امار سونار بنگلہ (قسط اول)

صفدر امام قادری

  عام طور سے ہندستان اور پاکستان کے لوگ بنگلہ دیش کو اپنے سے کمتر اور غیر ترقی یافتہ سمجھنے کے عادی ہیں۔ مفلسی، غربت اور ناخواندگی کی مثال کے طور پر اس ملک کو یاد کرتے ہیں۔ وہ تو خیر کہیے کہ ابھی ابھی غربت اور مفلسی کی عالمی درجہ بندی کے جو نتائج چند دنوں پہلے سامنے آئے، ان سے یہ پتا چلا کہ ہندستان اور پاکستان سے پیٹ بھر کھانے کے معاملے میں بنگلہ دیش ابھی بہتر معلوم ہورہا ہے۔ دس برسوں میں اس درجہ بندی میں دونوں بہ تدریج نیچے گئے مگر بنگلہ دیش نے خود کو سنبھالا۔ پچھلے ہفتے جب ایک سے می نار کے سلسلے سے بنگلہ دیش کا سفر کرنا پڑا تو اپنے پڑوسی ملک کی جو چند جھلکیاں آنکھوں میں سمائیں تو ایسا محسوس ہوا کہ بے انتہا جدوجہد، جسم و جان کی قربانیاں دینے اور غیروں کے ساتھ اپنوں سے لڑکر آزاد قومیت کی ابھی تو چار دہائیاں مکمل نہیں ہوئیں مگر زندگی کے کئی مورچوں پر ترقی پذیر ممالک کے اپنے دوسرے دوستوں سے زیادہ مشقت کے ساتھ آگے بڑھتی ہوئی نظر آئی۔

سوا کروڑ سے زیادہ انسانوں کو سمیٹ کر اپنے مرکز ڈھاکہ میں رکھنے والا یہ ملک کئی طرف سے جدوجہد میں شامل ہے۔ محض بیس برس کی آزادی کی لڑائی میں لاکھوں جانیں قربان ہوئیں۔ اس قربانی کا دکھ اور درد تو بنگلہ دیش کے بزرگوں کی زبان اور چہروں پر دیکھتے ہی بنتی ہے مگر باتوں باتوں میں وہ نئی نسل جو انیس 1971ء کے بعد پیدا ہوئی، اس کی بھی آنکھیں بھیگی معلوم ہوئیں جب ان کی جنگِ آزادی کا تذکرہ چھڑا مگر آزاد ملک کی رفتار اور نئے کاموں کا حوصلہ ان میں بھرا ہوا نظر آیا۔ کھونے کے درد کے مقابلے پانے کی خواہشوں نے ان میں عجیب و غریب جوش بھر رکھا ہے جیسا ہندستان یا پاکستان کی نئی نسل میں ویسا تعمیری حوصلہ دیکھنے کو نہیں ملتا ہے۔ شاید یہی وہ بنیادی فرق ہے جس کی وجہ سے بنگلہ دیش غربت زدگی اور پسماندگی کی زنجیروں کو توڑنے میں دونوں ملکوں سے آگے نظر آرہا ہے۔

 ہوائی اڈّے سے نکلتے ہوئے بیس اور تیس منزلہ عمارتوں کا جو سلسلہ شروع ہوا تو وہ ڈھاکہ شہر کے مضافاتی علاقوں میں جانے کے بعد ہی کم ہوا۔ سڑکیں بالعموم چوڑی اور صاف ستھری نظر آئیں۔ مرکزی شاہراہیں تو اتنی کشادہ ہیں کہ ایک ساتھ آٹھ اور دس گاڑیوں کے لین (Lane)   نکل سکتے ہیں۔ فٹ پاتھ بھی تنگ نہیں ہے اور فٹ پاتھ دکانداروں کی قطاروں کے بعد بھی چار پانچ لوگ چل سکتے ہیں۔ ان شاہراہوں پر بڑی تعداد میں چلتی ہوئی بسوں اور اسی انداز میں رکشہ کی موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ ترقی کی رفتار میں کمزور لوگوں کا ہاتھ، خون پسینہ اور مشقتیں پورے طور پر شامل ہیں۔ ہر چند لنگی پہن کر غربت اور ناخواندگی کی سراپا تصویربنے ان رکشہ چلانے والوں کو جاگیردارانہ دشنام طرازی کا بھی نشانہ بننا پڑتا ہے۔

ڈھاکہ شہرہندستان کی راجدھانی دلی کی طرح نہیں ہے۔ تین سو سال گزرنے کے آثار شہر میں نظر آتے ہیں۔ پرانا شہر ایسا بھی نہیں ہے کہ اسے قدیم کھنڈروں کا نمونہ قرار دیا جاسکے۔ چار پانچ منزلہ عمارتیں اس علاقے میں بھی موجود ہیں، کشادگی کم ہے مگر دلی کی تنگ گلیوں کا گمان نہیں گزرتا۔ بھیڑ اور شور اسی طرح سے ہے جیسے ایک زندہ علاقے میں ملنا چاہیے۔

 بنگلہ دیش کو ندیوں کا ملک کہا جاتا ہے۔ ہندستان کی بڑی ندیاں گنگا اور برہمپتر، پدما اور میگھنا کی شکل میں بنگلہ دیش کو پار کرتے ہوئے ہی سمندر تک پہنچتی ہیں۔ ہندستان کی ندیاں سوکھتی اور مرتی ہوئی نظر آتی ہیں مگر بنگلہ دیش نے اپنی ندیوں کو ذرائع مواصلات کے طور پر قائم کررکھا ہے۔ ڈھاکہ کے پرانے شہر سے پار کرتے ہوئے جب بندرگاہ کے قریب پہنچتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک زندہ اور جیتے جاگتے شہر میں آگئے ہیں۔ بیسوں پانی کے جہاز لوگوں سے بھرے ہوئے ہیں اور ضلعی سطح کے سفر کا سہارا بنے ہوئے ہیں۔ کشتیاں بھی بھری اور لدی ہوئی نظر آتی ہیں۔ پانی کے جہازوں پر جو لوگ آتے اور جاتے نظر آئے، ان کے لباس اور ساز و سامان سے یہ ظاہر تھا کہ مالی اعتبار سے کمزور لوگ ہیں۔ جب دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ بعض اضلاع میں جانے آنے جانے کا سب سے سستا ذریعہ پانی کے جہاز ہی ہیں اور یہ بھی معلوم ہوا کہ بس اور جہاں جہاں ٹرین ہے، ان کے مقابلے پانی جہاز کم وقت میں ان مقامات تک پہنچا دیتی ہے۔ ہندستان میں ندیوں کو آنے جانے کے لیے تقریباً ہم نے نااہل بناکر چھوڑ دیا مگر بنگلہ دیش کے لوگوں نے آمد و رفت کے لیے ان کا استعمال جاری رکھا۔ ان جہازوں میں آنے جانے والے افراد سیر سپاٹے والے لوگ نہیں ہیں بلکہ وہ عام عوام سے متعلق ہیں۔

 ڈھاکہ آبادی کے اعتبار سے دنیا کی بھیڑ بھرے شہروں میں ہے۔ رہائش کے جدید انتظامات کافی نظر آئے۔ مضافاتی علاقوں میں ہرے بھرے کھیت تو ہر جگہ مل جاتے ہیں مگر ڈھاکہ شہر میں جس انداز کا بھی کوئی بڑا احاطہ نظر آیا، اس میں نئے پرانے پیڑوں کی ہریالی لازمی طور پر نظر آئی۔ کیمپس کو کنکریٹ سے پاٹ دینے کے بجاے ہری گھاس کو بچا کر رکھنے کا ایک خاص انداز نظر آیا جسے ان کے نیشنل میوزیم، یونی ورسٹی سے لے کر قاضی نذر الاسلام کے مزار تک ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔

 اپنی مادری زبان سے محبت نے ہی انھیں خون کے دریائوں سے پار کرایامگر عالم کاری کے جوش میں ہندستان کی طرح مادری زبان سے وہاں بے رغبتی یکسر نہیں دیکھنے کو ملتی۔ سڑکوں کے نام سے لے کر اداروں کے نام میں ننیانوے فی صد بنگلہ زبان کا بلاشرکتِ غیرے استعمال کسی بھی دوسرے ملک کے فرد کے لیے حیرت کی بات ہوگی۔ ایسے افراد جن کے لکھنے پڑھنے کی زبان بنگلہ سے مختلف ہے، ان کے لیے بھی گھر، بازا ر اور دفتر یا یونی ورسٹیوں میں بنگلہ ہی آزمائی جانے والی زبان ہے۔ ہندستان کی طرح بین الاقوامیت کے چکر میں وہاں انگریزی ہندسے لکھنے کا رواج تقریباً نہیں ہے۔ کسی دکان میں جائیے، رقم لکھتے ہوئے دکاندار بنگلہ ہندسے کا ہی سہارا لیتا ہے۔ اپنی مادری زبان کی اس طرح سے حفاظت کرنے والی دنیا میں زیادہ قومیں نہیں ہیں۔ رکشہ چلانے والے سے لے کر وائس چانسلر تک کو ذریعۂ ترسیل کے طور پر بنگلہ زبان کو استعمال کرتے ہوئے دیکھنا ہمارے لیے ایک پسندیدہ امر تھا جب کہ وہاں پہنچتے ہی تقریب میں میں نے امیر خسرو کا سہارا لیتے ہوئے اپنی معذرت پیش کردی تھی: زبان یار من ترکی و من ترکی نمی دانم۔

 بنگال کو تہذیب و ثقافت کا انوکھا مرکز ہونے کا فخر حاصل رہا ہے۔ مغربی بنگال آج بھی ہندستان میں ان اسباب سے پہچانا جاتا ہے۔ اگر بنگلہ دیش میں تھیٹر اور ڈرامے کے لیے کیسی کشادگی ہوگی، اس بات کا اندازہ کرنے کے لیے ان کے بڑے بڑے تھیٹر ہائوس دیکھنے چاہیے۔ ایک عمارت میں ایک وقت میں چار اور چھے ڈرامے چل رہے ہوں، اور انھیں دیکھنے کے لیے ٹکٹ خرید کر بھیڑ کی شکل میں پہنچنے والی جماعت موجود ہو تو اسے حیرت سے ہی دیکھا جائے گا۔ ڈسپلن کا یہ حال کہ شو شروع ہونے کے پہلے سب دم بخود اپنی نشستوں پر بیٹھ گئے اور شو ختم ہونے سے پہلے حال سے ایک شخص بھی باہر نہیں نکلا۔ ہمارے لیے تو یہ بھی لطف تھا کہ بنگلہ زبان کا ڈراما دیکھنے کا موقع ملا اور لفظوں کے معنی صد فی صد نہیں جاننے کے باوجود کیفیت کے سہارے اس ماحول میں اُترتا ہی چلا گیا۔ بنگلہ دیش کے تھیٹر کے بڑے بڑے لوگوں کو جب یہ معلوم ہوا کہ ہندستان سے ہم حاضر ہوئے ہیں تو اپنے فن کے ماہرین نے ہمارے ساتھ تصویریں کھینچ کر ان یادوں کو خود سے محفوظ کرنے کی پہل شروع کردی۔ ہمارے نمائندہ بنگلہ دیش کے نئے تھیٹر آرٹسٹ کمل سرکار ادبی اور تہذیبی پل بن کر بنگلہ دیش کی دھرتی پر ہمارے پہلے دن کو یادگار بنارہے تھے۔

1974ء کی بات ہے کلکتے میں وہاں کے وزیر اعلا سدھارتھ شنکر راے کی دعوت پر شیرِ کشمیر شیخ عبداللہ وہاں پہنچتے تھے۔ سیر سپاٹے کے لیے ہم بھی وہاں موجود تھے۔ اسکول کا زمانہ تھا۔ شیخ عبداللہ کوئی تین دہائی بعد کلکتہ پہنچے تھے، انھوں نے کلکتہ کے بارے میں اپنے جو مشاہدات درج کرائے، ان میں سب سے شاہ سرخیوں میں یہ بات سامنے آئی کہ کلکتہ جتنا بھی بدل گیا ہو مگر سڑکوں پہ جام اور ٹھہراو میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور سواریاں کچھوے کی رفتار سے چلتی ہیں۔ ڈھاکہ پہنچتے ہی ہمیں شیخ عبداللہ کے اس زمانے کا قول یاد آیا اور محسوس ہوا کہ ڈھاکہ شہر کی ساری جدید ترقیات کے باوجود ٹریفک کی رفتار کچھ اسی قدر سست ہے جیسے بیل گاڑیوں کے دور میں کسی جگہ چلنے پھرنے کی رفتار رہتی ہوگی۔ ٹریفک پولیس ہر جگہ موجود ہے، الیکٹرانک سگنل بھی چوراہوں اور گلیوں تک میں کام کرتے ہوئے نظر آئے۔ سڑکیں بھی خوب چوڑی، ڈبل ڈیکر بس کی بھی بھرمار، ون وے اور ٹو وے کا بھی خاص اہتمام مگر سب کا نتیجہ صفر۔ دس کیلو میٹر فی گھنٹے سے زیادہ کی رفتار سے ڈھاکہ شہر میں کسی بھی چار پہیے والی سواری سے آپ نہیں چل سکتے ہیں۔ سو ڈھیڑھ سو کیلو میٹر کا سفر ہو تو وہاں کے لوگ اسے پورے دن یا پوری رات کے سفر کے طور پر متعین کرتے ہیں۔ شاید ایک ہی سڑک پر تمام طرح کے وسائل استعمال میں لائے جاتے ہیں اور ان کی کوئی علاقائی درجہ بندی نہیں ہے، اس سماجوادی طریقۂ کار کی وجہ سے بھی سڑکیں گاڑیوں سے پٹی رہتی ہیں۔ جب بس، ڈبل ڈیکر بس، ٹریکٹر، موٹر کار، سائکل، بائک، آٹو، ٹھیلا اور نہ جانے کتنے وسائل ہیں جو ایک ہی سڑک پہ دوڑ رہے ہیں۔ ڈھاکہ کو اگر نئی دنیا کا شہر بننا ہے تو اس مسئلے کا حل ڈھونڈنا پڑے گا۔ یونی ورسٹی سے ایک کیلو میٹر کی دوری پر ہمارا قیام تھا لیکن شاید ہی کبھی آدھ گھنٹے سے کم میں ہم وہاں پہنچ سکے۔

 بھیڑ میں رکشے سے بھی آپ نکلے ہیں تو جس صبر کے ساتھ اس جام میں گھنٹوں رکشہ والا اور دوسرے لوگ شامل ہیں، ان میں بے اطمینانی کا نہیں ہونا ہمیں حیرت میں مبتلا کرگیا۔ شاید اپنی قومی زندگی کی تعمیر و تشکیل میں جس استقلال سے بنگلہ دیش کے افراد فتح یابی تک پہنچے اسی استقلال اور صبر نے انھیں مواصلاتی نظام کی ان مشکلوں سے نبردآزمائی کا حوصلہ دیاہے۔(آگے کے احوال آئندہ شمارے میں )

1 تبصرہ
  1. Mohsin کہتے ہیں

    bahut khub, bahut malumati mazmun hai, barahe karam jari rakhen.

تبصرے بند ہیں۔