مولانا ابوالکلام آزاد کا قلمی خاکہ

بائیس فروری کو مولانا آزاد کی برسی کے موقع پر خاص

سہیل انجم

خوبصورت قد و قامت، صاحبِ عزم و عزیمت۔ پیشانی آماجگاہِ نور، آنکھیں علمیت سے بھرپور۔ بارعب چہرہ، چہرے پہ تقدس کا پہرہ۔ زیبِ تن ٹوپی و شیروانی، ہر حال میں انداز ہندوستانی۔ چال ڈھال میں شرافت، انداز و طوار میں متانت۔ خطابت کے مردِ میدان، ذی جاہ، ذی شرف، ذی شان۔ آپ کی ذات میں اک شہرِ علم آباد ہے، آپ کا نام مولانا ابوالکلام آزاد ہے۔

شہر مکہ میں ولادت ہوئی، جو ہند کے لیے باعث سعادت ہوئی۔ والد، صاحبِ علم و معرفت تھے، مرجع خلائق و مرکز عقیدت تھے۔ انھوں نے محی الدین نام رکھا، نام میں پوشیدہ اک پیغام رکھا۔ وہ انھیں اپنا نائب بنانا چاہتے تھے، اپنی مسندِ خلافت پہ بٹھانا چاہتے تھے۔ مگر ابوالکلام تو سب سے جدا تھے، ندرت و انفرادیت پر فدا تھے۔ آپ نے آزاد تخلص اپنایا، نیا راستہ نیا جہان بنایا۔

لڑکپن ہی میں ایڈیٹر ہوئے، علم و فضل کے پیکر ہوئے۔ کئی اخباروں کے بعد الہلال نکالا، بصد ذوق و شوق و بہ کمال نکالا۔ الہلال کیا تھا سور اسرافیل تھا، پیغام بے نظیر و بے عدیل تھا۔ جسے سن کے اہل فلک بھی جاگ اٹھے، مہ و خورشید و شفق بھی جاگ اٹھے۔ پیر گردوں نے کہا سن کے کہیں ہے کوئی، بولے سیارے سرِ عرشِ بریں ہے کوئی۔ چاند کہتا تھا نہیں اہلِ زمیں ہے کوئی، کہکشاں کہتی تھی پوشیدہ یہیں ہے کوئی۔ الغرض جتنے منہ اتنی باتیں ہوئیں، گمان و حقیقت میں کتنی ملاقاتیں ہوئیں۔ شبلی نے تو پیر جہاں دیدہ سمجھا، اوروں نے اک غنچہ ٔ دمیدہ سمجھا۔ وحید الدین سلیم نے عجائبِ عالم کہا، حالی نے اِک کمسنِ ابنِ آدم کہا۔ بالمشافہ ملاقات پر سب حیران ہوئے، اُن کے مرتبہ ٔ علم پر قربان ہوئے۔ الہلال نے عطاءاللہ شاہ بخاری کو خطابت سکھائی، مولانا حفظ الرحمن کو ادائے سیاست سکھائی۔ سرحدی گاندھی کو سیاسی راستہ دکھایا، شیخ الہند کو بھولا ہوا سبق یاد آیا۔ گویا الہلال اخبار نہیں دانش گاہ تھا، مظلومینِ ہند کے لیے جہاں پناہ تھا۔

آپ جنگ آزادی کے بھی سپہ سالار تھے، انگریزوں کے حق میں شمشیر آبدار تھے۔ اپنی خطابت سے مجاہدین کا لہو گرماتے، اظہارِ کلمہ ٔ حق میں ذرا نہ شرماتے۔ انگریزوں نے جب بھی پا بہ زنجیر کیا، آپ نے اپنے زبان و قلم کو تیغ و تفنگ و شمشیر کیا۔ جب بھی پروانہ ٔ گرفتاری آپ کے نام آیا، آپ کی زبان پہ مومن کا یہ کلام آیا۔ پھر بہار آئی وہی دشت نوردی ہوگی، پھر وہی پاؤں وہی خارِ مغیلاں ہوں گے۔ سفرِ زنداں کے لیے ہمیشہ پا بہ رکاب رہے، آزادیٔ ہند کے لیے سدا محو خواب رہے۔ گوشۂ قفس کو بھی جائے غنیمت جانا، قلم و قرطاس کے لیے عرصۂ مہلت جانا۔ آپ تصنیف و تالیف کے شہنشاہ ہیں، اسرار و رموزِ معرفت سے آگاہ ہیں۔ ”ترجمان القرآن“ آپ کی پہچان ہے، جو داستانِ علم و عرفان کا عنوان ہے۔ ”غبار خاطر“ شہپارہ ٔ ادب ہے، ”تذکرہ“ سرگزشتِ حسب و نسب ہے۔ ”انڈیا ونس فریڈم“ معرکتہ الآرا کتاب ہے، جو قصہ ٔ جنگ آزادی کا روشن باب ہے۔ دشتِ سیاست و حکومت کی بادیہ پیمائی کی، صدر کانگریس بن کر قوم کی رہنمائی کی۔ آپ مجموعہ ٔ اضداد تھے، آپ کے تمام اوصاف خداداد تھے۔

جب ملک آزا دہوا تو ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا، سرحد کے دونوں طرف ہنگامہ بہت بڑا ہوا۔ آپ نے ہندی مسلمانوں کو ہجرت سے روکا، بڑی دلداری و محبت سے روکا۔ میراثِ اسلاف کی یاد دلائی، بزرگوں کی ایک ایک خدمت گنائی۔ جامع مسجد کے میناروں کی دہائی دی، صفوں، محرابوں اور فن پاروں کی دہائی دی۔ الغرض ایک ایک چیز کا واسطہ دیا، گم گشتگانِ منزل کو حب الوطنی کا راستہ دیا۔ خوں چکاں شب و روز میں مظلوموں کی دلداری کی، نخلِ امیدو یقین کی بھرپور آبیاری کی۔

اہل سیاست کی صفوں میں آپ کا اعلیٰ مقام ہے، صرف ہند ہی نہیں پوری دنیا میں آپ کا نام ہے۔ پنڈت نہرو آپ کے معتقد بھی تھے اور یارِ غار بھی، آپ کے جلو میں گاندھی بھی تھے اور سردار بھی۔ ملک کے پہلے وزیر تعلیم بنے، پہلے سے بھی زیادہ لائق تعظیم بنے۔ ہر طرف اسکولوں کالجوں کا جال بچھایا، بہ حسن تدبیر و بجمال و کمال بچھایا۔ تصورِ تعلیم نسواں دیا، خیالِ تعلیمِ بالغاں دیا۔ یونیورسٹیوں کے فروغ کے لیے یو جی سی بنایا، پھر ا س کے تحت دانش گاہوں کا سلسلہ پھیلایا۔ فروغِ ثقافت کے لیے ساہتیہ اکادمی بنائی، للت کلا و سنگیت اکادمی کی بنیاد ڈلوائی۔ آل انڈیا کونسل فار ٹیکنیکل ایجوکیشن بنائی، فروغِ تعلیمِ صنعت و حرفت کی راہ اپنائی۔ انسٹی ٹیوٹ آف ہائر سکنڈری کھڑک پور بنایا، اعلیٰ تعلیم کا پرچم لہرایا۔ سائنسی علوم کی ترویج کو بھی مقصد حیات بنایا، خواہشِ علم و ہنر کو خوش نوائے نغمات بنایا۔ ”ثقافت الہند“ نامی جریدہ نکالا، اسے ہندی تہذیب کے پیکر میں ڈھالا۔ الغرض ان کی خدمات بے حساب ہیں، ان کے کارنامے لاجواب ہیں۔ شیدایانِ آزاد خراج عقیدت پیش کرتے ہیں، نذرانہ ٔ الفت و محبت پیش کرتے ہیں۔

خورشید جہاں تاب کی ضو تیرے شرر میں

آبا دہے اِک تازہ جہاں تیرے ہنر میں

تبصرے بند ہیں۔