تجھ سے ملنے کو بار بار گیا

 پریم ناتھ بسملؔ

تجھ سے ملنے کو بار بار گیا

دل کو لے کر میں بے قرار گیا

جنگ اپنوں سے کیا کرے کوئی

بس یہی سوچ کر میں ہار گیا

اب تو گل میں بھی وہ مہک نہ رہی

روٹھ کر موسمِ بہار گیا

دوست نے مجھ پہ یہ کیا احساں

حق تو یہ ہے کہ حق بھی مار گیا

تیرا حق بھی نہ دے سکا تجھ کو

میں تو دنیا سے شرمسار گیا

دل کو خلوت سے آشنائی ہے

تیری محفل سے دلفگار گیا

تیری الفت میں دل ہوا بسملؔ

زخم کھا کر میں صدہزار گیا

تبصرے بند ہیں۔