اے ایم یو کے اقلیتی کردارکا نفاذ

مسٹر ظفرسریش والاکا مشورہ قابل تائید مگر۔ ۔ ۔ ۔ ؟

ڈاکٹر اسلم جاوید

کیا آر ایس ایس یا وی ایچ پی مسلمانوں کیلئے قابل اعتبار ہوسکتی ہے۔ کیا فرقہ پرستی کیلئے کھلم کھلا تحریک چلانے والی اورہندو نوجوانوں کو جنگی تربیت (Armed Training) دینے والی سنگھ کی ذیلی تنظیموں کی کارگزاریوں کو کھلی آ نکھوں سے دیکھنے والی دنیا یہ قبول کرے گی کہ اقلیتوں کے تعلق سے فسطائی طاقتوں کا نرم لہجہ سچائی اور اخلاص کا آ ئینہ دار ہوسکتا ہے یا اس کی نرم دم گفتگو دام فرنگ کی طرح کسی نئی مصیبت کے آغاز کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔ ہندو انتہا پسند قوتوں کے تعلق سے یہ سوال اس وقت اور زیادہ اہم ہوگیا ہے کیوں کہ مرکز میں برسراقتدار بی جے پی اسی سنگھی تنظیم کا ایک پالیٹیکل گوشہ ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ اس حوالے سے یہ تشویش لاحق ہونا فطری بات ہے کہ جب بی جے پی سنگھ کا سیاسی ’’ونگ‘‘ ہے تو پارٹی اور حکومت اس کے احکام وہدایات پر عمل کرنے کی پابند ضرور ہوگی۔ اگر یہ ممکن نہ ہو تواتنا تو لازماً ہوگا کہ اس کے مشوروں اور آراء کو مرکزی حکومت میں اہمیت دی جا تی ہو گی۔ یہ ایک فطری چیز ہے کہ جوبھی ’شخص یا ادارہ ‘ جس کے ماتحت ہوگا اس میں اس کے خیالات و واشارات  پرخاص توجہ دی جاتی ہوگی۔  بہر حال ہم تمہید باندھنے میں طویل وقت ضا ئع کئے بغیر قا رئین کرام کو مقصد تحریر پر لانا ناگزیر سمجھتے ہیں۔ ہم نے تحریر کا آغاز کرتے ہوئے یہ سوال اٹھا یا ہے کہ ’کیا فرقہ پرست طاقتوں اورآر ایس ایس کی یقین دہانیوں پر بھروسہ کیا جاسکتا؟‘

یہ سوال اس لئے پیدا ہوا ہے کہ وزیر اعظم کے معتمد خاص مسٹرظفر سریش والا نے گزشتہ روز دارالحکومت دہلی میں ایک تقریب میں شرکت کے بعد نامہ نگاروں کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردارکے معاملے پر مسلم کمیونٹی کے نمائندوں نے قومی جمہوری محاذ(این ڈی اے ) حکومت کے ساتھ کبھی رابطہ کرنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ حالاں کہ مسٹر ظفر سریش والا سے کسی نے بھی یہ نہیں پوچھا کہ جو حکومت منمانے طریقے سے مسلمانوں کے حقوق اور ان کے اداروں پر قینچی چلانے کے منصوبے مرتب کررہی ہو، اس حکومت سے یہ توقع  کیسے کی جائے گیکہ اگر مسلم کمیونٹی حکومت سے روجوع کرے تو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کا مسئلہ حل ہوجائے گا۔ یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتاہے اگر موجودہ حکومت سچ مچ اقلیتوں کیلئے اپنے اندر نرم گوشہ رکھتی ہے تو اسے کون سی مجبوری دامن گیر تھی کہ این ڈی اے کی جانب سے اٹارنی جنرل مکل روہتگی کو حکم دیا گیا کہ وہ سپریم کورٹ سے سابقہ حکومت کے ذریعہ داخل کی گئی اس درخواست کو واپس لے لیں جس میں مسلم یو نیورسٹی کے اقلیتی کردار کو بحال کرنے کی گزارش کی گئی ہے۔  کیا اس سچائی سے انکار کی گنجائش ہے کہ جب سے این ڈی اے مرکزمیں برسراقتدار آیا ہے اسی وقت سے نت نئے مسائل کھڑے کرنے اور اقلیتوں کو نفسیاتی طور پر ہراساں کرنے کی کوششیں تیز ہو گئی ہیں۔ فرقہ پرست عناصر نے مختلف النوع مسائل کھڑے کر کے اور گڑے مْردے اْکھاڑ کربھاجپائی لیڈروں کے درمیان ملک کی فضا کو آلودہ کرنے میں ایک دوسرے سے بازی مارلینے کا مقابلہ گرم ہوگیاہے۔ اس معاملے میں سب سے نمایا ں کردار بی جے پی کے بے مہار رکن پار لیمنٹ سبرا منیم سوامی کا ہے۔ جنہوں نے انتہاپسند قوتوں کو مشورہ دیا کہ وہ  مسلمانوں کے درمیان موجود مسلکی اختلافات کو ہوادینے کا کام کریں یہ قوم آ پس میں ہی الجھ کر کمزور اور بے دست و پا ہوجائے گی۔ مسلمانوں کو ان کے ترقیاتی اہداف سے روکنے کیلئے تعلیمی اداروں پر بھی مخاصمانہ آ نکھیں گاڑ دی گئیں۔ اس کا ثبوت علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار معاملہ ہے۔  مسلمانوں کے اس عہد ساز ادارہ سے انہیں دستبردار کرنے کیلئے اٹارنی جنرل کو حکم دیا گیا کہ وہ سپریم کورٹ میں داخل عرضی واپس لے لیں تاکہ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردارکو ہمیشہ کیلئے درگور کردیا جائے۔ اسی زمانے سے مسلم دانشوروں اور مخلص قومی نمائندوں میں اس بات پر بحث اور تشویش گہری ہوتی جا رہی کہ حکومت سے مسلمانان ہند کس طرح کسی بھلائی کی توقع کریں!

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار سے متعلق مرکزی حکومت کے موقف نے یونیورسٹی سے وابستہ دانشوروں کے علاوہ مسلم طبقے کو بھی تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔  مرکزی حکومت کے ذریعے اپنے نظریے اور ارادے کے اظہار پر ایک طرف سیاسی ، سماجی اور تعلیمی حلقوں میں بحث اسی زمانے سے جاریہیتو دوسری طرف علیگ برادری بھی سخت ردِّعمل کا اظہارمسلسل کرتی آرہی ہے۔ مودی حکومت کے ذریعے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کو ختم کرنے کی کوشش کے خلاف علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اولڈ بوائز، مسلم اور غیر مسلم لیڈروں نے بھی قانونی جنگ کا اعلان کیا تھا۔ تجزیہ نگاروں نے اس معاملہ کو میڈیا میں آ نے کے بعد کہاتھا کہ اب نریندر مودی کا سامنا مسلمانوں کے تعلیم یافتہ طبقے سے ہوگا ، جس کی بازگشت پوری دنیا میں سنائی دے گی۔

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس متنازع موضوع کو  کس نے نیا رنگ وروپ دیا۔ کیا اس کا الزام کسی اقلیتی لیڈر پر ڈالا جاسکتا ہے۔ اس کا جواب بی جے پی سرکار کو آج نہیں تو کل ضرور دینا ہوگا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا ایشو اچھالنے کے پیچھے کیا مقاصد کارفرما ہوسکتے ہیں اس کی حقیقت سے تو بی جے پی کے ذمہ دارن ہی بہتر طور پر واقف ہوں گے۔ مگرعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے معاملے میں گزشتہ سات مہینے سے مسلمانوں کی انرجی غیر ضروری طور پر صرف ہورہی ہے۔ اگر یہ اقدام نہیں کیا جاتا تو مسلم دانشوران اپنی یہی انرجی سماج کے دیگر فلاحی و ترقیاتی منصوبوں میں لگا سکتے تھے۔ واضح رہے کہ  مرکزی حکومت نے اپنا موقف تبدیل کرتے ہوئے بروز پیر،11 جنوری2016 کو سپریم کورٹ میں یہ کہا تھا کہ اس کے نزدیک مسلم یونیورسٹی اقلیتی ادارہ نہیں ہے اور یہ کہ الٰہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سابقہ یو پی اے حکومت نے جو اپیل دایَرکی تھی اس کو واپس لے گی ،جس میں یہ تسلیم کیا گیا تھا   کہ مسلم یونیورسٹی ایکٹ 1981 ء کے بہ موجب اقلیتی ادارہ ہے۔ ریاست اتر پردیش کی بی جے پی یونٹ بھی مرکزی حکومت کے موقف کی تائید کرتی نظر آرہی ہے۔ بی جے پی کے ریاستی لیڈروجے بہادر پاٹھک ریاست میں کئی بار علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کی مخالفت کرتے ر ہے ہیں۔  کیا اقلیت مخا لف ان  سرگر میوں کو دیکھ کر بھی کوئی امید کی جانی چاہئے۔ جو لوگ اس وقت مسلمانوں کو بی جے پی حکومت سے رجوع کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں وہ شاید یہ فراموش کررہے ہیں کہ اسی دوسالہ دور اقتدارمیں اے ایم یو سمیت ،آیور ویدک اینڈیونانی طبیہ کالج قرول باغ ،جا معہ ملیہ اسلامیہ اور طب یونانی کے فروغ سے متعلق گزارشات رکھنے کیلئے مسلم نمائندوں نے پی ایم او کے درجنوں چکر کاٹے ہیں۔ مگر وہاں موجود افسران اوربیوروکریٹس لفظ مسلمان سن کر ہی منہ ٹیڑھا کرلیتے ہیں۔ کبھی کبھار یہ جواب ضرور ملا ہے کہ آپ کو وقت متعین کر کے خبر کردی جائے گی۔ مگرآج تک  پی ایم او سے کوئی جواب نہیں ملا۔ لہذا یہ بات صرف سیاسی معلوم ہوتی ہے کہ مسلمانوں کو اپنے مسائل لے حکومت سے ملنا چاہئے۔ جب حکومت کا راجہ مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں سے ملنا ہی نہیں چاہتا تو پھر یہ توقع کیسے کی جائے کہ اس دربار سے اقلیتوں کی بہبود کے لئے راہیں ہموار ہوسکیں گی۔  مسٹر سریش والا نے  کہاکہ ہم لوگوں نے حکومت کے ساتھ بات چیت کرنے کے بجائے یہ تسلیم کرلیا کہ حکومت تو مسلما نو ں کے خلاف محاذ آرائی کررہی ہے۔  اس لئے ہمیں دشمنی کا سلوک ہی روا رکھنا ہے ، یہ کبھی نہیں سوچا کہ بات چیت کی راہ اپنانے سے حالات بدل بھی سکتے ہیں۔  مگر حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں نے اپنے دردو کرب اور مسائل کو لے کر درجنوں بار پی ایم او کے چکر لگا ئے ہیں۔ اس کا ایک گواہ راقم الحروف بھی ہے۔ مگر وہاں تو کوئی سیدھے منہ بات کرنے راضی نہیں ہے۔ محترم ظفر سریش والا نے کہا ہے کہ انہوں نے آر ایس ایس اور وی ایچ سے بھی اس معاملے پر بات کی ہے،اگر واقعی یہ بات صحیح ہے تواتنا  کہا جاسکتا ہے کہ مسلمانوں کے قوت ایمانی اورفراست کے بارے ہادی عالمؐ نے فرما یا ہے۔ ’لم یلدغ المومن من جحر مرتین‘ یعنی  مومن ایک بل سے دوبار نہیں ڈساجاتا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔