویڈن کمپنی بوفورس ایبی سے رشوت کے سلسلے میں راجیو گاندھی جیسے بہت سے بڑے بڑےرہنماؤں کو نامزد کیا گیا, معاملہ یہ تھا کہ ہندوستانی 155 میمی فیلڈ ہاورزر کی بولی میں رہنماوں نے تقریبا ، 64 کروڑ روپیہ کا گھوٹالہ کیا, جس کا کیس تو 22  جنوری، 1990 کو رجسٹرڈ ہوا مگر سزا کسی کو نہیں اور نہ ہی رقم کی وصولی کی گئی.

سیکورٹی سکیم!(ہرشد مہتا معاملہ)

1992 میں ہرشد مہتا نے اسٹاک مارکیٹ میں بینکو کی رقم سرمایہ کاری میں لگا دیا جس کے نتیجے میں اسٹاک مارکیٹ کو تقریبا 5000 کروڑ روپیہ کا نقصان ہوا,اس معاملے کا 1992 اور 1997 کے درمیان مقدمہ رجسٹرڈ ہوا جس میں ہرشد مہتا (سزا کے 1 سال کے بعد موت) کیساتھ چار اور لوگوں کو سزا ہوئی مگر رقم کی وصولی بالکل بھی نہیں ہوئی

انڈین بینک!

1992 میں ، چھوٹے کارپوریٹس ایکسپوٹرس نے بینک سے تقریبا 13،000 کروڑ روپیے قرض لیے اور یہ قرض انہوں نے  کبھی واپس ہی نہیں کیا,اس وقت بینک کے چیئرمین ایم گوپال کرشنن تھے.

چارہ گھوٹالہ!

1996 میں بہار کے وزیر اعلی لالو پرساد یادو اور دیگر رہنماؤں نے مبینہ طور پر دھوکہ دہی کیساتھ ریاستی مویشیوں کے محکمہ سے 950 کروڑ روپیے ہضم کر گئے.

تہلکا!

اس آن لائن نیوز پورٹل نےاسٹنگ آپریشن کے ذریعے آرمی آفیسررز اور سیاستدانوں کو رشوت لیتے ہوئے پکڑا,یہ انکشاف کیا گیا تھا کہ حکومت کی طرف سے کئے گئے 15 دفاعی ڈیلوں میں بہت زیادہ دھوکہ دھڑی ہوئی ہے اور اسرائیل سے کی جانے والی بارک میزائل ڈیل بھی ان میں سے ایک ہے.

اسٹاک مارکیٹ!

سٹاک بروکر کیتن پاریخ نے اسٹاک مارکیٹ میں 1،15،000 کروڑ روپیےکا گھوٹالہ کیا جسے دسمبر 2002 میں گرفتار کیا گیا تھا.

سٹیمپ پیپر سکیم!

یہ کروڑو روپیے کا جعلی سٹیمپ پیپر تھا, اس ریکیٹ کا سربراہ عبدالکریم تیلگی تھی.

ستیم گھوٹالہ!

2008 میں ملک کی چوتھی سب سے بڑی سافٹ ویئر کمپنی، ستیم کمپیوٹرز کے بانی صدر رام لنگا راجو کے ذریعہ 8،000 کروڑ روپئے کا گھوٹالہ سامنے آیا, راجو نے اعتراف کیا ہے کہ گزشتہ سات سالوں کے دوران اس نے کمپنی کے اکاؤنٹس میں ردوبدل کی ہے.

منی لانڈرنگ!

 2009 میں مدھو کوڑا کو 4000 کروڑ روپئےکے منی لاؤنڈرنگ کا مجرم پایا گیا, مدھو کوڑا کی اس جائیداد میں ہوٹل، تین کمپنیاں ، کلکتہ میں جائیداد، تھائی لینڈ میں ایک ہوٹل اور لائیبریریاں اور کوئلے کی کان بھی شامل ہے.

ایئر بکس سکیم!

 120 کروڑ روپئے کا گھوٹالہ3 مارچ 1990 کو کیس درج ہوا سزا ابھی تک کسی کو نہیں

اور رقم کی وصولی کچھ بھی نہیں

(فرانس سے بوئنگ 757 خریدنے کا معاہدہ اب بھی رکا ہوا، پیسہ اب تک واپس نہیں آیا یا وہ کبھی کسی کی نظر ہو گیا معلوم نہیں )

چارہ سکیم!

 950 کروڑکا گھوٹالہ ہر بار کیطرح اس کا بھی معاملہ درج کیا گیا اور 1996 سے لیکر اب تک کل 64 بار معاملہ درج ہوا مگر سزا صرف ایک سرکاری ملازم کو ہوئی اور رقم کی وصولی بالکل بھی نہیں

(اس معاملے کے تئیں بہار کے سابق وزیر اعلی لالو پرساد کو کل چھ دفعہ جیل میں بند کیا گیا مگر حاصل کچھ بھی نہیں ہوا )

ٹیلی کام سکیم!

 1200 کروڑ کا گھوٹالہ اس کا بھی کیس 1996 کورجسٹرڈ ہوا سزا ایک کو وہ بھی برائے نام کیونکہ ہائی کورٹ میں اپیل کی وجہ سے مکمل سزا کا انتظار ہے اس 1200 کروڑ میں سےصرف 5.36 کروڑ کی وصولی ہو پائی ہے وہ بھی غنیمت ہے

یوریا سکیم !

133 کروڑ کا گھوٹالہ 26 مئی 1996 کوکیس رجسٹرڈ  ہوا مگر سزا ابھی تک کسی کو بھی نہیں رقم کی وصولی صفر

سی آر بی!

 1030 کروڑ کا گھوٹالہ 20 مئی، 1997کو کیس درج مگر سزا کسی کو بھی نہیں ہوئی اور نہ ہی رقم کی وصولی ہوئی

(چین روپ بھنسالی (سی آر بی) نے1 لاکھ سرمایہ داروں کاتقریبا1 لاکھ 30 کروڑ ڈوبو دیا اور اب عدالت میں خود اپیل کرکے حکومت سے اپنی بحالی کے لۓ ایک پیکج طلب کر نا چاہتا ہے)

کےپی!

3200 کروڑ کا گھوٹالہ2001 میں 3 واقعات اسی کے تعلق سے رونما ہوئے کیس بھی رجسٹرڈ ہوا مگر نہ تو کسی کو سزا ہوئی اور نہ رقم کی وصولی

قارئین کرام!

ایک شجر کو تناور درخت بننے کیلیے بہت سے کھاد پانی ساتھ ہی ساتھ نگہبانی کی ضرورت پڑتی ہے, آزادی کے ٹھیک بعد ہمارے سیاستدانوں نےبدعنوانیوں کے پھلنے پھولنے کا مکمل انتظام کر دیا تھا, اگر جیپ گھوٹالے کے ملزم وی کے كرشن مینن کو وزیر دفاع نہیں بنایا جاتا، پرتاپ سنگھ کیروں کو کلین چٹ نہ دی جاتی, اور ناگر والا سکینڈل کی حقیقت عوام کے سامنے آ جاتی اور اصلی گنہگاروں کا پتہ چل جاتا تو شاید پھر کوئی متاثر کن آدمی گھوٹالہ اور بدعنوانی کرنے سے خوف کھاتا، لیکن ایسا نہیں ہوا, نتیجے کے طور پراس ملک کو جیپ سے لے کر 2 جی اسپیکٹرم تک سینکڑوں سکینڈل اور گھوٹالوں سے چور ہونا پڑا,نہ جانے یہ زخم اور کب تک اس ملک کوسہنا پڑے گا,

سوچنے والی بات یہ ہیکہ سب گھوٹالے سامنے بھی نہیں آتے سو میں ایک یا دو ہی عوام کے سامنے آتے ہیں اس سے اندازہ لگایا جا سکتا کہ ہندوستان کسطرح سے اپنوں کے ہاتھ لٹتا جا رہا ہے اور اس کا اثر سیدھا ملک کی عوام پر ہو رہا ہے مہنگائی کی صورت میں .

انتخابات سے پہلے ہر پارٹی عوام کیساتھ مل کر مہگائی کا احتاج کرتی ہے بڑے بڑے جلوس نکالے جاتے ہیں ہر گروہ اپنے مد مقابل کو نیچا دکھاکر خود کو شریف اور حکومت کا اہل باور کراتا ہے اور عوام کو اسبات کا یقین دلایا جاتا ہے کہ ہم ہر اعتبار سے عوام کے ساتھ ہیں اور مخالف کو نا اھل اور کرپٹ بتایا جاتا ہے مگر جب وہی پارٹی خود حکومت کی کرسی پے قابض ہوتی ہے تو اسکا چہرہ پہلے والے سے کہیں زیادہ گھناونا,بدصورت اور اسکی حرکتیں پہلے والے سے زیادہ کرپٹ ہوتی ہیں یہ ہے ہمارے ملک کی حکومت کا حال,آپ اندازہ لگائیں کہ 2 جی سکیم میں 1لاکھ 76 ہزار کروڑ کا گھوٹالہ ہوا اس سے قوم وملک کے وجود,اسکی سالمیت پر کتنا بڑا اور کتنا شدید اثر ہوا ہوگا اسکا اندازہ لگانا مشکل ہے

تقریبا 1987 میں ملک کے وزیر اعطم راجیو گاندھی نے کہا تھا کہ اگر حکومت ملک کی عوام اور غریبوں کیلیے ایک روپئے خرچ کرتی ہے تو ان میں سے صرف پندرہ پیسے ہی ان تک پہونچتے ہیں .

مثلا گاوں میں اعلان ہوتا ہے کہ حکومت نے غریبوں کو ایک روپئے کلو چاول دینے کا اعلان کیا ہے مگر اچھے چاول یا تو آتے ہی نہیں یا اگر اچھے چاولآتے بھی ہیں تو پرائیویٹ لوگو کو دے دیئے جاتے ہیں اور عوام تک جو چاول پہونچتا ہے وہ سڑا اور بدبودار ہوتا ہے اس طرح سے ملک میں لوٹ مار مچی ہوئی ہے کسطرح سے ہم اپنے دامن کو بچا پائینگے.

اسطرح کے گھوٹالوں کا اثر ہماری زندگی یعنی عام انسانوں پر کسطرح ہوتا ہے! آپ اپنی روزمرہ کے خرچوں کو دیکھیں کہ سابقہ سالوں کے مقابل اس سال کتنی مہنگائی ہے کیونکہ جو پیسہ ملک کی ترقی اور عوام کی فلاح وبہبود کے لیے خرچ ہونا چاہیئے وہ 85فیصد چرا لیا جاتا ہے یہ میں نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ ہندوستان کے سابق وزیر اعظم نے کہا تھا میرے حساب سے اگر 1985 ایک روپئے میں پندرہ پیسے عوام تک پہونچتے تھے تو آج پانچ روپئے میں پندرہ پیسے ہی عام انسان تک یا صحیح جگہ تک پہونچینگے اسطرح ہو رہی ہے ہماری ترقی آپ سرکاری ہسپتالوں کو لے لیجیے جو دراصل انہیں لوگوں کے لیے بنائے جاتے ہیں جو ہر اعتبار کمزور ہوتے ہیں انکے پاس اتنی وسعت نہیں ہوتی کہ وہ پرائیویٹ ہسپتالوں میں بیماری کا علاج کرا سکیں تو حکومت کم خرچ میں تمام سہولیات عوام کیلیے سرکاری ہسپتالوں میں مہیا کرتی ہے مگر آج  اکثر سرکاری ہسپتالوں کی حالت ایسی ہے جیسے بنا پانی کے نل صرف نام کیلیے ہسپتال ہیں نہ تو اس میں اچھی دوائیں ہیں اور نہ ہی مریضوں کے سہولیات کے سامان سب کچھ لوٹ کر ہضم کر لیا گیا ہے اور جو ڈاکٹر وہاں متعین کیے جاتے ہیں وہ پیسہ تو حکومت سے لیتے ہیں مگر نوکری خود کی کرتے ہیں بس حاضری دے دی اور اپنے کام پر چلے گئے اور جو سرکاری ہسپتال  درست ہیں وہ برائے نام سرکاری ہیں وہاں بھی لوٹ مار مچی ہوئی ہے ایک حاملہ عورت کے پیٹ میں درد شروع ہوتا ہے اسکاشوہر اپنی عورت کو لیکر سرکاری ہسپتال پہونچتا ہے ڈاکٹر اسکا علاج شروع کرنے سے پہلے بولتا ہے اتنا خرچہ آئیگا پیسہ پہلے جمع کردو,آدمی جواب دیتا ہے صاحب میرے پاس تو ابھی اتنا نہیں ہے جو ہے وہ جمع کر لیں باقی میں انتظام کرتا ہوں مگر ڈاکٹر اسے دھتکار کر باہر بھیج دیتے ہیں کہ پہلے پیسہ جمع کرو پھر علاج کیا جائیگا شوہر بھاگتا ہوا جاتا ہے تاکہ پیسوں کا انتظام کر سکے مگر ابھی وہ لوٹا ہی نہیں کہ اس کی  حاملہ بیوی کو یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ ہسپتال سے نکل جاو جب پیسے کا انتظام ہو جائے تب آو ,وہ حمل کے آخری ایام کی حالت میں ہے اور درد میں مبتلا ہے پھر بھی اسے نکال دیا جاتا ہے اسی حالت میں وہ کسی طرح بس اسٹاپ تک پہونچتی ہی ہےکہ بچہ پیدا ہو جاتا ہے.

یہ کس طرح کا معاشرہ ہم نے تشکیل دیا ہے کیسی فضا ہم نے بنائی ہے جہاں اس طرح کے انسان بستے ہیں ہم لالچ کے ساتھ ساتھ انسانیت بھی کھوتے چلے جا رہے ہیں ,اور یہ ہماری حکومت کا رویہ ہے اپنی رعایا کے تئیں جب ایک سرکاری ہسپتال اپنے مریضوں کو پیسے کی کمی کیوجہ سے باہر نکال پھینکتا ہے تو اس ہسپتال کا کیا حال ہوگا جسے غیر سرکاری کہا جاتا ہے یہ صرف ہسپتال کی بات نہیں بلکہ ہر سرکاری محکمہ جو عوام اور رعایا کی فلاح و بہبود کے لیے بنایا جاتا ہے ہر جگہ کی روداد اس سے ملتی جلتی ہے اور ہر جگہ لوٹ مار مچی ہوئی ہے اور اس دور میں صرف وہی سرکاری ملازم بدعنوانی سے انکار کر سکتا ہے یا اپنا دامن بچا سکتا ہے جسے اب تک کوئی موقعہ ہاتھ نہ لگا ہو ورنہ ہر شخص اس چیز میں ملوث اور برابر کا شریک ہے

کانگریس کی زیر قیادت حکومت میں جتنے گھپلے اور گھوٹا لے منظر عام پر آئے ہیں ماضی میں اسکی نظیر تو نہی ملتی،مگر موجودہ حالات دیکھ کر لگتا ہے یہ وقت ملک کی عوام کے لیےاس سے کہیں زیادہ خطرناک ثابت ہوگا  کیونکہ لوٹ گھسوٹ کاپیمانہ چھلک رہا ہے جسکی وجہ سے ملک میں مہنگائی کا زور ہے اور اس پر حکومت کا کنٹرول ہی نہیں ،اس وقت تو جمہوری ملک کے وزیر اعظم من موہن سنگھ جی کا یہ بیان آیا تھا کہ ’’ہماری حکومت افرات زر کو قابو میں کرنے میں ناکام رہی ہے جس کا مجھے شدید افسوس ہے‘‘ کیامنموہن سنگھ کا یہ بیان کافی نہیں تھا کانگریس کی ناکامی کیلئے، یہی وجوہات تھی جن کے سبب کانگریس عوام میں اپنا اعتماد کھو چکی، ان ہی وجوہات کے سبب ملک میں چھوٹی چھوٹی ریاستی پارٹیوں کا وجود عمل میں آیا اور ان جماعتوں کو پھلنے اور پھولنے کا موقع ملا دوسری جانب جب بی جے پی کا دور آیا تو انہوں نے ملک کی کمر توڑنے اور عوام کو لوٹنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ابھی کچھ دن پہلے بھارتی نیوز ویب سائٹ’دی وائر’ کی رپورٹ میں دعوی کیا گیا ہے کہ بی جے پی کے سینیئر رہنما اور وزیر اعظم نریندر مودی کے قریبی دوست امِت شاہ کے بیٹے جے امِت شاہ کی کمپنی جسکا کاروبار 2014 اور 2015 میں پچاس ہزار روپے تک محدود تھا اسکے ہاتھ ایسا کیا لگا کہ اگلے ہی سال اسکی آمدنی 50ہزا سے سیدھا80 کروڑ روپے تک پہنچ گئی_ اور اسی سال نریندر مودی انڈیا کے وزیر اعظم بنے تھے۔

اس دعوے کے مطابق اگر ایک سینئیر رہنما اور پارٹی کے صدر کے بیٹے کے کاروبار میں ایک سال میں اتنا اضافہ ہو جائے تو خبر تو بنتی ہے۔ اگر باقی میڈیا اس خبر کے بارے میں بات نہیں کر رہا تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔

پچھلے تین چار سالوں میں ہم نے دیکھا ہے کہ ایک طرح کا اتحاد بن چکا ہے جس میں کارپوریٹ مفادات کے ذریعے حکومت میڈیا کی آزادی کو کنٹرول کر رہی ہے اور یہ محض افواہ نہیں ہے کئی بڑے میڈیا ہاؤسز کو دباؤ میں کام کرنا پڑ رہا ہے۔

وہیں دوسری جانب چھوٹے چھوٹے صحافتی ادارے اور صحافی اپنے محدود وسائل کے ساتھ حکومت اور کارپوریٹ کے خلاف رپورٹنگ کرنے کی ہمت کر رہے ہیں اور ان کے خلاف کروڑوں روپے کے ہتک عزت کے دعوے کیے جا رہے ہیں ۔ جسکا اصلی مقصد یہی ہے کہ صحافیوں اور میڈیا ہاؤسز کو ڈرا دھمکا کر چپ رکھا جائے۔

جے امِت شاہ کے دفاع میں مرکزی حکومت کے وزرا پریس کانفرنس کر رہے ہیں ۔ یہ سب کانگریس کے زمانے میں بھی ہوا تھا جب کانگریس کے وزراء سونیا گاندھی کے داماد رابرٹ واڈرا کی حمایت میں بات کرتے تھے۔ اس وقت کانگریس نے جو کیا تھا وہ بھی بے شرمی تھی۔ کانگریس کے دور میں جو ہوا تھا اب بات اس سے آگے بڑھ چکی ہے اب بے شرمی کی حد پار کر لی گئی ہے۔

حالانکہ امِت شاہ کے بیٹے کے معاملے کا موازنہ رابرٹ وادرا کے معاملے سے کیا جا رہا ہے۔ غور کرنے والی بات یہ ہے کہ اس وقت رابرٹ وادرا کے معاملے کو میڈیا نے پوری طرح دکھایا تھا لیکن اب وہی میڈیا دہرا معیار اختیار کیے ہوئے ہے۔

قارئین کرام!

میرا یہ دعوی ہیکہ کہ جب کوئی حساس قلمکار,صحافت کو عبادت سمجھ کر پورا کرنے والا اس دور کی تاریخ لکھے گا تو یہ بات ضرور لکھے گا کہ جس وقت ہندوستان میں لوگ مہنگائی سے بری طرح ٹوٹ چکے تھے, اور اکثر کمپینیاں خسارے کا شکار ہوکر اپنا بوریا بستر سمیٹ رہی تھیں , اور نوجوان ہاتھوں میں بڑی بڑی اور ممتاز ڈگریاں لیکر سڑکوں اور چوراہوں اور دفتروں کی خاک چھان رہے تھے, کسان تنگ آکر جودکشی کر رہے تھے ,غریب بچے اور بوڑھے ایک وقت کی روٹی کھا کر دوسرے وقت کی روٹی کے لیے فکر مند تھے, ہندوستان کا ہر عام انسان بے بسی کا شکار تھا, ایسے وقت میں بی جے پی حکومت اور اسکے رہنما اور انکے قرابت دار مال ودولت میں کھیل رہے تھے اور ایسا محسوس ہو رہا تھا گویا انہیں قارون کا خزانہ ہاتھ لگ گیا ہو جسکی بدولت وہ دن بدن آسمان جھونے لگے_

لیکن یہ ہندوستان ہے یہاں کچھ بھی ممکن ہو سکتا ہے تقریبا تین سال قبل ممبئی پولیس نے 34 کلو گرام ڈرگس پکڑا تھا اور اب تین سال بعد انکا بیان آ رہا ہے کہ وہ ڈرگس چوہے کھا گئے ایسا پہلی بار نہیں ہے کہ ہندوستان کے چوہے سرخیوں میں آ رہے ہیں بلکہ اس پہلے بہار پولیس نے ہمیں بتایا تھا کہ 9 لاکھ لیٹر شراب جو پولیس نے پکڑی تھی وہ بھی چوہے پی گئے تھے یہ حیران ہونے کی بات نہیں بلکہ غور کرنے کی بات ہے جب ہم لوگ بچپن میں اسکول جاتے تھے تو ہمارے کچھ ساتھی نقل نہیں لکھتےتھے اور اساتذہ سے کہتے تھے کہ ہمارا نقل چوہے کھا گئے مگر اس وقت کوئی یقین نہیں کرتا تھا لیکن آج سب یقین کر رہے ہیں ,یہ ہندوستان ہے یہاں کچھ بھی نا ممکن نہیں

کسی جنگل میں ایک ہاتھی بھاگ رہا تھا راستے میں ایک چوہا ملا بولا : بھائی کیوں بھاگ رہے ہو, ہاتھی: نے کہا جنگل میں شکاری آئے ہوئے ہیں اور سارے ہاتھیوں کو پکڑ رہے ہیں اس لیے میں بھاگ رہا ہوں یہ سن کر چوہا بھی ہاتھی کے ساتھ بھاگنے لگا یہ دیکھ کر ہاتھی بولا: کہ جنگل میں صرف ہاتھیوں کے پکڑنے کا اعلان ہوا ہے پھر تم کیوں بھاگ رہے ہو چوہے نے کہا: بھائی یہ ہندوستان ہے میری ساری عمر یہ ثابت کرنے میں گزر جائیگی کہ میں ہاتھی نہیں چوہا ہوں .

یہ ہنسنے کی بات نہیں بلکہ حقیقت ہے_

ہندوستان اور اسکی عوام مسلسل بے روزگاری اور تنگ دستی کا شکار ہو رہے ہیں وہیں ہندوستان کے جو سو امیر لوگوں کی لسٹ ہے انکی کمائی دوسری حکومت کے بہ نسبت اس حکومت میں 26 گنا زیادہ ہوئی ہے جس میں مکیش انبانی قابل ذکر ہیں انکے یہاں پچھلے سال کے مقابل اس سال پندرہ بلین ڈولر کی کمائی ہوئی ہے اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہندوستان کا غریب اور غریب کیوں ہو رہا ہے اور امیر روز بلندی چھو رہا ہے کیسے چھو رہا ہے_

یہ ہندوستانی سیاست کا المیہ ہے کہ جمہوریت کے باوجود جمہور کی صور تحال بہتر نہیں ہوسکی ہے۔ روز افزوں مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے کہ صورتحال کی تبدیلی کے لئے کھڑے ہونا ان کے بس کی بات نہیں ، اس لئے کہ جسم وجان کارشتہ جوڑے رکھنا ان کی ترجیح اول ہوتی ہے۔ذات پات کی تقسیم نے بھی سبکو بیمار ذہنیت کی آ ماج گاہ بنا دیا ہے۔ ہندو مسلم فرقہ واریت کے مستقل اور متنوع وار سے مسلمان منفی ذہنیت، احتیاج کی گداگری اور احتجاج کی سیاست سے ابھی اوپر اٹھ نہیں پائے۔ آج عام انسانوں کا ملی وجود ’’ أین المفر‘‘کی تلاش میں سر گرداں نظر آرہا ہے مگر کچھ خیرخواہ ہر طرف سے پکارتے نظر آرہے ہیں کہ اب بھی تفرقہ چھوڑ کر ملک کی ترقی اور اسکی بحالی کی فکر کرو ورنہ سیاست تمہیں آپس میں لڑا کر اپنا مقصد حاصل کر لیگی اور تمہارا حال اس شخص سا کردیگی جسے شیطانوں نے صحرا میں بھٹکا دیا ہو، اور وہ حیران وسرگرداں پھر رہا ہو،

سیاسی پارٹیوں نے جمہوریت کے سہارے بادشاہت کا جال بچھا رکھا ہے۔ بادشاہ کے بعد شہزادہ، ملکہ کے بعد طفل مکتب کی تاج پوشی کی رسمیں جاری ہیں ۔ سیاست گھریلو معاملہ یا تجارت بن گئی ہے۔ جبکہ سیاست کا منشا عوام کی رہنمائی، اجتماعی معاملات کی نگہبانی، امن و امان کے فضا کی بحالی اور رعا یا کی خوشحالی کے لئے منصوبہ سازی اور جد و جہد ہونا چاہئے تھا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔