تو انقلاب کی آمد کا انتظار نہ کر!

 محمد خان مصباح الدین

 تو انقلاب کی آمد کا انتظار نہ کر

 جو ہو سکے تو ابھی انقلاب پیدا کر

1947 میں ہندوستان کی تقسیم کے وقت ایک اندازے کے مطابق تقریباً دس لاکھ مسلمان پاکستان ہجرت کر  گئے تھے، لیکن اس کے باوجود مسلمانوں کی اکثریت بھارت ہی میں رہ گئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان بھارت کی سب سے بڑی اقلیت ہیں۔ اس وقت بھارت کی ایک ارب سے زیادہ کی آبادی میں مسلمانوں کی تعداد تیرہ کروڑ اسی لاکھ کے قریب ہے یعنی مسلمان بھارت کی کل آبادی کا تیرہ فیصد ہیں جو کہ اسلامی دنیا میں صرف پاکستان اور انڈونیشیا سے کم ہے۔ لیکن اتنی بڑی عددی طاقت رکھنے کے باوجود ہندوستانی مسلمانوں کی حالت انتہائی پسماندہ ملکوں سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں سے بھی بدتر ہے۔ اس کی واحد وجہ بھارت کے انتہا پسند ہندو ؤں کا اب تک مسلمانوں کو دل سے قبول نہ کرنا ہے۔

آگے بڑھنے سے پہلے اگر یہ واضح کر دیا جائے کہ ہماری رائے میں ہندو تنگ نظری کا اطلاق تمام ہندوؤں پرکرنا انصاف نہیں، کیونکہ بھارت اور اس کے باہر ہندوؤں کی اکثریت دلت اور نیچ ذات سے تعلق رکھتی ہے، اور یہ کروڑوں ہندو مذہبی تعصب میں مبتلا  نہیں، شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ وہ خود اپنے مذہب میں شدید ترین تعصب کا شکار ہیں۔ وجہ بہرحال جو بھی ہو، دلتوں کا ذرا سی ترغیب پر مسلمان ہو جانا اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ وہ ہندو مت کے ذات پات کے نظام سے کتنے بیزار ہیں ۔ اصل بنیا پن اور ہندو تنگ نظری کا تعلق برہمن اور کشتری ہندوؤں سے ہے جو بھارت  کو اصلاً ایک ہندو ریاست سمجھتے اور بنانا چاہتے ہیں ,ہم لوگ تعصب اور تنگ نظری میں اس قدر آگے نکل چکے ہیں کہ لالچ کیساتھ ساتھ انسانیت کو بھی بھولتے چلے جا رہے ہیں گالی گلوج, مندر مسجد کا جھگڑا,ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا جذبہ یہی ہماری زندگی مقصد اور لائحہ عمل بن چکا ہے,انہیں سارے خرافات کو ہم نے ترقی کا راستہ مان لیا ہے جسکی وجہ سے ہم ہمیشہ اپنا قومی وقار مجروح کرتے چلے آ رہے ہیں اور پوری دنیا جو ہندوستان کی مثال دیا کرتی تھی آج ہندوستان کا نام سن کر کوئی جملے کستا ہے تو کوئی طنز کرتا ہے جسکا ہمیں ذرہ برابر افسوس نہیں ہے

قارئین کرام!

کچھ عرصہ پہلے تک جب سوشل میڈیا اور سینکڑوں چوبیس گھنٹے چلنے والے ٹی وی چینلزنہیں تھے تب اگر محلے میں  یا عزیز رشتے داروں میں کسی کی موت کی اطلاع ملتی تو ایک عجیب سی سراسیمگی کی لہر دوڑ جایا کرتی تھی، کئی کئی دن تک دل پرایک خوف طاری رہتا اور اللہ سے توبہ استغفار کا سلسلہ جاری رہتا۔ موت ایک طرح سے عجوبے کا درجہ رکھتی تھی۔ پھر ٹیکنالوجی کی ترقی نے اطلاعات کوگھر گھر پہنچاکر ایک معاشرتی انقلاب بپا کردیا جہاں لوگوں کی زندگی میں بہت تبدیلیاں رونما ہوئیں وہیں عمومی روئیے بھی بدلنا شروع ہوگئے۔ ملک میں پچھلے دس گیارہ سال سے جاری دہشتگردی نے اگرچہ لوگوں کے ذہن پر بہت اثرات مرتب کئے ہیں مگر وہ طبقہ جوملک کی باگ دوڑ واسطہ و بلاواسطہ سنبھالتا یا اسکا حصہ دار بنتا ہے اور جس پراس دہشتگردی کا اثر اتنا رونما نہیں ہوتا اسکے بے حس روئیے نے عوام کوبھی بے حسی کی راہ دکھا دی ہے۔ آج ہم موت کی مختلف شکلیں اتنی دیکھ چکے ہیں کہ موت اب ہمارے لئیے کوئی معنی نہیں رکھتی ہے۔ ایک دن میں اگرسو لوگ بھی مرجائیں تو ہم کچھ دیرکیلئے تو دکھی ہونگے پھر چینل بدل دینگے کہ بھئی اب ہم کیا کرسکتے ہیں کہ انکی موت ایسے ہی لکھی تھی اور اسکے بعد وہی ہم ہونگے اور وہی زندگی کے کام دھندے۔ اسطرح رات گئی بات گئِ والی مثال پرہم پوری طرح عمل پیرا ہوتے ہیں ۔

       یہ حادثات تو پتھر بنائے دیتے ہیں

      کسی کا دل پہ بہت دیر اثرنہیں رہتا

 ہماری بے حسی کا یہ عالم ہے کہ آج جبکہ ہم ترقی کی راگ آلاپتے ہیں معصوم بچے جنہوں نے ابھی زندگی کیا ہے یہ سمجھا ہی نہیں ہے وہ بھوک کے شکنجوں میں جکڑکراپنی جان سے جا رہے ہیں گوکھپور اور ملک کے کئی ہسپتالوں میں نومولود آکسیجن کی کمی کی وجہ سے اپنے اصل مالک کی طرف واپس جا رہے ہیں اور ہمارے ارباب اختیار جن کوہم نے اپنی اور اپنے ملک کی باگ دوڑ کا اختیار دیا ہے وہ ایسے ایسے بہانے تراش رہے ہیں کہ دل چاہتا ہے کہ ہم چلو بھر پانی میں ڈوب مریں کیا عجب تماشا ہے دنیا کہ لئے کہ ہمارے ملک میں ہمارے حکمرانوں اور انکے چیلوں چانٹوں کے سیاہ کرتوتوں کی بنا پر لوگ یا توسیلاب میں مرتے ہیں یا پھر قحط میں۔ اور یہ حکمران کبھی یہ کہہ کرجان چھڑوا لیتے ہیں کہ اگست کے مہینے میں موتیں ہوتی رہتی ہیں یا سہولیات نا ہونے کہ وجہ سے بچے زچگی میں مرجاتے ہیں بھوک کی وجہ سے نہیں اور کہیں یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ جی بچے تو وقت سے پہلے پیدائش پرمرے ہیں ۔ واہ آپ کی سادگی اور ہماری بے حسی کہ آپ نے کہا اور ہم نے مان لیا یہ جانتے ہوئے بھی کہ لاکھوں ٹن گندم,چاوک چوہے کیڑے کھا جاتے ہیں یا اچھے چاول اور گندم خاص لوگ لیکر چلے جاتے ہیں اور جو بچتا ہے وہ عوام تک پہونچتے پہونچتے اتنا سڑ جاتا ہے کہ نہ کھانے قابل ہوتا ہے اور نہ بیچنے کے آخر میں وہ جانوروں کی بھوک مٹا سکتے ہیں ، لاکھوں کروڑوں روپیہ پلوں اور بسوں کے بجائے ہسپتالوں کو بہتربنانے میں لگایا جا سکتا ہے مگرنہیں ۔ ۔ ۔ جیسے ہمارے بے حس مہربان ویسے ہم بے حس قدردان ۔ ۔ ۔ ۔ اپنی ہی نسل کشی کرنے پر آمادہ ہیں ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔