جہاد اور روح جہاد

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

  اسلام کے جن احکام و تعلیمات پر موجودہ دور میں سب سے زیادہ اعتراضات کیے گئے ہیںان میں سے ایک ’جہاد‘ ہے۔ اسے ناحق قتل و خوں ریزی، ظلم و تشدد اور بربریت کے ہم معنیٰ قرار دے دیا گیا ہے، یہاں تک کہ یہ لفظ سنتے ہی لوگوں کی نگاہوں کے سامنے خوف و دہشت کے سایے منڈلانے لگتے ہیں۔ گزشتہ صدی کے ربع اول میں ایک مخصوص واقعہ کے پس منظر میں جب ’جہاد‘ کو نشانہ بنایا گیا تو مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کی حمیت جاگ اٹھی۔ چنانچہ انھوں نے اسلام کے تصور جہاد پر مقالات کا ایک سلسلہ شروع کیا، جو بعد میں ان کی معرکہ آرا کتاب ’الجہاد فی الاسلام‘ کی صورت میں شائع ہوا۔ پوری صدی میں یہی کتاب اس موضوع پر ’قول محکم‘ کی حیثیت میں علمی حلقوں میں چھائی رہی۔ اب رواں صدی میں علماء کی توجہ پھر اس موضوع کی طرف ہوئی ہے اور متعدد کتابیں منظر عام پر آئی ہیں۔ ان میں علامہ یوسف القرضاوی کی فقہ الجہات بہت نمایاں ہے۔ اردو میں، جہاد کیا ہے؟ (مولانا یحییٰ نعمانی)، جہاد : ایک مطالعہ (مولانا عمار خان ناصر)، جہاد۔ مزاحمت اور بغاوت (ڈاکٹر محمد مشتاق) خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔ مولانا سید جلال الدین عمری نے بھی اس موضوع پر تحقیقات اسلامی میں سات (7) قسطوں میں لکھا ہے، لیکن ابھی اس کی اشاعت کتابی صورت میں نہیں ہو سکی ہے۔ اب مولانا محمد عنایت اللہ اسد سبحانی کی زیر نظر کتاب ’جہاد اور روح جہاد‘ شائع ہوئی ہے۔

اس کتاب میں تیرہ (13) ابواب کے تحت جہاد کے تمام پہلوؤں پر بہت تفصیل سے بحث کی گئی ہے۔ فاضل مصنف کے پیش نظر اس موضوع پر قدماء کی تحریریں بھی ہیں اور موجودہ دور کے اصحاب علم کی کتابیں بھی۔ انھوں نے کہیں کہیں ان کے حوالے دیے ہیں، لیکن زیادہ تر مقامات پر اور خاص طور سے جہاں دوسروں کی آراء پر تنقید کی ہے، ان کا نام اور ان کی کتابوں کے حوالے دینے سے گریز کیا ہے اور ’ایک معروف عالم دین‘، ’ایک معزز عالم دین‘، ’ایک بزرگ عالم دین‘، ’ایک بڑے عالم دین‘ اور ’اردو دنیا کے ایک بڑے دانش ور‘ جیسے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ اب ایک عام قاری کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہی نہیں، بلکہ ناممکن ہے کہ کون سی بات کس کی جانب منسوب کی گئی ہے۔ اس سے غالباً مصنف کا مقصد یہ ہے کہ قاری شخصیات کے ناموں میں الجھنے کے بجائے ان کی آراء پر توجہ دے اور مصنف کے محاکمہ کی روشنی میں ان کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ کرے، لیکن اقتباسات کے حوالے دینا اور انھیں ان کے مصنفین کی جانب منسوب کرنا ایک پسندیدہ بلکہ بسا اوقات ناگزیر علمی روایت ہے۔ اس کی پابندی ہونی چاہیے۔

کتاب کے ابتدائی دو ابواب میں فاضل مصنف نے بہت اختصار کے ساتھ جہاد کا مفہوم اور اس کی روح بیان کی ہے۔ تیسرے باب (ص47 تا 125) میں، جو ذرا مفصل ہے، جہاد کا مقصد زیر بحث آیا ہے۔ اس میں تین نقطہ ہائے نظر پیش کیے گئے ہیں:پہلا یہ کہ کفار و مشرکین کا جو گروہ بھی کفر و شرک پر اصرار کرے اور حق واضح ہوجانے کے باوجود اسلام قبول نہ کرے اس سے جنگ کی جائے۔ دوسرا یہ کہ اہل کفر کو روئے زمین پر  جینے کا حق تو ہے، لیکن اس سے آگے حکومت کرنے کا حق نہیں ہے، لہٰذا جہاد کے ذریعے ایسی حکومتوں کا خاتمہ ضروری ہے۔ ان دونوں نقطہ ہائے نظر کو غلط قرار دیتے ہوئے مصنف نے تیسرے نقطۂ نظر کو درست قرار دیا ہے کہ ’’مسلح جہاد کا مقصد ہے اس زمین سے ظلم و استبداد ختم کرنا، اس دھرتی پر بسنے والے ہر مظلوم و لاچار انسان کی آزادی اور عزت کی حفاظت کرنا‘‘۔ (ص 86) پوری کتاب مصنف کے اسی نقطۂ نظر کے گرد گردش کرتی ہے: ’’اسلام کا جہاد کسی مذہب یا دین کے خلاف نہیں ہوتا۔ جہاد ہمیشہ ان طاقتوں یا حکومتوں سے ہوتا ہے جو ظلم و استبداد کی عادی ہو جاتی ہیں‘‘۔ (ص 27) ’’رحمت عالمﷺ نے کبھی غلبۂ اسلام کے لیے فوج کشی نہیں کی۔ آپ کی ساری لڑائیاں ظالموں کا مقابلہ کرنے اور ان کے ظلم و استبداد کو توڑنے کے لیے ہوئیں‘‘۔ (ص 61) ’’قرآن پاک میں قتال فی سبیل اللہ اور جہاد فی سبیل اللہ کا جہاں جہاں حکم دیا گیا ہے، اس سے مقصود مظلوموں کی حمایت اور ظالموں کی سرکوبی ہے‘‘۔ (ص 123)

دوسرے نقطۂ نظر کے حامل ’ایک بزرگ عالم دین‘ سے مصنف نے غالباً مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کو مراد لیا ہے اور ان کی کتاب ’الجہاد فی الاسلام‘ کے اقتباسات درج کیے ہیں۔ یہ کتاب مولانا کی اولین تصنیف ہے، جو (1924ء میں) شائع ہوئی تھی۔ بعد میں خواہش کے باوجود مولانا کو اس پر نظر ثانی کرنے کا موقع نہیں ملا۔ بعد میں اپنی تفسیر ’تفہیم القرآن‘ میں انھوں نے جا بجا اسلام کے تصور جہاد پر جو کچھ لکھا ہے، اس سے اس موضوع پر ان کی فکر میں ارتقاء محسوس ہوتا ہے۔ اس لیے ان پر نقد کرتے وقت تفہیم القرآن کی تحریروں کو بھی پیش نظر رکھنا ضروری محسوس ہوتا ہے۔

چوتھا باب’ حضرت سلیمان اور ملکۂ سبا‘ کے عنوان سے ہے۔ اس میں مصنف نے لکھا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اسی لیے فوج کشی کی کہ وہ ظلم و جبر پر قائم تھی۔ پانچواں باب جہاد کے ضروری عناصر (بلند ایمانی کردار، مضبوط و مستحکم اجتماعیت، جان دار صالح قیادت، کامل منصوبہ بندی اور آزاد اور مضبوط سلطنت) کی تشریح کی گئی ہے۔ چھٹے باب کا موضوع ’جہاد اور امن عالم‘ ہے۔ اس میں ’ایک بڑے دانش ور اور روحانیت کے علم بردار‘ (غالباً اس سے مراد مولانا وحید الدین خاں ہیں) کے افکار کا  (صلح حدیبیہ کے حوالے سے ) محاکمہ کیا گیاہے۔ ساتویں باب میں مصنف نے واضح کیا ہے کہ قرآن پاک میں ظالم حکومتوں سے صلح کرنے کی کہیں ترغیب نہیں دی گئی ہے۔ آٹھویں باب میں جہاد کی دفاعی حکمت علمی سے بحث ہے۔ نویں باب میں جہاد کے آداب بیان کیے گئے ہیں۔ فاضل مصنف نے ایک بات یہ لکھی ہے کہ جنگ کے دوران میں اور عام حالات میں کسی دشمن کو Kidnape کرنا یا اسے دھوکے سے قتل کرنا جائز نہیں۔ (ص 236) اس ضمن میں انھوں نے یہودی سردار کعب بن اشرف کے واقعۂ قتل سے بحث کی ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ’’کعب بن اشرف کے قتل کی پوری کہانی فرضی ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اس سے متعلق روایات میں اتنی ساری الجھنین اور اتنی ساری پیچیدگیاں ہیں جو اسے ایک فرضی داستان قرار دینے کے لیے کافی ہیںــ‘‘۔ (ص 237۔245)  فاضل مصنف نے اس سلسلے میں مصنف عبد الرزاق، ابن شبّہ کی تاریخ المدینہ، معجم کبیر طبرانی اور ابن عساکر کی تاریخ دمشق میں مذکور روایات کا تو حوالہ دیا ہے اور ان پر متعدد اشکالات وارد کیے ہیں، لیکن صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن ابی داؤد اور مسند احمد میں موجود روایات کا نہ حوالہ دیا ہے اور نہ ان سے کوئی بحث کی ہے۔

دسواں باب جزیہ پر ہے۔ مصنف کی بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ جزیہ، جس کا قرآن (التوبۃ: 29) میں حکم دیا گیا ہے، مسلم فوج سے مغلوب ہونے والے عوام سے نہیںلیا گیا ہے، جیسا کہ فقہاء نے بیان کیا ہے، بلکہ اس ظالم حکومت سے لیا گیا ہے  جس سے جنگ کر کے اسلامی حکومت نے اسے مغلوب کیا ہے۔سیرت و تاریخ کی کتابوں میں عوام کے تعلق سے جس جزیہ کا ذکر آتا ہے، وہ حقیقت میں جزیہ نہیں، بلکہ سرکاری ٹیکس تھا جو حکومتیں اپنے عوام پر عائد کرتی ہیں‘‘۔ (ص 264۔265)

گیارہویں باب کا عنوان ’جنگی قیدیوں کا مسئلہ‘ ہے۔ اس میں فاضل مصنف نے زور دے کر یہ بات کہی ہے کہ ’’ قرآنی حکم کی رو سے دشمن کے فوجیوں کو قید کرنے کے بعد نہ قتل کیا جا سکتا ہے نہ انھیں غلام اور باندی بنایا جا سکتا ہے‘‘۔ (ص 376) اس ضمن میں انھوں نے غزوۂ بنی قریظہ پر تفصیل سے بحث کی ہے۔ کتب حدیث و سیرت میں تو مذکورہے کہ اللہ کے رسول ؐ نے ان کے مردوں کو قتل کروایا اور ان کی عورتوں اور بچوں کو غلام بنا لیا، لیکن فاضل مصنف فرماتے ہیں کہ یہ تمام روایات پایۂ اعتبار سے گری ہوئی ہیں‘‘۔ (ص 289) وہ لکھتے ہیں کہ ’’قیدیوں کو غلام اور باندی بنانے کی اور بھی روایتیں ہیں، مگر ان سب کی سندیں نہایت کم زور اور ناقابل استناد ہیں، پھر ان کی یہ کم زوری کیا کم ہے کہ وہ قرآن پاک سے واضح طور سے ٹکراتی ہیں‘‘۔ (ص 303) مصنف اس کا اعتراف کرتے ہیں کہ بنو قریظہ کے کچھ لوگوں کو قید کیا گیا تھا، اس لیے کہ قرآن مجید میں اس کی صراحت ہے (وتاسرون فریقاً۔ الاحزاب: 26) لیکن وہ یہ نہیں بتاتے کہ بعد میں ان کے ساتھ کیا معاملہ کیا گیا تھا؟ کیا انھیں مختصر مدت کے لیے قید کیا گیا تھا یا عمر قید کی سزا کی گئی تھی؟ اور کیا عہد نبویؐ میں موجود ہ دور کی طرح قید خانے موجود تھے، جن میں قیدیوں کو الگ تھلگ رکھا جاتا تھا؟

کتاب کے آخری دو ابواب موجودہ حالات کے پس منظر میں ہیں۔ بارہویں باب کا عنوان ہے: ’جہاد عصر حاضر میں‘۔ اس میں مصنف نے اس بات پر زور دیا ہے کہ جہاد بھر پور تیاری اور مؤثر وسائل فراہم کرنے کے بعد ہی کیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے بعض ان حضرات پر نقد کیا ہے جو کہتے ہیں کہ گنتی کے چند افراد بھی اکٹھا ہو کر جہاد کر سکتے ہیں۔ تیرہویں باب میں فاضل مصنف نے بیان کیا ہے کہ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان دوسری قوموں کے ساتھ معاملہ کرنے میں وسعت نظری اور آفاقیت کا ثبوت دیں۔ وہ ہر ملک کو اپنا میدان عمل سمجھیں۔ ظالموں کے ظلم سے نجات حاصل کرنے کے لیے صبر و تحمل، زبردست حکمت و تدبیر اور طویل المیعاد منصوبہ تیار کریں۔ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں بگڑی ہوئی امیج کو درست کریں اور عصری علوم میں مہارت حاصل کریں کہ موجودہ دور میں یہی طاقت و قوت کی علامت ہیں۔

کتاب کے مرکزی موضوع سے ہٹ کر بھی فاضل مصنف نے بعض باتیں اب تک کی تحقیقات سے ہٹ کر کہی ہیں۔مثلاً وہ کہتے ہیں کہ ’’جنگ احد میں مسلمانوں کو فتح مبین یعنی شان دار فتح حاصل ہوئی تھی۔ یہ بات کسی طور سے صحیح نہیں ہے کہ اس میں مسلم فوج کو شکست ہوئی تھی، جب کہ اس کی قیادت براہ راست اللہ کے رسول ﷺ فرما رہے تھے‘‘۔ (ص 212) اسی طرح ان کا خیال ہے کہ جنگ موتہ میں اسلامی فوج کو فتح ہوئی تھی، رومی لشکر بری طرح ناکام ہوا تھا، اس کے مقتولین کا کوئی شمار نہیں تھا۔ اس لشکر کے بے شمار آدمی مارے گئے، جس سے ان کے اندر دہشت پھیل گئی اور مسلم فوج کی زبردست دھاک بیٹھ گئی‘‘۔ (ص 218) حالاں کہ یہ باتیں تاریخی حقائق کے خلاف ہیں۔ انھوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ ’’ بہت سے لوگوں نے اہل ایمان کے لیے اہل کتاب کا ذبیحہ حلال کردیا اور یہودی اور عیسائی عورتوں سے مسلمانوں کا نکاح جائز کر دیا، جب کہ یہ دونوں چیزیں کتاب و سنت میں سرتا سر حرام ہیں۔ قرآن پاک میں اہل ایمان کے لیے جن اہل کتاب کا طعام حلال کیا گیا ہے، وہ مومن اہل کتاب ہیں اور جن یہودی اور عیسائی عورتوں سے اہل اسلام کا نکاح حلال کیا گیا ہے،یہ وہ عورتیں ہیں جو اللہ پر ایمان لا کر امت اسلام میں شامل ہو جائیں‘‘۔ (ص104) سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایمان لانے کے بعد پھر انھیں ’الذین آمنو‘ کہنے کے بہ جائے ’الذین اوتو الکتاب‘ کیوں کہا گیا؟

مصنف کا احادیث کے نقد و تنقیح کا پیمانہ عجیب ہے۔ ان کے نزدیک وہ اس وجہ سے بھی ناقابل قبول ہو سکتی ہیں کہ ان کے فہم قرآن کی رو سے درست معلوم نہیں ہوتیں۔ مثلاً حدیث ’امرت ان اقاتل الناس‘ کے ناقابل قبول ہونے کی ایک وجہ ان کے نزدیک یہ بھی ہے کہ قرآن میں گیارہ (11) مرتبہ ’اُمِرْتُ‘  اور دو(2) مرتبہ ’اُمِرْتَ‘  کے الفاظ آئے ہیں، مگر کہیں بھی وہ بات نہیں کہی گئی ہے جو حدیث میں مذکور ہے‘‘۔ (ص 56) اسی طرح حدیث ’من قتل دون مالہ فھو شہید‘ کی صحت مشکوک ٹھہرنے کے لیے ان کے نزدیک یہ کافی ہے کہ اس کی بعض سندوں میں کوئی ایسا راوی ہے جسے محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے، حالاں کہ یہ حدیث صحاح ستہ میں صحیح سندوں سے مروی ہے (بخاری:248، مسلم: 141، ابو داؤد: 4772، ترمذی: 1418، نسائی: 4087، ابن ماجہ: 5280) انھوں نے اس سلسلے میں ابن قتیبہ کی کتاب ’تاویل مختلف الحدیث‘ کا حوالہ دیا ہے، حالاں کہ نقل کردہ عبارت دینوری کی نہیں، بلکہ المکتب الاسلامی بیروت، 1999 کے اڈیشن کے محقق محمد محی الدین الاصفر کی ہے۔(ملاحظہ کیجیے مذکورہ کتاب کا حاشیہ ص 48)

فاضل مصنف نے اس کتاب میں اسلام کے تصور جہاد پر اپنے خیالات کا  اظہار بہت اعتماد اور جرأت کے ساتھ کیا ہے اور بہت سی ایسی باتیں کہی ہیں جو جمہور کی رائے سے ہٹی ہوئی ہیں۔ امید ہے، علمی حلقوں میں انھیں موضوعِ گفتگو بنایا جائے گا اور سنجیدگی سے ان کا جائزہ لیا جائے گا۔

جہاد اور روح جہاد،  مولانا محمد عنایت اللہ اسد سبحانی، ناشر: ہدایت پبلیشرز اینڈ ڈسٹری بیوٹرس، نئی دہلی، 25،2017ء، صفحات: 384، قیمت۔؍300 روپے۔

3 تبصرے
  1. مولوی ڈاکٹر محمد وجیہ القمر کہتے ہیں

    خلاصہ یہ ہے کہ جہاد اور روح جہاد کے مصنف کے مطابق ان کی عقل شریعت پر مقدم ہے. جہاں پر ان کی عقل شریعت کو سمجھ لیتی ہے وہ تو ٹھیک ہے لیکن جہاں پر ان کی عقل پر شریعت نہیں اترتی وہاں پر ان کی عقل شریعت پر مقدم ہوجاتی ہے. انا للہ و انا الیہ راجعون.

  2. محمد اسامہ فلاحی کہتے ہیں

    اس کتاب میں جہاد کی روح پیدا کرنے کے بجائے روح جہاد کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے

  3. آصف علی کہتے ہیں

    فلاحی صاحب,کیاآپ نےکتاب پڑھ کربلیغ ترین فقرہ اداکیاہے؟روح جہادہےکیاجسےختم کرنےکی کوشش کی گئی ہے؟موٹےموٹےحروف میں اصلاحی اورفلاحی وندوی لکھنےسےعلمیت نہیں آجاتی..
    مطالعےکادائرہ وسیع کیجیے,تحقیقی ذہن بنائیے,ہرچیزکوقران حدیث کےساتھ عقل وخردکی میزان پربھی تولنےکی خوپیداکیجیے.

تبصرے بند ہیں۔