وادیٔ کشمیر آتش زیرِ پا

ابراہیم جمال بٹ

’’قاتل قتل سے بے خبر ہے، اسے نہیں معلوم کہ قتل کیوں کیا، کیا وجہ تھی کہ میں ایک عام انسان سے نکل کر قاتل کی صفوں میں شامل ہو گیا۔ ‘‘ یہ ایک ایسی بات ہے جس میں صد فیصد صداقت پائی جاتی ہے۔ وادی کشمیر میں ہو رہے ظلم وجبر کا دور دورہ ہے۔ کہیں پر ہا ہا مچی ہوئی ہے تو کہیں ہو ہو کا عالم ہے۔ اس سب کی اصل وجہ کیا ہے، کسی کو معلوم نہیں،  جو قتل کیا گیا اسے یہ خبر ہی نہیں کہ اس کا قتل کیوں ہوا، جس نے پولیس اور سی آر پی کی کا لبادہ اوڑھ کر لوگوں پر بندوق کے دہانے کھول کر انہیں بے دریغ قتل کیا،  انہیں یہ اندازہ ہی نہیں کہ وہ کیوں قانون ِ انسانیت کے باغی بنے ہیں اور اگر انہیں انسانی جان کی قدر وقیمت کا اندازہ ہوتا تو وہ لوگوں کو خون میں لت پت نہ کرتے۔

 8 جولائی 2016ء جب لوگ عید کا تیسرا دن منانے میں محو تھے، سب اپنی اپنی خوشی اور معلوماتِ زندگی میں مست ومحوتھے، ایک دوسرے کے ہاں مبارک بادی دینے میں مشغول تھے کہ یک بہ یک شام کے وقت ایک ایسی خبر منظر عام پر آئی، جس سے اہل کشمیر کے دل دہل اُٹھے۔ خبر یہ تھی کہ معروف جوان سال حزب کمانڈر برہان مظفر وانی سمیت دو عسکریت پسند ایک تحقیق طلب جھڑپ میں مارے گئے۔ یہ وہی نوجوان ہیں جنہیں حکومت برسوں سے ڈھونڈ رہی تھی، جو بنا نقاب کے گھوم پھر رہے تھے اور عسکری محاذ پر سرگرم تھے۔ برسوں سے انہیں فوج اور نیم فوجی تلاش کر رہے تھے۔ اسی تلاش اور تعاقب کا نتیجہ آخر کار ۸؍ جولائی کو نکلا اور یہ تین عسکریت پسند نوجوان جان بحق کئے گئے۔ بات یہی پر ختم نہیں ہوئی بلکہ پلک جھپکتے ہی حالات بگڑنے کی شروعات اسی ایک واقعہ سے ہوئی۔ ادھر یہ تین نوجوان حیات ِ جاوداں پا گئے،  اُدھر وادیٔ کشمیر میں اس واقعے کے خلاف احتجاج کر رہے سوگوار نوجوانوں پر بندوق کی نالیاں کھول دی گئیں،  جن سے سینکڑوں زخمی اور کئی ایک حیاتِ ابدی کی نیند سو گئے۔ حالات بگڑتے بگڑتے نوبت یہاں تک پہنچی کہ پوری وادیٔ کشمیر کو فوجی چھاؤنی اور جنگ گاہ میں تبدیل کر دیا گیا۔ ہر طرف فوجی اور نیم فوجی دستے پھیلا دئے گئے ہیں،  کرفیو اور بندشوں کا نفاذ جاری ہے اور اب تک پچاس سے زائد لوگوں کی جانیں چلی گئی ہیں ۔ احتجاج کر رہے لوگوں پر پیلٹ اور گولیوں کا راست استعمال کیا گیا، جس کی وجہ سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ ہسپتالوں میں زخمی ہو کر پڑے ہوئے ہیں ۔ ان کاکوئی پرسان حال نہیں ہوتا…اگر شفاخانے میڈیکل ایمر جنسی کا اعلان نہ کر تے اور کشمیر میں چل رہے کچھ رفاعی ادارے اور دینی تنظیمیں آگے بڑھ کر ان ہسپتالوں میں رفاعی اور فلاحی کام کا آغاز نہ کر تے۔ ڈاکٹروں،  نیم طبی عملے اور دینی انجمنوں سمیت این جی اوز ان ہسپتالوں میں زخمی پڑ ے لوگوں اور تیمار ادروں کو اپنی بے لوث خدمات سے مسیحا ثابت ہو رہے ہیں،  ورنہ جاں بحق ہو نے والوں کی تعداد نہ جانے کس ہند سے تک پہنچ گئی ہوتی۔ دریں اثناء ایمبولنسوں پر وردی پوشوں کے حملوں،  کرفیو اور نقل وحرکت پر پابندیوں کی وجہ سے پوری زندگی مفلوج ہے۔ خدا انسانیت کے بہی خواہ ان سب نڈر و بے خوف انسان دوست بھائیوں کا ان خدمات کا بہتر ین ثمرہ دے اورا نہیں مزید کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

بہر حال جنگی صورت حال کا سامنا اب بھی وادی کشمیر کو ہر اعتبار سے ہے۔ اس صورت میں ابھی تک کوئی بھی کمی نہیں آرہی ہے۔ ہر طرف سے ظلم کے خلاف عوام کی ایک ہی آواز ہیں ۔ ادھر ہڑتال کی کال تو اُدھر کرفیو کا نفاذ جاری ہے۔ حا لات اس قدر ناقابل ِ بیان ہیں کہ ا س بار ہندوستان بھر اور دیار مغرب میں اہل کشمیر کے ساتھا ظہار یکجہتی کے جلسے جلوس نکل رہے ہیں ۔ پاکستانی حکومت نے بھی قومی سطح پر پاکستان بھر میں 20؍ جولائی کے روز ’’یوم سیاہ‘‘ کے طور پر منایا۔ بھارت کی مرکزی حکومت کی جانب صرف ایک ہی بات دہرائی جا رہی ہے کہ ’’کشمیر بھارت کا تاج ہے، اور اس تاج کو کسی بھی حال میں سر سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ کشمیر کی صورت حال کو بگاڑنے میں اگر کسی کا اہم کردار ہے تو وہ بھارت کا پڑوسی ملک پاکستان ہے۔ کیوں کہ پاکستان ہمیں غیر مستحکم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ‘‘ یہی باتیں دلی میں اور سری نگر میں دہر اکر ہوم منسٹر راجناتھ سنگھ اپنا دوش اوروں کو دیتے ہیں مگران سے حقائق نہیں بدل سکتے۔ فرض کریں کہ پاکستان ہی کشمیر کی بدامنی کے پیچھے ہیں تو کیا کشمیر پولیس اور سی آرپی ایف پاکستان کے کہے پر آتش وآہن کی بارشیں کر تے ہیں ؟ کبھی یہ بے پر کی اُڑائی جاتی ہے کہ امن کے حالات بحال ہو جائیں تو بات کی جا سکتی ہے۔ ارے بھئی حالات سدھر گئے تو بات کاہے کی؟ حالات ٹھیک کر نے کے لئے ہی تو بات کی جانی چاہیے۔ مرکزکی جانب سے ایسے بیانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ بھارت دیرینہ مسئلہ کے پائیدار حل کے بجائے اس کو لٹکائے رکھنا چاہتاہے تاکہ ظلم وجبر کی داستان یوں ہی چلتی رہے، لوگ مرتے رہیں اور وہ تماشائی بن کر اپنی سیاست لاشوں پرکرتا رہے۔ مبصرین کہتے ہیں کہ بھارت کی ترقی میں جو بات سب سے زیادہ رکاوٹ کی باعث بنی ہوئی ہے وہ مسئلہ کشمیر کا لا ینحل معمہ ہے۔ کیوں کہ ملک کازر کثیر دفاعی اخراجات کی صورت میں بھارت کو یہ’’مصنوعی تاج‘‘ بچانے میں خرچ کر نا پڑتا ہے اور یہ وردی پوشوں کے لئے سونے کی کان بنا ہو اہے۔ تاریخی اور جغرافیائی طور کشمیر کبھی بھارت کا حصہ تھا اور نہ کبھی ہو سکتا  ہے، الا یہ کہ جموں وکشمیر کے لوگ اسے دل وجان سے تسلیم کریں ۔ جموں وکشمیر کے عوام ہمیشہ کشمیرکے پُرامن حل کے لئے کوشاں رہے لیکن مرکز کی ہٹ دھر می سے بات کبھی نہ بنی۔ یہاں تک کہ یہاں عسکری دور کا آغاز ہواجس کا سلسلہ آج بھی برابر جاری ہے۔ عسکری قیادت بھی پرامن حل کو مقدم جان کر مسئلہ کشمیرکا مذاکراتی حل چاہتی ہے کیونکہ جنگ وجدل سے مسائل اُلجھ جاتے ہیں نہ کہ سلجھ جاتے ہیں مگر اس کا جواب دلی نے صرف ماردھاڑ اور خون خرابے سے دے کر اس مثبت سوچ کو ’’دھرم یدھ‘‘ بنا یا۔ حریت نواز وں کے ساتھ ساتھ یہاں کے لوگوں نے سڑکوں پر نکل کر بار بار مطالبہ کیا کہ کشمیر کا پُرامن حل دو، دنیا کی باقی مسلم و غیر مسلم اقوام سمیت اقوام متحدہ نے حتی المقدور د لی کو فہمائش کی کہ کشمیر حل کشمیری عوام کی مرضی ا ور خواہش کے تابع رکھو لیکن بھارت کی سرکار نے اپنی روایتی ہٹ دھرمی سے ان معقول ومنصفانہ آوازوں کی ہمیشہ ہمیشہ اَن سنی کردی، اور آج بھی یہی کر رہاہے،  صرف اس فرق کے ساتھ کہ بیچ میں کمرشل بریک کی طرح کبھی پیرس جاکر مودی نواز شریف سے سرگوشیاں کر تے ہیں اور کبھی اچانک ان کے گھر جاکر برتھ ڈے کیک کاٹتے ہیں ۔ بہر حال اگر مسئلہ کشمیر کا پُر امن حل نکا لا جاتا تو پاک بھارت کے ساتھ ساتھ پورے برصغیر میں بہت حد تک امن اور ترقی کا ماحول پیدا ہو سکتا تھا۔

مسئلہ کشمیر برصغیر کا ایک ایسا مسئلہ ہے کہ جب تک یہ حل نہ ہو جائے پورے برصغیر میں امن کا ماحول پیدا ہونا ناممکن ہے۔ وادیٔ کشمیر کے لوگ آج بھی اس مسئلہ کو پُر امن طور سے حل کرانے کے منتظر ہیں لیکن بھارت کی ہٹ دھرمی اور انانیت برقرار رہے تو وہی کچھ ہوگا جو آج تک وادیٔ کشمیرا ور خطہ ٔ پیر پنچال و خطہ چناب میں ایک لاکھ سے زائد جانوں کا خون ناحق بہا کر ہوا۔ مسئلہ کو حل کرنے کی طرف دلی کی جانب سے کوئی مثبت پہل نہیں کی جاتی، اگرچہ چند ایک مرتبہ ہندوپاک مذاکرات ہوتے رہے لیکن ان کا کوئی پھل آج تک نہ نکل سکا، کیوں کہ ان مذاکرات کا مقصد حل نکالنا نہیں بلکہ وقت گزاری تھا۔ جنرل مشرف نے آوٹ آف بوکس حل کا نسخہ بھی دیا لیکن دلی نے اپنی ہٹ دھر می نہ چھوڑی مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ عالمی برادری کو اپنے اصل عزائم کے حوالے سے دھوکے میں رکھتی جارہی ہے۔ یوں انڈو پاک مذاکرات کا سلسلہ آج تک ۱۳۲؍سے زائد مرتبہ بے معنی ہو کر رہ گئے اور آج بھی مسئلہ جوں کا توں برقرار ہے۔ اسی بے نیازانہ عمل کا ردعمل یہاں کی عسکری تحریک کی صوررت میں نمودار ہوا۔ جب پُرامن طور حل کی راہیں مسدود کی جائیں تو لوگ ’’تنگ آمد بہ جنگ آمد‘‘ کے مصداق بر ہان جیسے نونہال تلوار اور بندوق اُٹھالیتے ہیں کہ جن ہاتھوں میں قلم اور قرطاس ہونا چاہئے وہ اسلحہ چلا نے پر مجبور کئے جاتے ہیں ۔ اسے جذباتیت نہیں بلکہ مجبوری کہا جا ئے گا۔ جہاں تک وادی کشمیر کے لوگوں کا تعلق ہے وہ پُر امن رہنا پسند کرتے ہیں،  آج کی تاریخ میں امن شانتی ان کی سب سے بڑی ضرورت ہے لیکن جب ان کی راہ میں رُکاوٹیں ڈال جائیں اور خار زار بوئے جائیں تو اس طرز عمل کے وہی نتائج نکلتے ہیں جو آج کل ہم کشمیر کے طول وعرض میں دیکھ رہے ہیں ۔ کوئی بھی زندہ قوم یہ برداشت نہیں کر سکتی کہ کوئی ان کی خوشیاں اور ان کا تشخص چھین لے اور جب اس نوع صورت حال سے ایسی قوم کا سابقہ پڑتا ہے تو وہ عزت وآبرو پانے کے لئے کچھ بھی ا چھا برا کر گزرتی ہے۔ کشمیر کی عسکریت کا صحیح طور سے تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ’’تنگ آمد بہ جنگ آمد‘‘ کے مصداق یہ عمل لوگوں کی دلی خواہش نہیں بلکہ یہ عمل ضرورت بنائی گئی ہے۔ اسی صورت حال میں برہان جیسے فعال و ایثار پیشہ اورغیرت مندکردار جنم پاتے رہے ہیں اور رہیں گے جن کے لئے’’ کرویامرو ‘‘ ہی فلسفہ ٔ حیات بنتاہے۔

2016ء کے شروع ہوتے ہی وادی کشمیر میں عسکری کاروائیوں میں بہت حد تک اضافہ ہوا، آئے روز چھوٹے موٹے حملوں کا سلسلہ پھر سے شروع ہو گیا۔ عسکریت پسند اگرچہ برابر ان ۲۶؍برسوں میں برسرپیکار رہے لیکن چند برسوں سے انہوں نے عملاً بہت حد تک پُرامن کشمیر حل کی ھامی بھر لی، لیکن اس موقع کا بھارت کی مرکزی سرکارنے اپنی ہٹ دھرمی کے باعث فائدہ ہی نہ اٹھایا، ا س لئے مابعد برہان وادی میں عسکری قوت میں اضافہ ہونے کا پو را پواراحتمال ہے۔ اس کا ذمہ دار کون ہو گا، اس کی توضیح وتشریح کرنے کی ضرورت نہیں،  وہ سب عیاں ہے۔ بھارت سرکار کی یہ رٹ ’’کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ‘‘ اس کی ہٹ دھرمی ہے اور اس پر جب تک مر کز قائم رہتا ہے یہاں وادی کشمیر میں امن بحال ہونا ناممکن ہے اور یہاں امن بحال نہ ہونابرصغیر کے لیے جوہری خطرے کو کم نہیں ہو نے دے گا۔ اس بنا پر لگتا ہے کہ بد امنی ایسی تلوار ہے جو جتنی مدت تک بے نیام رہے گی، اس کی تیز دھار سے لوگوں کا خون بہتا رہے گا۔ اس بے نیام تلوار کو نیام میں رکھنے کے لیے بھارت کے علاوہ برصغیر کے دیگر ممالک اور اعلمی برادری کو پیش پیش رہنا ہوگا …! انہیں تنازعہ ٔ کشمیر کو ختم کرنے کی کوششیں کرنی چاہیے۔ دنیااگر برصغیر اور سارک ممالک کے علاوہ دنیا بھر میں امن وامان دیکھنا چاہتی ہے تو اس کے لیے اسے مسئلہ فلسطین اور مسئلہ کشمیرکو حل کرانے کی اپنی کوششیں تیز ترکرنی چاہئے۔ تب جاکر وہ چین واطمینان کی سانس لے سکے گی۔

بہر حال آج پھر سے ریاست جموں وکشمیر کے لوگ سڑکوں پر نکل آچکے ہیں ۔ پھر سے مار دھاڑ،  ہائے وائے،  ہڑتال اور کرفیو کا مطلب یہ ہے کہ بار بار دبانے کے باوجود کشمیر کاز دب سکتا ہے نہ یہاں کے حالات سدھر سکتے ہیں ۔ اب جب کہ یہ بات پوری دنیا کے ساتھ ساتھ حکومتِ ہند پر واضح ہو چکی ہے کہ یہاں کے لوگ آزادی چاہتے ہیں توا سے زمینی حقائق تسلیم کر کے کشمیر حل کا پروسس شروع کر نے میں تاخیر نہیں کر نی چاہیے۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ ہر طرف آزادی کے حق میں نعرے گونج رہے ہیں ۔ اپنے پیدائشی سیاسی حق کو حاصل کرنے کے لیے یہاں کے نوجوان اپنی جانوں تک کی قربانی دے رہے ہیں ۔ اب لامحالہ بھارت کی مرکزی سرکار کو اس مسئلے کے تئیں مثبت سوچ اختیار کرتے ہوئے اس کاحل لے کرسامنے آنا ہو گا اور جب تک یہ اس سے گریز پا رہے گی تب تک کشمیر بدامنی اور بے چینی کا شکار ہوتا رہے گا۔ جو صاحبان ِاقتدار ہٹ دھرمی سے مسائل کا خاتمہ چاہتے ہیں اور ظلم وجبر سے امن کے خواب دیکھ رہے ہیں،  وہ اصل میں اپنے آپ کو ہی دھوکا دے کر اپنی نااہلی کا ثبوت دے رہے ہیں ۔ امن ہٹ دھرمی سے نہیں بلکہ مسائل کا پائیدار حل نکالنے سے ہی قائم ہو سکتا ہے۔ بہتری اسی میں ہے کہ اس سے قبل انسانیت کا خون بہانے والے خود اس خون میں لت پت ہو جائیں بھارت کو ایک تازہ دم سوچ لے کر اس تنازعے کا قابل قبول حل پر آمادہ ہونا ہو گا کیوں کہ اس تنازعے کو نپٹانے سے ہی بھارت دیس کی بقا اور جمہوریت کا دوام مشروط ہے۔ پُر امن طور سے مسئلہ حل کر کے جموں کشمیر کے ساتھ ساتھ پورے بھارت دیس کے لیے بھی ضروری ہے۔ اب یہ ذمہ دار انِ ہند پر منحصر ہے کہ وہ کیا پسند کرتے ہیں پرامن دیس یا درندگی اور حیوانیت کا ننگا ناچ…؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔