مودی کی 72 گھنٹے کی جی توڑ محنت کے بعد بھی پولنگ 61 فیصدی

حفیظ نعمانی

اتر پردیش کے الیکشن کے 7 ویں رائونڈ میں صرف 40 سیٹیں بچی تھیں جن میں بنار س کی وہ ۵ سیٹیں بھی تھیں جو 2014 کے لوک سبھاالیکشن میں نریندر مودی کو ملی تھیں اور وہ 5 لاکھ ووٹوں سے جیتے تھے۔لوک سبھا الیکشن میں رائے بریلی اور امیٹھی سے سونیا گاندھی اورراہل گاندھی برسوںسے کامیاب ہوتے آئے ہیں اور اسمبلی سیٹوں میںکبھی ملائم سنگھ اور کبھی مایاوتی کے امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔ لیکن دونوںماں بیٹوںکو اسمبلی الیکشن سے کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ لیکن وزیر اعظم نریندر مودی یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ وہ 2014 میں جتنے مقبول تھے اتنے ہی آج بھی مقبول ہیں اور اسی کے لئے انہوں نے بغیر اعلان کے تین دن اور تین راتوں کے لئے بنارس میںپڑائو ڈال دیا۔ اور تینوں دن الگ الگ راستوں پر روڈ شو کیا جن میںایک کی اجازت اور دو وزیر اعظم کی حیثیت سے کر لئے۔

اسمبلی الیکشن کے چھٹے رائونڈ میں 57 فیصدی ووٹ پڑے تھے جو دوسرے تیسرے اورچوتھے سے کم تھے۔ وزیر اعظم چاہتے تھے کہ ۷ویں رائونڈ میں سب ریکارڈٹوٹ جائیں۔ اسی لئے انہوں نے ہر وہ اچھا اور براکام کر ڈالا جو آج تک کسی وزیر اعظم نے نہیں کیا تھا۔ انہوںنے شہرت کی حد تک 17 وزیر بنارس میں بلالئے تھے جو دو ہفتہ سے ڈیرہ ڈالے پڑے تھے۔ اور بتایا گیا ہے کہ ہر وزیر کو ایک علاقہ دیا گیا تھا کہ وہاں کے سر پنچ، ضلع پریشد کے عہدے دار اس کے ممبر اور خوش حال یا کسی بھی حیثیت سے بااثر لوگوں کو منہ مانگی قیمت میں خریدیں اور بی جے پی کے امید وارکو ووٹ دلائیں۔

وزیر اعظم نے بنارس کی ان سیٹوں پر جن پر بی جے پی کے ہی ایم ایل تھے ان کا ٹکٹ کاٹ کر ایسے آدمیوں کو دیا جنکے متعلق مودی جی کو یقین تھا کہ وہ کسی بھی قیمت پر پارٹی نہیں بدل سکتے۔کسی جیتے ہوئے امیدوار کا ٹکٹ کاٹنا اسے بے عزت اور ذلیل کرنا ہے۔ اور کوئی بے عزتی برداشت نہیںکرسکتا۔ مودی نے جب ٹکٹ کاٹ کر دوسرے کو دیا تو سوچا بھی نہیں تھا کہ کہ اس کا اتنا سخت رد عمل ہوگا۔ اور جب نئے امیدواروں نے نامزدگی کرادی تو بنارس میںبی جے پی کے اندر بھونچال آگیا اوروہ لوگ جو ایم ایل اے کے ساتھ تھے انہوں نے طوفان کھڑا کردیا اور یہ تھا وہ طوفان جسے دبانے کے لئے مودی جی آئے اور انہوں نے امت شاہ اور تمام وزیروں کی مدد سے ناراض لوگوں کو منانے میں اتنا وقت لگایا۔ اور شہرت یہ ہے کہ جتنا دیا اور جو جو دینے کا وعدہ کیا اس کاحساب لگایا جائے تو وہ مودی جی کے الیکشن سے زیادہ نہیں بہت زیادہ نکلے گا۔ اس درمیان کچھ لوگوں نے ٹی وی کے مشہور رپورٹر کلام خاں سے کہا کہ بنارس کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اگر خوش ہیں تو جان نچھاور کردیں گے اور اگرناراض ہیں تو کسی بھی قیمت پر معاف نہیں کریں گے۔

اور پولنگ کے اوسط سے معلوم ہوگیا کہ وزیر اعظم کے تین روڈ شو تین دن رات کا بنارس میں پڑائو، ناراض ایم ایل اے کا ہاتھ پکڑ کر انہیں اپنے ساتھ بابا وشوناتھ کے مندر میں لے جانا۔ اور تین برس میں بار بار آنے کے بعد پہلی دفعہ سابق وزیر اعظم لال بہادر شاستری کے گھرجانا۔ وہاں لگی انکی تصویروں کو بچوںکی طرح دیکھنا اوربیٹھ کر بھجن سننا۔ یا دو خوبصورت کالی اور سفید رنگ کی گایوں کو کھڑے ہوکر ہرا چارہ اپنے ہاتھ سے کھلانا صرف اس لئے تھا کہ شاشتری جی اور گئو ماتا کے پاس بھی کم یازیادہ کچھ تو ووٹ ہوں گے وہی مل جائیں۔ اپنی تقریروں میں باربارکہنا کہ سب سے پہلے مت دان بعد میں جل پان اور اسکے بعدوضاحت کرنا کہ صبح ہر کام سے پہلے جاکر اپنا ووٹ دے دینا اور پھر جو چاہو کرنا۔ ان تمام پیش بندیوں کے بعد جو نتیجہ آیا ہے اس میں بنارس میں صرف 61 فیصدی ووٹ پڑے ہیں جب کہ چندولی میں 65 فیصدی۔

بنارس سے تو زیادہ مرزا پور اور جونپور میں 62 فیصد پڑے جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ ہزاروں کروڑ روپے اور وعدے سب کے سب بے اثر رہ گئے۔ جسے حمایت میں ووٹ دینا تھا اس نے حمایت میں دیا ہوگا لیکن جو ناراض ہوئے تھے ان کی ناراضی دور نہیںہوئی۔ ہوسکتا ہے کہ مودی جی الیکشن کے ماہر ہوں لیکن ہم بھی بہت منجھے ہوئے الیکشن باز ہیں۔ اورہم نے دیکھا ہے کہ جب الیکشن کو بہت اہمیت دے دی جاتی ہے تو حمایت کرنے والے تو اس کے پھل توڑنے لگتے ہیں اور جو مخالف ہوتے ہیں ان کے لئے کسی بڑے آدمی کوہرانا یا بڑی پارٹی کے آدمی کو ہرانا شیر کا شکار ہو جاتا ہے۔ 1963ء میں امروہہ سیٹ سے آزاد امیدوار کی حیثیت سے آچاریہ کرپلانی کھڑے ہوگئے۔ اتر پردیش کے سی پی گپتا چاہتے تھے کہ پروفیسر رام سرن کو ٹکٹ دے دیا جائے۔ اگرایسا ہوتا تو الیکشن اہمیت اختیار نہ کرتا اور آچاریہ جی شاید ہار جاتے۔ پروفیسر رام سرن مراد آباد کے بہت محترم استاذ تھے۔

پنڈت نہرو نے اپنے وزیر حافظ ابراہیم کو کھڑا کردیا اس کا انجام یہ ہوا کہ پورے ملک سے وزیر آنے لگے۔ اور آچاریہ جی کے جو ساتھ تھے انہوں نے ان کو جتانے سے زیادہ حافظ جی کو ہرانا مقصد بنالیا۔ نتیجہ یہ ہو اکہ جتنے وزیر حافظ جی کی حمایت میں آئے اس کے مقابلہ پر حزب مخالف کے لیڈر پورے ملک سے آنے لگے۔ پنڈت نہرو نے اندرا گاندھی کو بھیجا تو مخالفوں نے جے پور کی رانی گائتری دیوی کو بلا لیاجو دنیا کی 10حسین خواتین میں سے اس وقت ایک تھیں اور نتیجہ یہ ہوا کہ حافظ ابراہیم ہار گئے۔

کون جانے نتیجہ کیا ہوگا؟ لیکن وزیر اعظم کا تین دن اور 17 وزیروں کا 15 دن قیام اور دو دو ہزار کے نوٹوں کی برسات اور وعدوں کی جھڑی نے ان کے لئے الیکشن کوجنگ بنا دیا جو مودی کو 15۔15 لاکھ روپے کے مذاق کا جواب دینا چاہتے تھے اور 61 فیصدی میں وہ نہیں تھے جن سے کہا تھا کہ پہلے مت دان بعد میں جل پان۔ اگر بنارس کی پولنگ 70 فیصدی ہوتی تو یقین تھا کہ مودی کا ہر آدمی جیت جاتا۔ یہ صرف اندازہ ہے اور اندازہ کا نام حقیقت نہیں ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔