موسمی مسلمان اور ہمارا معاشرہ !

ذوالقرنین احمد

گزشتہ ایک دہائی سے یہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ مسلمان صرف مہینے اور دن کی اہمیت دیکھ کر ایک دن اچھے کام کرکے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یا پھر مختلف دنوں کی مناسبت سے تھوڑی دیر کیلئے مسلمان ہونا یاد آجاتا ہے‌۔ محرم کا مہینہ شروع ہوا شربت بنا کر بانٹ دیتے ہیں‌، چاہے موسم سردی کا کیوں نہ ہو اور اس سے بچے بیمار کیوں نہ پڑھے۔  ڈراموں سے شربت بنا کر سڑکوں محلوں میں تقسیم کر جاتی ہے، جبکہ  گھر میں بوڑھے ماں باپ کو پانی کو نہیں پوچھتے ہیں۔

رجب کا مہینہ آیا تو نظر و نیاز کے نام پر دیگیں چڑھا دی جاتی ہے، نوجوان جزبات میں آکر چندہ جما کر کے کئی کنٹلوں سے کھانا بناتے ہیں، اور کھانا والے ایسے کھاتے ہیں جیسے برسوں سے بھوکے ہیں، کوئی طریقے سے نہیں آدھا کھا کر پھینک دیتے ہیں، جھوٹا چھوڑ کر چلے جاتے ہیں، جب کہ وہی پڑوسی بھوکا سو جاتا جس پر اس کا حق ہے۔ کھانا کھلانا کوئی غلط نہیں لیکن صرف ایک ہی دن کیوں یہ سب دیکھاوا کرنے نام کمانے، اور پتہ نہیں کہا سے کون کیسی کمائی کا پیسہ دیتا ہے۔ فلاح لیڈر نے اتنے کیونٹل کھانا بنایا اور بس اس میں نام و نمود نمائش، بار بار مائک میں اعلان کرایا جاتا ہے کہ فلاح جناب کی طرف سے اہتمام کیا گیا ہے، اور لوگ حرام و حلال جانے بغیر کھانے پر بھڑ جاتے ہیں۔

اسی طرح شب معراجِ ،شب برات میں جاگنے کا رواج عام ہوگیا جس میں رات بھر ہوٹلوں کو آباد کیا جاتا ہے۔ سڑکوں پر بائیک رائیڈرز انسٹنٹ کرتے  گھومتے پھرتے ہیں جس میں کوئی اپنے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ اور اصل مقصد مفقود ہوجاتا ہے، فجر میں پھر وہی گنے چنے افراد، رات بھر سگریٹ نوشی اور چائے نوشی میں مست ہوکر عین تہجد کے وقت سو جاتے ہیں۔

رمضان آیا تو ابتداء میں کچھ روزے رکھ کر کہتے ہیں بہت دھوپ ہے نہیں جمتا اپنے سے اللہ معاف کریں، اور جو رکھنے والے ہیں وہ مسجدوں کو آرام گاہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں جہاں اے سی لگی ہو وہاں تو نشستیں محفوظ ہوجاتی ہے۔ روزہ افطار تک ہلنے کا نام نہیں لیتے، مست کولر اور پنکھے لگا کر مسجدوں میں سو جاتے ہیں نا اپنے ستر کی فکر ہوتی ہے کے کیسے سویا ہوا ہے کدھر کپڑے کولر سے اڑ رہے ہیں۔ جب کہ مسجدوں کو سجدوں سے آباد کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

کچھ نوجوان پب جی ، اور دیگر سوشل میڈیا ایپ پر روزہ گزاری کا کام کرتے ہیں۔ اور سیاستدان زور زور سے باتیں کرتے ہوئے اپنی سیاسی بصیرت کا پیغام دیتے رہتے ہیں جب کہ سالوں پارٹی لیڈر کے تلوے چاٹتے گھومنے کے بعد بھی نالیوں کے الیکشن کا ٹیکٹ بھی نہیں مل پاتا۔

روزہ کا مقصد بھوکا پیاسا رہنا نہیں ہے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے بے انتہا محبت کرتا ہے وہ کیوں بھوکا رکھنا چاہے گا، اس کا مقصد اصل یہ ہے کہ تم تقوی و پرہیزگاری اختیار کروں۔ آخرت کی زندگی کو دنیاوی خواہشات پر ترجیح دو۔ ایک ٹرینڈ بنا دیا گیا ہے مذہب کو فیشنیبل کرکے اپنے آپ کو مختلف دیکھانے کی کوشش کی جارہی ہیں۔ جیسا ماحول ملا ویسے رنگ میں رنگ جاتے ہیں۔ کیا نوجوان کیا بوڑھے اور کیا بچے کیا عورتیں، سبھی کا یہی حال ہیں جس چیز کا ٹرینڈ شروع ہوا دیوانہ وار اسکی تکمیل کیلئے تڑپتے ہیں۔  کچھ سال قبل ایک ایپ ٹک ٹاک کے نام متعارف کروائی گئی تھی۔ نوجوان لڑکے لڑکیوں نے تو بے پردہ کا بازار کھول رکھا تھا ۔میں تو کہتا ہوں طوائفیں بد دعائیں دے رہی ہوگی انہیں، جنکے کوٹھے کھالی کرا دئیے ان ماڈلوں نے، اس ایپ کی وجہ سے۔ اور کچھ تو اتنی دیندار گھرانے سے تعلق رکھتی ہے کہ با قاعدہ مکمل برقع پہن کر ڈانس کر رہی تھیں۔ وہ تو اچھا ہوا کے اب اس ایپ کو پلے اسٹور سے ہٹا دیا گیا ہے۔ جس سے بہت ممکن تھا کے چھوٹے بچے بالغ ہونے سے پہلے گناہوں میں مبتلا ہوجائیں۔

مذہب صرف ایک دن یا الگ الگ موقع پر اپنے آپ کو مسلمان دیکھانے کا نام نہیں ہے۔ نماز دن میں پانچ وقت وقت مقررہ پر فرض ہے۔ روزے رمضان میں فرض ہے۔ زکات صاحب نصاب پر فرض ہے۔ جس کے پاس اتنے پیسے ہے کہ وہ آسانی سے بیت اللہ کا سفر کر کے آ سکتا ہے اس پر زندگی میں ایک بار حج فرض ہے۔ لیکن ایمان ہر لمحہ فرض ہے، اس لیے موسمی مسلمان نہ بنے کسی کو دیکھانے کیلئے نیک عمل نا کریں بلکہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا کیلئے نیک عمل کریں۔ ریاکاری سے بچنے کی کوشش کریں دیکھاوا کرنا شرک خفی کی طرح ہے۔ اللہ ہمیں اسلام کا صحیح شعور عطا فرمائے، اور جو شعور رکھتے ہیں پر بولنے کی طاقت نہیں رکھتے انہیں ہدایت عطا فرمائے۔ کیونکہ دین کے معاملے میں بندوں کو چاہیے کے وہ اللہ سے ڈرے ناکہ بندوں کی طعن و تشنیع سے، اور نہ رزق کے روک دئیے جانے سے کیونکہ رزق کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے نا کوئی تمہاری موت کو تم سے قریب کر سکتا ہے اور نہ رزق کو دور کر سکتا ہے۔ کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔

تبصرے بند ہیں۔