مودی کے راج میں فاقہ کشی اور بھکمری میں اضافہ

عبدالعزیز

 اس سے بھیانک اور افسوس ناک بات کیا ہوسکتی ہے کہ بھوک کی شدت سے کوئی بچہ یا بچی موت کی گود میں ہمیشہ کیلئے سوجائے اور حکومت اور اس کے ماتحتین اپنے گناہ اور جرم کو چھپانے کیلئے جھوٹ کا سہارا لیں اور نہ ہی اپنی غلطی اور گناہ کا اعتراف کریں اور نہ آئندہ کیلئے ایسا منصوبہ بنائیں کہ کوئی بچہ بھوک کی وجہ سے دم نہ توڑ سکے۔ یہ پورے ہندستان میں عام بات ہے، جو لوگ خط افلاس کے نیچے (Below Poorerty line) زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ، ان کے بچے محض ایک وقت کے کھانے پر زندگی بسر کر تے ہیں اور جس دن اسکول بند ہوتا ہے اس دن وہ بھی میسر نہیں ہوتا۔ بہت سے بچے جو سات آٹھ دنوں تک غذا سے محروم ہوتے ہیں ان کے ماں باپ اپنی آنکھوں کے سامنے بچے کو دم توڑتے ہوئے دیکھتے ہیں ۔ عوام اور حکومت دونوں کی آنکھیں بند ہوتی ہیں ۔ یہ اکثر سنائی دیتا ہے اور اخبار میں خبریں چھپتی ہیں ۔ نیوزچینل بھی اسے Flash کرتے ہیں مگر نہ حکومت کی آنکھیں کھلتی ہیں نہ عوامی بیداری ہوتی ہے۔ یہ قحط سالی نہیں بلکہ اخلاقی قحط اور بحران ہے، جس سے پتہ چلا ہے کہ انسان زندہ ہے مگر انسانیت دم توڑ رہی ہے۔

 جھار کھنڈ کے ایک گاؤں میں 11سالہ بچی سنتوش کماری 28ستمبر 2017ء کو ایک ہفتہ بھوکی رہنے کی وجہ سے موت کے منہ میں چلی گئی۔ اس کی ماں نے بتایا کہ چھ دنوں تک اسے ایک دانہ بھی نصیب نہیں ہوا جس کی وجہ سے وہ اپنی بچی کی زندگی نہیں بچا سکی۔ ماں نے یہ بھی بتایا کہ مقامی راشن کی دکان اسے کم دام پر راشن دینے سے انکار کردیا کیونکہ اس کے پاس آدھار کارڈ نہیں تھا۔ جب یہ خبر عام ہوگئی تو آفیشیل اس حقیقت سے انکار کرتے ہیں کہ بچی کی موت بھوک کی وجہ سے ہوئی ہے وہ جھوٹ بات کہتے ہیں کہ اس کی موت ملیریا کہ وجہ سے ہوئی مگر وہ بھول جاتے ہیں کہ اگر بچی کو ٹھیک سے غذا اور دوا دستیاب ہو تو اس کا علاج ہوسکتا ہے اور اس کی صحت واپس آسکتی ہے۔ اگر ملیریا سے اس کی جان گئی تو اس کیلئے بھی عوام اور حکومت ذمہ دار ہیں ۔ خاص طور پر حکومت کی یہ پہلی ڈیوٹی ہے کہ بھوک سے کسی شہری یا بچہ کی جان نہ جائے۔ آفیشیل ہمیشہ جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں کیونکہ ایسے ملک میں جہاں غلہ کی اچھی خاصی پیداوار ہے جہاں چوہے بھی اپنا پیٹ آسانی سے بھر لیتے ہیں ۔ اگر ایسے ملک میں کوئی بچہ دانہ دانہ کا محتاج ہو اور بغیر دانہ پانی کے مرجائے تو حکومت کیلئے انتہائی شرم کی بات ہے۔ اس لئے حکومتیں خواہ ریاستی ہوں یا مرکزی ان کو جھوٹ ہی ایک واحد سہارا ملتا ہے جس سے اپنی بے حیائی کو چھپاتی ہیں ، مگر یہ ایسی چیز ہوتی ہے کہ لاکھ چھپائیں چھپ نہیں سکتی۔ اب سنتوش کماری کی ماں کا منہ بند کرنے کیلئے جھار کھنڈ کی بی جے پی کی حکومت کے لوگ دھمکی دے رہے ہیں کہ اگر وہ منہ کھولتی ہے تو اسے بھی موت کی نیند سلا دیں گے۔ رانچی کے تحفظ فاقہ کشی کی انجمن کے لوگ اب اس ماں کے تحفظ کیلئے حکومت سے کوشاں ہیں ۔ یہ ہے ہمارا ہندستان ۔

 یہ کم افسوسناک بات نہیں ہے کہ عالمی فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ (IFPRI) نے جو عالمی سروے رپورٹ شائع کی ہے اس میں دکھایا ہے کہ نریندر مودی کے راج میں یعنی 2104ء سے بھکمری میں اضافہ ہوا ہے۔ 2014ء میں انڈیا کا رینک (Rank) میں 99، 2015ء میں 93 اور 2016ء میں 97 اور 2017ء میں بڑھ کر 100ہوگیا یعنی 119 ملکوں میں بھکمری میں انڈیا 100 نمبر پر آگیاجو شمالی کوریا، بنگلہ دیش اور عراق سے بھی بدتر ہے۔ ایشیائی ممالک میں پاکستان اور افغانستان بھکمری میں ہندستان کے آگے ہیں ۔ یونیسیف (UNIC) کی رپورٹ کے مطابق 190ملین لوگ ہندستان میں غذا کی کمی کے شکار ہیں ۔ اس وقت جو یونیسیف ہمیں آئینہ دکھا رہا ہے اس سے ہم منہ نہیں موڑ سکتے۔ بھکمری ہندستان پر ایک بدنما داغ ہے۔ مودی حکومت بولٹ ٹرین (Bullet Train) اور لمبے لمبے دیوقامت مجسّمے بنانے پر پیسے خرچ کرنا چاہتی ہے تاکہ 2019ء میں اسے دوبارہ کم عقل ہندستانی اقتدار کی کرسی پر بیٹھا سکیں ۔ حکومت وعدوں کی برسات اور جملہ بازی کی بارش سے کب تک منہ چھپانے اور منہ بنانے کی کوشش کرے گی۔

  بھاجپا اور مودی ہر محاذ پر ناکام ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی رام مندر، کبھی لو جہاد، کبھی تاج محل جیسی چیزوں کو ایشو (Issue) بنا کر پیش کرتے ہیں تاکہ عوام و خواص ایسی Issue Less مباحث میں پڑے رہیں اور بنیادی چیزوں پر توجہ دینے سے قاصر رہیں ۔ بھوک سے بچے مر رہے ہیں اور یوگی کے راج میں معقول علاج نہ ہونے کی وجہ سے اسپتالوں میں موت کی نیند سونے پر مجبور ہورہے ہیں ۔ مودی اور یوگی دونوں کے گھر میں بچے نہیں اور نہ دونوں کو ماں باپ کی ممتا کا حال معلوم ہے۔دونوں ملک کے عوام و خواص کو رام راج کا خواب دکھا رہے ہیں ۔ وہ رام (کہانی کے مطابق) جو اپنے بھائی کیلئے 14سال کا بن باس اختیار کرتا ہے اقتدار اور گدی کو تج دیتا ہے۔ یہ دونوں اور ان کے ماننے والے جو راون کا رول ادا کر رہے ہیں رام کا نام لے کر ہندستانیوں کو بیوقوف بنا رہے ہیں ۔ آہستہ آہستہ دونوں کے چہرے سے پردہ ہٹ رہا ہے۔

گجرات میں مودی اور امیت کی جوڑی الیکشن کرانے سے پیچھے ہٹ رہی ہے اور الیکشن کمشنر کے سہارے وقت بڑھانے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ گجرات کے عوام کا غصہ کم ہوجائے اور مودی- امیت ووٹروں کو پھر ایک بار بہکانے میں کامیاب ہوجائیں ۔ اس وقت جو صورت حال گجرات میں ہے اگر یہی صورت باقی رہتی ہے تو مودی – امیت چاروں شانے چت ہوسکتے ہیں ۔ اگر ایسا ہوا تو ہندستان کیلئے اچھے دنوں کی تمہید ثابت ہوگی۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔