ہندوستان میں مدارس اسلامیہ اسلام پر خطرات کا دفاعی مورچہ ہیں!

مولانا سید عبد اللہ بخاری

 ہندوستان جسے ہم اپنا ملک مانتے ہیں برصغیر کے تمام ملکوں سے بہتر یہاں کے مسلمان ہیں ، اس ملک میں اسلام کو کوئی خطرہ نہیں ہے، کیوں کہ یہ ملک امن و آشتی کا ملک ہے یہاں لوگ آپسی محبت و اخوت میں اپنی مثال آپ ہیں ، اور اس ملک کے تقسیم کے وقت جن لگوں نے اس سرزمین سے محبت اور وطن مان کر یہیں بسنے رہنے کا فیصلہ کیا۔انہیں اُس وقت طعن و تشنیع اور مرتد ہو جانے کی بات کہی گئی۔ لیکن آج الحمد اللہ اس ملک کے مسلمان پڑوسی ملک سے زیادہ عافیت اور سکون سے رہ رہے ہیں کیوں کہ یہاں کے مدارس اسلامیہ نے قوم کو متحرک رکھا، اگر مدارس نہ ہوتے تو یہ خطرہ تھا کہ خدا نا خواستہ ان کی بات صحیح ہو سکتی تھی۔ اس لئے میں بہت تاکید سے یہ بات کہتا ہوں کہ ہندوستان میں اسلام کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ ہاں مسلمانوں کو خطرہ ہو سکتا ہے اور وہ فرقہ پرستی کی بنیاد پر خطرات میں گھر سکتے ہیں البتہ اسلام خطرہ میں نہیں ہے، ان خیالات کا اظہار مونگیر کی معروف دینی دانش گاہ مدرسہ تجویدالقرآن جامع مسجد مونگیر کے سالانا تینتسویں جلسۂ دستار بندی میں مجمع عام سے خطاب کرتے ہوئے جمیعۃ علماء ہند کے جنرل سیکریٹری مولانا سید محمود اسعد مدنی نے کیا۔

جلسہ میں دار العلوم دیوبند سے تشریف لائے ہوئے مولانا مفتی کوکب قاسمی نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ علم کی دولت انسان کی سب سے بڑی دولت ہے علم سے آراستہ انسان مالدار انسانوں سے غنی ہے اور علم سے انسانی قدروں میں اضافہ ہی اصل انسانی معراج ہے، اور مدارس علم کی آبیاری کا کام جس بڑے پیمانہ پر بغیر کسی عوض کے رضا کارانہ طور پر انجام دے رہے ہیں پوری دنیا اس کی مثال پیش نہیں کر سکتی۔

دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ سے تشریف لائے مولانا جاوید احمد ندوی نے فرمایا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو طے کرنا ہوگا کہ وہ کس طرح جینا چاہتے ہیں ، ایمان کی دولت کے ساتھ عزت و شرافت اور محبوبیت کے ساتھ، یا محض دنیا داری کے ساتھ مال کی جمع خوری کے ساتھ ، ایک مومن کی خوش نصیبی یہ ہے کہ وہ ایمان کے ساتھ جیئے او رمرے، حضرت علی میاں ندویؒ کے خانوادے کے ایک نوجوان کی داستان سناتے ہوئے فرمایا کہ علم اللہ شاہ کے بیٹے کی موت کے وقت اس کے زبان پر کلمہ جاری ہوا تو بوڑھا باپ نے پورے محلہ کو مٹھائی کھلائی۔ عام لوگوں کے اعتراض پر جواب دیا کہ یہ میری سعادت ہے کہ جنتی بیٹے کا باپ ہوں اور اسی خوشی میں یہ شیرینی تقسیم کر رہاہوں ۔ اس طرح جلسے کو خطاب کرنے والوں میں اما م وخطیب شاہی مسجد آرہ مولانا بہاء الدین بخاری ، امام و خطیب جامع مسجد فقیر باڑہ پٹنہ مولانا عتیق اللہ قاسمی، مولانا سفیان مظاہری امام و خطیب جلکوڑہ ، مولانا مظہرالحق قاسمی بیگو سرائے، مولانا جمال اکبر صاحب باندوی استاذ حدیث و تفسیر جامعہ رحمانی مونگیر کے نام قابل ذکر ہیں ۔

جلسہ میں 35 حفاظ کی دستار بندی عمل میں آئی اور مونگیر کمشنری کے تمام اضلاع سے ہزاروں کی تعدادمیں لوگوں شرکت کی اس تاریخی اور کامیاب اجلاس کی صدارت حضرت مولانا عبداللہ بخاری ناظم مدرسہ تجویدالقرآن نے کی ۔ مدرسہ اپنے قیام سے لے کر آج تک جمعیۃ کے اکابرین کی آمد کا گواہ رہا ہے اور اس جلسہ میں قائد ملت حضرت مولانا سید محمود مدنی کی آمد بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ جلسے کی نظامت مفتی عطاء اللہ شاہ بخاری نے کی۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔