ضعیفوں کے ساتھ آپ ﷺ کا طرزِ عمل

مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی

اللہ عزوجل نے انسان کی تخلیق کے بعد اس کے نشوونماکے مختلف مراحل وادوار رکھے ہیں، انسان جب پیدا ہوتا ہے تو بالکل نحیف، ناتواں، کمزور ہوتا ہے، نہ تو خود سے اٹھ سکتا ہے، نہ کھڑا ہوسکتا ہے، نہ چل سکتاہے، نہ کھاسکتاہے، نہ پی سکتاہے، پھر جب آہستہ آہستہ بڑا ہونے لگتا ہے تواپنے پیر کے بل کھڑا ہوجاتاہے، چلنے لگتا ہے اور کھانے پینے کا عمل خود سے انجام دینا شروع کردیتا ہے،پھر جب جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتا ہے تو اس کے قوی اور مضبوط وتوانا ہوجاتے ہیں، پھر وہ اب نہ صرف کھڑاہوسکتا ہے، نہ صرف وہ تنِ تنہا اپنے تمام امور کو انجام دینے کی سکت اپنے اندر پاتا ہے ؛ بلکہ کئی لوگوں کو اپنے طاقت وقوت کے پر بل، اپنی ماتحتی اور نگرانی میں ان کا کفیل اور ذمہ دار اور ان کے زندگی نشیب وفراز اور ان کے دکھ ودرد کا مداوی ومعالج بن جاتا ہے ؛بلکہ وہ ملکوں وقوموں کی سیادت وقیادت کے فرائض انجام دینے کے قابل ہو جاتا ہے، پھر نہ صرف اس کے عزائم کے بلندی اور قوت ارادی کی پائیداری اس کو صرف زمین اور اس کی اطراف واکناف کی سیر وسیاحت پر ہی اکتفا کرنے پر راضی ومطمئن کراتی ہے، پھر وہ آسمان کی بلندیوں اور اس کی وسعتوں کو بھی پامال کرنا شروع کردیتا ہے، وہ ستاروں پر کمندیں ڈالنے لگتاہے، وہ ہیبت ناک اور عظیم سے عظیم تر سمندر کی اـتھاہ گہرائیوں کو پامال کرنا شروع کردیتا ہے، اس سے موتی اور مونگے تلاش کرلاتا ہے، زمین کی تہوں اور اس کی شکنوں سے قیمتی خزانے اگلواتا ہے، پھر جب اس کی زندگی کی بہار رخصت ہوجاتی ہے، شباب کا دور خزاں کے موسم سے بدل جاتا ہے اور اس پر بوڑھاپا سایہ فگن ہونے لگتا ہے تو پھر اس کے زوال اور انحطاط کازمانہ شروع ہوجاتا ہے، اس کی بصارت ساتھ نہیں دیتی، آنکھوں پر موٹی سی عینک ہے، قوتِ سماعت روٹھ جاتی ہے، آلہ سماعت کا سہارا لینا پڑتاہے، قدم بوجھل ہوجاتے ہیں، عصائے پیری ہاتھ میں آجاتی ہے، دماغ تدبر وتفکر کی قوتوں وصلاحیتوں سے عاری ہوجاتاہے، جسم کا انگ انگ اور رواں رواں جو اس کی قوت وخوبی کا سرچشمہ تھا، وہ اس کے لئے درد وتکلیف کا تازیانہ بن جاتا ہے، پھر اس لڑکپن وہی کمزوریاں عود کر آتی ہیں۔

انسان کی زندگی کا یہ دور نہایت رحم وکرم کے قابل ہوتا ہے، لیکن آج کی اس رواں دواں اور مشینی زندگی کے دوڑ نے احترام انسانیت کے معانی ہی ختم کردیئے ہیں، اخلاق واقدار کے پیمانے بالکل بدل چکے ہیں، کسی کے تئیں کام آنا، ہمدردی، غم گساری، دکھ درد میں شرکت، اپنوں اور قرابت داروں کے ساتھ سلوک یہ انسانی اقدار قصہ پارینہ بن چکے، غیروں کے ساتھ ہمدردی تو چھوڑیئے اپنوں کے دکھ ودرد میں شرکت کے لئے بھی فرصت نہیں رہی، ماں باپ جو انسانی وجود کا ذریعہ ہوتے ہیں، ان کے لئے بھی وقت کا فارغ کرنا انسان کے لئے دشوار گذار ہوچکاہے، جب والدین بوڑھے ہوجاتے ہیں تو انہوں اولڈ ایج ہوم اور بیت المعمرین کے حوالہ کردیا جاتا ہے، جہاں ان کی کفالت کی جاتی ہے۔ لیکن ضعیف اور معمر حضرا ت کے ساتھ یہ سلوک اسلامی تعلیمات کے عین مغائر ہے۔

صغیفوں کی معاشی کفالت :

 آپ ﷺنے سب سے پہلے تو یہ تصور دیا ہے کہ آدمی یہ سوچے کرے کہ یہ رزق اور معاش جو اسے حاصل ہورہا ہے، اس کے قوتِ بازو کی کمائی ہے، بلکہ آپ ﷺنے یہ تصور دیا ہے کہ تم لوگوں کو جو رزق حاصل ہورہاہے یہ تمہارے کمزور اور ناتواں لوگوں کی وجہ سے حاصل ہورہا ہے (بخاری)آپ  انے اس روایت کے ذریعہ اس تصور کو یکلخت ختم کردیا کہ یہ بوڑھے صرف کھاتے ہیں کماتے نہیں، بلکہ یہ تصور دیا کہ جو بھی اللہ کے خزانے سے رزق تمہیں حاصل ہورہا ہے، یہ تمہارے انہیں بزرگوں، کمزوروں اور بوڑھوں کی وجہ سے، اسلئے ان لوگوں کے وجود کو اپنے گھر کے لئے رحمتِ خداوندی اور نعمتِ ایزدی کا وجود تصور کرو؛اس لئے بوڑھے حضرات کی شرعاً کفالت واجب ہے، اگر وہ ماں باپ ہیں تو اگر وہ کسبِ معاش کی صلاحیت بھی رکھتے ہوں تب بھی بال بچو ں پر ان کی ضروریات کی تکمیل واجب ہے، اگر دیگر رشتہ دار ہیں اور ان کی اولاد نہ ہوتو قریب ترین رشتہ دار ان کی کفالت کے ذمہ دار ہوں گے، اگر خود ان کے اندر کمانے اور ضرورت کی تکمیل کی صلاحیت ہوتو ان کی ذمہ داری دوسروں پر نہیں۔ (ردالمحتار : ۵؍۳۵۵۔۳۵۲)

ضعیفوں کا اکرام اور اسوہ نبوی

بڑھاپے میں آدمی یہ چاہتا ہے کہ چھوٹے ان کے ساتھ احترام واکرام کا معاملہ کریں، آپ ﷺ نے ان کے ان جذبات کا احترام فرمایا:آپ کا ارشاد گرامی ہے کہ جو شخص چھوٹے پر شفقت نہ کرے اور بڑوں کی توقیر نہ کرے وہ ہم سے نہیں (ترمذی)اورایک جگہ آپ  انے ارشاد فرمایا: جو نوجوان کسی بوڑھے کی اس کی عمر کی رعایت کرتے ہوئے تعظیم کرے گا تو جب وہ نوجوان اس عمر کو پہنچے گا تو اللہ تعالی اس کے لئے بھی ویسا ہی تعظیم کرنے والا مہیا کرے گا(ترمذی )اسی طرح بڑوں، بوڑھوں کے احترام واکرام میں یہ بات بھی شامل ہے کہ کوئی بوڑھا جارہا ہو، بوجھل سامان اس کے ہاتھ میں ہو، آپ نوجوان ہیں تو آپ کا اخلاقی فرض بنتا ہے کہ آپ ان کا تھیلا اپنے کاندھوں پر اٹھالیں اور منزلِ مقصود تک پہنچادیں، آپ بس یا ٹرین میں سفر کر رہے ہیں، آپ کو سیٹ مل چکی ہے، لیکن کوئی بوڑھا ضعیف شخص کھڑا ہے، بوڑھاپے کے احترام کا تقاضا یہ ہے کہ آپ اپنی سیٹ سے اٹھ کر ان کوبیٹھنے کے لئے جگہ دیں، اگر ہم ان ضعیف اور بوڑھے، بزرگ لوگوں کے ساتھ یہ طرزِ عمل اور حسنِ سلوک اور تعظیم وتوقیر کا معاملہ کریں گے تو حضور  اکی حدیث کے بموجب ہمارے بوڑھا پے اوردرازگئی عمر کے وقت ہمیں اللہ عزوجل ایسے لوگ عطا فرمائیں گے جو ہمارا احترام واکرام کریں گے، اگر ہمار ا رویہ بوڑھوں کے ساتھ بے توقیری، بے ادبی اور ناشائستگی اور تمسخر واستھزاء کا ہوگا تو سن رسیدہ لوگوں کے ساتھ ہم دستِ تعاون دراز نہ کریں گے تو یہ یہی سلوک اور رویہ بوڑھاپے میں ہمارے ساتھ ہوگا

 اور ایسے ہی جب کئی لوگ ہوں اور ان کو اپنی بات پیش کرنی ہو تو بڑے کو گفتگو کا اور نمائندگی کا موقع دینا چاہیئے، حدیث میں کہ بڑے کو اپنے امور کا نمائندہ بناؤ۔’’کبر الکبر‘‘ ب(بخاری: باب اکرام الکبیر، حدیث: ۶۱۴۲)اللہ عزوجل بھی سفید ریش ـآدمی کااکرام فرماتے ہیں کہ اس نے اپنی عمر کا معتد بہ حصہ شرک وکفر سے مبرا ہو کر ایمان واسلام کے ساتھ وابستگی کا ساتھ گذار لیا۔

آپ ﷺ بوڑھوں اور بڑوں کااکرام یوں فرماتے اور ان کی دراگئی عمر کی قدر یوں کرتے کہ مجلس میں جب کوئی مشروب وغیرہ پیش کیا جاتا تو آپ ﷺ اس کے لئے بوڑھوں کو مقدم فرماتے : آپ ﷺ نے فرمایا: بڑھوں سے آغاز کرو، ؛ بلکہ آپ ﷺ نے ایک دفعہ مسواک کرتے ہوئے دو میں سے بڑے کو عنایت فرمائی (ابوداؤد: باب فی الرجل یستاک)اور ایک جگہ فرمایا: ’’البرکۃ مع أکابرکم‘‘ (برکت تمہارے بڑوں کے ساتھ ہے )

ضعیفوں کے ساتھ آپ ﷺ کاطرزِ عمل:

آپ ﷺ بوڑھوں کانہایت اکرام واحترام فرماتے، ان کے لئے جگہ خالی فرماتے، ان کو تکلیف پہنچانے سے منع فرماتے، ان کے خاطر نمازوں کو طول دینے سے منع فرماتے۔

٭حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ ایک بوڑھا شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملاقات کی غرض سے حاضر ہوا لوگوں نے اسے راستہ دینے میں تاخیر کی تو آپ نے فرمایا جو شخص کسی چھوٹے پر شفقت اور بڑے کا احترام نہ کرے اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں (ترمذی: باب رحمۃ الصبیان، حدیث:۱۹۱۹)

٭حضرت اسما سے مروی ہے کہ جب نبی علیہ السلام مقم ذی طوی پر پہنچ کر رکے تو ابوقحافہ نے اپنے چھوٹے بیٹے کی لڑکی سے کہا بیٹی! مجھے ابوقبیس پر لے کر چڑھو! اس وقت تک ان کی بینائی زائل ہوچکی تھی، وہ انہیں اس پہاڑ پر لے کر چڑھ گئی تو ابوقحافہ نے پوچھا بیٹی! تمہیں کیا نظر آرہاہے؟ اس نے کہا کہ ایک بہت بڑا لشکر جو اکٹھا ہو کر آیا ہوا ہے ابوقحافہ نے کہا کہ وہ گھڑ سوار لوگ ہیں ان کی پوتی کا کہنا ہے کہ میں نے اس لشکر کے آگے آگے ایک آدمی کو دوڑتے ہوئے دیکھا جو کبھی آگے آجاتا تھا اور کبھی پیچھے ابوقحافہ نے بتایا کہ وہ واضح ہو گیا یعنی وہ آدمی جو شہسواروں کو حکم دیتا اور ان سے آگے رہتاہے، وہ کہتی ہے کہ پھر وہ لشکرپھیلنا شروع ہوگیا، اس پر ابوقحافہ نے کہا واللہ پھر تو گھڑ سوار لوگ روانہ ہو گئے ہیں، تم مجھے جلدی سے گھرلے چلو، وہ انہیں لے کرنیچے اترنے لگی لیکن قبل اس کے کہ وہ اپنے گھرتک پہنچتے لشکر وہاں تک پہنچ چکا تھا، اس بچی کی گردن میں چاندی کا ایک ہار تھا جو ایک آدمی نے اس کی گردن میں سے اتار لیا۔جب نبی علیہ السلام مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے اور مسجد میں تشریف لے گئے تو حضرت صدیق اکبر بارگاہ نبوت میں اپنے والد کو لے کر حاضر ہوئے، نبی علیہ السلام نے یہ دیکھ کر فرمایا آپ انہیں گھر میں ہی رہنے دیتے، میں خود ہی وہاں چلاجاتا، حضرت صدیق اکبر نے عرض کیا یا رسول اللہ! یہ ان کا زیادہ حق بنتا ہے کہ یہ آپ کے پاس چل کر آئیں بہ نسبت اس کے کہ آپ ان کے پاس تشریف لے جائیں پھر انہیں نبی علیہ السلام کے سامنے بٹھادیا، نبی علیہ السلام نے ان کے سینے پرہاتھ پھیر کر انہیں قبول اسلام کی دعوت دی چنانچہ وہ مسلمان ہو گئے، جس وقت حضرت ابوبکر انہیں لے کر نبی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے تو ان کا سر ثغامہ نامی بوٹی کی طرح (سفید) ہوچکا تھا نبی علیہ السلام نے فرمایا ان کے بالوں کو رنگ کر دو پھر حضرت صدیق اکبر کھڑے ہوئے اور اپنی بہن کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا میں اللہ اور اسلام کا واسطہ دے کر کہتاہوں کہ میری بہن کا ہار واپس لوٹا دو، لیکن کسی نے اس کا جواب نہ دیا، تو حضرت صدیق اکبرنے فرمایا پیاری بہن اپنے ہار پرثواب کی امید رکھو۔(مسند احمد: حدیث اسماء بنت أبی بکر الصدیق رضی اللہ عنہ، حدیث: ۲۷۰۰۱)یہاں دیکھئے نبی کریم ﷺ بوڑھے کا کیسے اکرام فرمار ہے ہیں۔

٭آپ ﷺ نے بڑے بوڑھوں اور بچوں کے خاطر نماز کو طویل کرنے سے بھی منع فرمایا کہ یہ تکلیف اور حرج میں مبتلا ہوجائیں گے۔

ابومسعودانصاری سے منقول ہے وہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے (آکر) کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ہو سکتا ہے کہ میں نماز (جماعت کے ساتھ) نہ پاسکوں کیونکہ فلاں شخص ہمیں (بہت) طویل نماز پڑھایا کرتا ہے ابومسعود کہتے ہیں کہ میں نے نصیحت کرنے میں اس دن سے زیادہ کبھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غصہ میں نہیں دیکھا آپ نے فرمایا کہ اے لوگو! تم ایسی سختیاں کر کے لوگوں کو دین سے نفرت دلاتے ہو، دیکھو جو کوئی لوگوں کو نماز پڑھائے اس چاہئے کہ (قرا کے ادا میں ) تخفیف کرے اس لئے کہ مقتدیوں میں مریض بھی ہوتے ہیں اور کمزور بھی ہوتے ہیں اور ضرورت والے بھی ہوتے ہیں۔ (بخاری، إذا طول الإمام، حدیث:۷۰۲)

اس تحریر کی روشنی میں شریعت کی نظر میں بوڑھوں کی اہمیت وقدر کو بتانا ہے کہ وہ ہمارے کس رویہ کے مستحق ہیں، کیا وہ اس بات کے مستحق ہیں کہ ان کو دھتکارا جائے، ان کڑوی کسیلی سنائی جائے، انہیں سماج اور معاشرہ کے لئے بوجھ تصور کیا جائے، یا وہ ہمارے رحم وکرم اور قدر واحترام کے مستحق ہیں، یقینا وہ ہمارے قدر واحترام اور جذبۂ ترحم وعاطفت کے مستحق ہیں ؛ چونکہ ہر انسان کو زندگی کے اس مرحلہ سے گذرنا ہے، حدیث کے بموجب ہمارے بڑوں اور معمرین کے ساتھ ہمارا جو رویہ ہوگا وہی سلوک ہماری اولادیں اور نسلیں ہمارے ساتھ کریں گی۔ اس تعلق آپ ﷺ کا رویہ اورسلوک بھی ہمارا لئے نمونہ، ہماری یہ صورتحال ہے کہ بڑے بوڑھوں کی کیا قدر کرتے، ہم سے تو اپنے ماں باپ کی بھی قدر کرنا نہیں ہوتا۔

تبصرے بند ہیں۔