مودی کے نشانے پر صرف کجریوال

حفیظ نعمانی

        ہم اس وقت بھی لکھنؤ میں تھے جب اترپردیش کی پہلی حکومت بنی تھی،  اور وزیر اعلیٰ پنڈت گوبند بلبھ پنت تھے،  جن کی گردن ایک پرانی چوٹ کی وجہ سے ہر وقت ہلتی رہتی تھی،  اور آج پروردگار کے کرم سے کام کے قابل بھی ہیں،  اور لکھنؤ میں ہی ہیں،  اتنے دنوں میں صرف اترپردیش میں ہی سیاسی دوستی اور دشمنی نہیں دیکھی بلکہ دوسرے صوبوں کی سیاسی دوستیاں اور دشمنیاں بھی دیکھی،  ملک کے وزیر اعظم اور صوبوں کے وزیر اعلیٰ کے ٹکرائو بھی دیکھے اور زبردست اختلافات بھی دیکھے،  وزیر اعظم پنڈ ت نہرو کی آچاریہ کرپلانی،  ڈاکٹر رام منوہر لوہیا اور مینو سانی کو ضمنی الیکشن میں ہرانے کی جان توڑ کوشش بھی دیکھی اور اس مہم میں ان کی ناکامی کی ذلت بھی دیکھی،  شیر کشمیر شیخ محمد عبداللہ کی اور وزیر اعظم پنڈت نہرو کی دوستی بھی دیکھی اور پنڈت جی کو دوست کی پیٹھ میں خنجر ما کر شیخ عبداللہ کو ۱۲ برس کے لیے جیل میں ڈالتے ہوئے بھی دیکھا،  اترپردیش میں سی بی گپتا اور بابو ترلوکی سنگھ کی سیاسی کشتی بھی دیکھی اور گپتا جی اور چودھری چرن سنگھ کے درمیان کا معرکہ بھی دیکھا۔

        اور سب سے بڑا واقعہ اندرا گاندھی اور سنجے گاندھی کی ایمرجنسی بھی دیکھی اور 1977ء میں عوام کی بغاوت بھی دیکھی اور اپنے ملک کی سب سے با اثر وزیر اعظم اندراگاندھی کو گرفتار ہونے کا ڈرامہ بھی دیکھا اور سنجے گاندھی سے عوام کی نفرت بھی دیکھی،  غرض کہ وہ سب دیکھا اور پڑھا جو کچھ ملک اور اس کے ہر صوبہ میں ہوا،  لیکن جو کچھ دہلی میں دیکھنے کو مل رہا ہے وہ کہیں نہیں ہے اور کہیں دیکھا،  2013ء میں اچانک شری انا ہزارے کے ایک ترجمان اروند کجریوال نے منٹوں میں فیصلہ کیا اور ایک پارٹی بنالی،  ملک میں پارٹی بنانا جتنا آسان ہے اتنا آسان پان کی دوکان بنانا بھی نہیں ہے،  لیکن کجریوال نے جو پارٹی بنائی وہ کانگریس کے مقابلہ کے لیے بنائی اور اس کا نام عام آدمی پارٹی رکھا اور چونکانے والی بات یہ ہے کہ انتخابی نشان جھاڑو رکھا۔

        چودھری چرن سنگھ کانگریس کے بہت پرانے لیڈر تھے،  انھوں نے جب کئی صوبوں کے ناراض وزرائے اعلیٰ کو ساتھ لے کر بھارتیہ کرانتی دل بنایا تھا تو اس کا نشان ہل دھر کسان رکھوایا تھا،  کسی نے ایک دن انتخابی نشان کی تعریف کی تو انھوں نے بتایا تھا کہ کانگریس کا سب سے پہلا چنائو نشان دو بیلوں کی جوڑی بھی ان کی ہی تجویز پر مانگا تھا،  اس کی وجہ یہ کہ وہ ایک بڑے کسان کے بیٹے تھے اور وکیل تھے،  اور اس وجہ سے وہ کسان لیڈر بن گئے تھے۔

        اروند کجریوال نے ایک دم الیکشن میں اترنے کا فیصلہ کیا اور یہ جانتے ہوئے کہ ان کو ۱۵ برس سے دہلی میں حکومت کرنے والی شیلا دکشت کا مقابلہ کرنا پڑے گا،  اور مرکزی حکومت کی پوری طاقت ان کے ساتھ ہوگی،  اور یہ بھی معلوم تھا کہ ملک کی دوسری سب سے بڑی پارٹی بی جے پی سے بھی مقابلہ کرنا پڑے گا،  وہ بے خوف میدان میں اتر گئے،  دہلی میں ہر کسی کو معلوم تھا کہ ان کے پاس پیسے نہیں ہیں،  وہ ایک ایماندار بڑے افسر تھے،  اور اب بھی ایمانداری ہی ان کا سرمایہ ہے،  بہرحال انھوں نے الیکشن لڑا اور وہ اس پوزیشن میں آگئے کہ کانگریس کی مشہور وزیر اعلیٰ شیلا دکشت کو انھوں نے ہرایا اور ہاری ہوئی کانگریس کی حمایت سے ہی انھوں نے حکومت بنالی،  ہر کوئی جانتا ہے کہ ساجھے کی ہانڈی چاہے جتنی دیر کے بعدپھوٹے مگر پھوٹتی ضرور ہے،  اس وجہ سے کجریوال حکومت بھی ختم ہوگئی،  اور 2014 میں ایک بہت بڑا انقلاب آیاکہ بی جے پی 280سیٹیں جیت کر اور کانگریس کو 44 پر سمیٹ کر فرعون جیسی طاقت ہوگئی۔

        ایک سال کے بعد ہی ہریانہ اور پھر مہاراشٹر کے الیکشن آگئے،  وزیر اعظم نریندر مودی نے ان دونوں کو اتنے ہی جوش سے لڑا جیسے لوک سبھا کا الیکشن لڑا تھا،  ان میں ہریانہ تو ان کے لیے اچھا رہا اور مہاراشٹر کو انھوں نے شیو سینا کے ساتھ مل کر قابو میں کرلیا اس کے بعد دہلی کا الیکشن آیا جسے کانگریس نے بھی پوری طاقت سے اور بی جے پی نے یہ سوچ کر لڑا کہ وہ اروند کجریوال کو اس بار بری طرح ہرائے گی کہ وہ سیاست سے توبہ کرلے گی،  اور ایک فتنہ جو کھڑا ہورہا ہے اس سے ہمیشہ کے لیے نجات مل جائے گی،  بی جے پی نے پنجات کے ساتھ اکالی دل کی بھی حمایت لے لی،  کیوں کہ دہلی میں سکھ بہت ہیں۔

        اروند کجریوال نے بھی موت اور زندگی کا الیکشن سمجھ کر دونوں کا مقابلہ کیا اور ان کی پارٹی نے بس ایک نعرہ دیا کہ ’’پانچ سال کجریوال‘‘ اور جب نتیجہ آیا تو بی جے پی اور کانگریس دونوں کا حال یہ تھا کہ  ع  ڈوبنے جائوں تو دریا مجھے پایاب ملے۔

        ہوسکتا ہے کہ اور بھی کسی ریاست میں آزادی کے فوراً بعد کبھی ایسا ہوا ہو کہ کانگریس جو 15 برس سے حکومت کررہی تھی اسے ایک سیٹ بھی نہ ملے،  اور جو لوک سبھامیں خود 280 سیٹ لے کر آئے اور کانگریس کو 44 پر روک دے اسے دہلی میں ڈھائی سیٹ ملے،  اور اکالی دل کو آدھی۔

        اس میں کوئی شک نہیں کہ اندراگاندھی نے بھی ملک کے صوبوں میں دوسری پارٹیوں کی حکومتوں کے ساتھ سوتیلا برتائو کیا اور اس کے بعد راجیو گاندھی اور نرسمہا رائو نے بھی عالی ظرفی کا ثبوت نہیں دیا لیکن بی جے پی یعنی نریندر مودی صاحب جو سلوک اروند کجریوال کے ساتھ کررہے ہیں اور ان کے وزیروں اور ا ن کے منتخب نمائندوں کے ساتھ کررہے ہیں اسے کوئی ایسا نام نہیں دیا جاسکتا جو چھوٹے موٹے سرپنچ کو بھی دیا جاتا ہو،  اروند کجریوال نے بھی سیاسی پارٹی بنائی ہے، انھوں نے بھی تعلیم یافتہ شریف زادوں کو ٹکٹ دیے ہیں،  دہلی کے لوگ بتاتے ہیں کہ عام آدمی پارٹی کو زیادہ تر ووٹ ان لوگوں کے ملے ہیں جو پہلے کانگریس کو دیا کرتے تھے،  بی جے پی کے اہم لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ دہلی میں ہمارے جتنے ووٹ ہیں وہ سب ہمیں ملے،  جو امیدوار جیتے ہیں وہ بھی کسی صوبہ کے ممبران اسمبلی سے کم نہیں،  لیکن ہر دن کوئی وزیر گرفتار ہورہا ہے اور ہر دن کوئی ایم ایل اے کسی اتنے گھٹیا الزام میں جس کا کوئی ایم ایل اے تصور بھی نہیں کرسکتا۔

        ملک میں ہزاروں ایم ایل اے ہیں جن میں ایک سے بڑھ کر ایک ہیں لیکن کسی کی شکایت نہیں سنی،  یہ فخر صرف دہلی کو حاصل ہے کہ اس کی اسمبلی کے تمام ممبر عورتوں سے بدتمیزی کرتے ہیں،  جوان لڑکیوں کو چھیڑتے ہیں،  جن کے پاس جعلی ڈگریاں ہیں،  جو اپنی بیویوں کو مارتے ہیں اور جو قرآن کی بے حرمتی کرتے ہیں،  شری مودی بھی جانتے ہیں کہ ملک میں صرف ایک محکمہ پولیس کا ایسا ہے جن کے بڑے افسروں اور چھوٹے سپاہیوں سے ہر شریف اور غیر شریف نفرت کرتا ہے،  بی جے پی نے ہر الیکشن میں وعدہ کیا تھا کہ وہ دہلی کو مکمل ریاست کا درجہ دیں گے،  اب ان کی حکومت کو دوسال ہوگئے وہ اپنے کو جھوٹا،  دھوکہ باز اور فریبی سننا برداشت کررہے ہیں اور اس وجہ سے دہلی کے بعد بہار میں،  بنگال میں،  تامل ناڈو میں اور کیرالا میں ذلیل ہوچکے ہیں،  اتراکھنڈ اور اترانچل میں اپنا تھوکا چاٹ چکے ہیں،  مگردہلی کو مکمل ریاست اس لیے نہیں بناتے کہ وہ دہلی پولیس کے تھانہ دار بنے رہنا اور کجریوال کے ہر ایم ایل اے کو اتنا پریشان کرنا چاہتے ہیں کہ آئندہ کوئی کجریوال کے ٹکٹ سے لڑنے کا نام نہ لے،  اس کا نتیجہ یہ بھی ہوسکتا ہے جو وہ چاہتے ہیں اور وہ بھی ہوسکتا ہے جو ملک کے 9 الیکشنوں میں سے 6 میں ہوا اور اب کجریوال کے اس جملہ کو کہ مودی مجھے مروا بھی سکتے ہیں،  ملک نے سنجیدگی سے لیا ہے،  اب یہ ان کے سوچنے کی بات ہے،  جنھیں ابھی یوپی،  پنجاب اور گجرات کے الیکشن بھی لڑنے ہیں،  کہ عوام تک ان کی کیسی تصویر پہنچ رہی ہے،  دہلی جہاں مودی وزیر اعظم خود بھی تشریف فرما ہیں،  ایسا شہر ہے کہ اگر کوئی نوٹوں کی گڈیاں لے کر بیٹھ جائے تو مودی کے ہر وزیر اور ہر ایم پی کے بارے میں جیسا چاہے الزام لگواسکتا ہے،  جس دہلی میں دو چار ہزار میں رات بھر کے لیے حسین اور تعلیم یافتہ لڑکیاں ملتی ہوں وہاں اس ہتھیار کو کسی کے خلاف سوچ سمجھ کر استعمال کرنا چاہیے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔