مولانا ابوالکلام آزاد کے نظریات عصری تناظر میں

چودھری امتیاز احمد

 مولانا ابوالکلام آزاد ایک حساس ذہن کے مالک تھے انہوں نے ہندوستانی معاشرے کے معاملات و مسائل کا گہرا مطالعہ کیا تھا۔ انہوں نے ہندوستانی عوام کی زندگی کو قریب سے دیکھا اور سمجھا تھا اس لیے وہ عوام کے اندر سوئی ہوئی انسانیت کو جگانا چاہتے تھے۔ کیونکہ ان کا ماننا تھا کہ جب تک عوام کے اندر کی چنگاری کو شعلہ نہیں بنایا جائے گا اس وقت تک یہ ملک غلامی کی زنجیروں سے نجات حاصل نہیں کر سکتا اور اس کے لیے وہ ہندو مسلم اتحاد کے نہ صرف قائل تھے بلکہ وہ حصول آزادی کے لیے لازمی قرار دیتے تھے۔ ان کے نزدیک مذہب ذات پات، فرقہ، قوم اور کسی طرح کی گروہ بندی کی حب الوطنی کے سامنے کوئی حیثیت نہیں تھی۔ 1923ء کے انڈین نیشنل کانگریس کے خصوصی اجلاس دہلی میں انہیں سب سے کم عمر صدر کی حیثیت سے خطاب کرنے کا موقع ملا تو انہوں نے ہندو مسلم اتحاد کی ضرورت پہ زور دیتے ہوئے کہا   ؎

’’میں نے آپ کا اس قدر وقت در و دیوار کی فکر میں لے لیا حالانکہ ابھی یہ بات باقی ہے کہ ہماری جدوجہد کی بنیاد کا کیا حال ہے میرا اشارہ ہندو مسلم اتحاد کی طرف ہے یہ ہماری تعمیرات کی وہ پہلی بنیاد ہے جس کے بغیر نہ صرف ہندوستان کی آزادی بلکہ ہندوستان کی وہ تمام باتیں جو کسی ملک کو زندہ رکھنے اور ترقی کرنے کے لیے ہو سکتی ہیں ۔ محض خواب و خیال ہیں ۔ صرف یہی نہیں کہ اس کے بغیر ہم انسانیت کے ابتدائی اصول بھی اپنے اندر پیدا نہیں کر سکتے آج اگر ایک فرشتہ آسمان کی بلندیوں سے اتر آئے اور قطب مینار پر کھڑے ہو کر یہ اعلان کر دے کہ سوراج 24گھنٹے کے اندر مل سکتا ہے بشرطیکہ ہندوستان ہندو مسلم اتحاد سے دست بردار ہو جائے تو میں سوراج سے دست بردار ہو جائوں گا۔ مگر اس سے دست بردار نہ ہوں کیونکہ اگر سوراج ملنے میں تاخیر ہوئی تو یہ ہندوستان کا نقصان ہوگا۔ لیکن اگر ہمارا اتحاد جاتا رہا تو عالم انسانیت کا نقصان ہے۔ ‘‘

  یہ اقتباس مولانا آزاد کی سیاسی بصیرت اور دانشورانہ فکر کا غماز ہے کہ وہ آزادی ملنے میں تاخیر کو قبول کر سکتے ہیں لیکن ہندو مسلم اتحاد کے سوال پر کسی طرح کی مفاہمت کے روادار نہیں کیونکہ ان کی نگاہ میں فرقہ وارانہ نفاق انسانیت کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔

   مولانا آزاد کا خیال تھا کہ مسلمان جنگ آزادی کے مرکزی دھارے سے ذرا بھی الگ بنتے ہیں تو اس سے ملک اور ملت دونوں کا نقصان ہوگا اور ملک میں نفرت کی ایک اور دیوار کھڑی ہو جائے گی انہوں نے ایک طرف مسلمانوں کو قدم قدم پر ہوشیار کیا کہ وہ کسی طرح بہکاوے میں نہ آئیں اور اپنے ہم وطنوں کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر انگریزی حکومت کو ملک سے نکال باہر کرنے میں ہر محاذ پر ساتھ ساتھ رہیں تو دوسری طرف انہوں نے کانگریس کو خبردار کیا کہ مسلمانوں کے جائز حقوق کو کسی بھی طور پر نظر انداز نہیں کیا جائے انھوں نے مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ اپنے سیاسی مطالبوں کو منوانے کے لیے کسی طرح بھی نفاق کی راہ اختیار نہ کریں ۔ آل انڈیا خلافت کانفرنس کانپور 1925ء کے اپنے صدارتی خطبے میں انہوں نے کہا تھا کہ   ؎

’’موجودہ صورتحال کی بدقسمتی اس کام میں کتنی دشواریاں پیدا کر دے لیکن وہ تیار نہیں کہ اس نصب العین سے دست بردار ہو جائے وہ مسلمانوں کے اجتماعی حقوق و فوائد کا تحفظ ضروری سمجھتا ہے لیکن اس طریق کار سے انکار کرتا ہے کہ مسلمان ہندوئوں کے طرز عمل سے روٹھ کر اجنبی حکومت کی آڑ پکڑ لیں اور ان کی ہستی ہمیشہ ملک کی قسمت کے لیے ایک دھمکی کی طرح استعمال کی جائے اگر ہندوئوں سے انہیں منصفانہ طرز عمل کا مطالبہ کرنا ہے تو پوری قوت سے کرنا چاہیے لیکن ساتھ ہی یہ ضروری ہے کہ ہماری باہمی آویزش ملکی جنگ کے میدان سے ہمیشہ الگ رہے۔ ‘‘

 مولانا آزاد اپنے مسلمان ہونے پر فخر کرتے تھے ان کا خیال تھا کہ مذہب قومیت کے تصور میں دیوار نہیں بنتا بلکہ انسان کے اندر تعمیری فکر پیدا کرتا ہے ان کا خیال تھا کہ ان کا مسلمان ہونا ان کے لیے کسی طرح مشکل پیدا نہیں کرتا ان کے ایک خطبے ’’مسلمان اور متحدہ قومیت‘‘ سے اقتباس ملاحظہ کیجیے   ؎

’’میں مسلمان ہوں اور فخر محسوس کرتا ہوں کہ میں مسلمان ہوں اسلام کی تیرہ سو برس کی شاندار روایتیں میرے ورثے میں آئی ہیں میں تیار نہیں کہ اس کا کوئی چھوٹے سے چھوٹا حصہ بھی ضائع ہونے دوں ۔ اسلام کی تعلیم اسلام کے علوم و فنون اسلام کی تہذیب میری دولت کا سرمایہ ہے۔ اور میرا فرض ہے کہ اس کی حفاظت کروں بحیثیت مسلمان ہونے کے میں مذہبی اور کلچرل دائرے میں اپنی ایک خاص ہستی رکھتا ہوں اور میں برداشت نہیں کر سکتا کہ اس میں کوئی مداخلت کرے۔ لیکن ان تمام احساسات کے ساتھ میں ایک اور احساس بھی رکھتا ہوں جسے میری زندگی کی حقیقتوں نے پیدا کیا ہے۔ ‘‘

 مولانا آزاد مذہب کو کسی طرح بھی ذہنی ارتقا کے لیے مضر تصور نہیں کرتے تھے بلکہ ان کا خیال تھا کہ مذہب بچوں کے اندر اخلاقی اقدار پیدا کرتے ہیں اور انسان دوستی اور حب الوطنی کا جذبہ پیدا کرتے ہیں ۔

  ہندوستان 1947ء میں آزاد ہوا مگر اب وہ ہندوستان نہیں رہا جس ہندوستان کی آزادی کے لیے مولانا نے اپنا سب کچھ قربان کر دیا تھا ملک کی تقسیم نے ان کے ذہن کو متزلزل کر دیا تھا لیکن ایسے نازک حالات میں بھی ان کے قدم نہیں ڈگمگائے۔ انہوں نے صبر و تحمل کے ساتھ حالات کا مقابلہ کیا۔ انہوں نے مسلمانوں کو جلاوطنی علاحدگی پسندوں اور مایوسیوں اور محرومیوں کو ترک کر کے اپنے ہم وطنوں کے ساتھ جینے اور مرنے کی تلقین کی۔ ترک وطن کرنے والے قافلے سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے جو کہا تھا آج بھی اس کی اہمیت اپنی جگہ برقرار ہے کہ جو لوگ ہمارے ملک کو چھوڑ کر پاکستان گئے وہ آزادی کے 59برسوں کے بعد بھی وہاں اپنے دامن سے مہاجر ہونے کا داغ نہیں مٹا پائے ہیں ۔

 مولانا آزاد کے اس تاریخی خطبے کا لفظ لفظ آج بھی اپنی معنویت رکھتا ہے   ؎

’’یہ دیکھو، مسجد کے بلند مینار تم سے اچک کر سوال کرتے ہیں کہ تم نے اپنی تاریخ کے صفحات کو کہاں گم کر دیا ابھی کل کی بات ہے کہ جمنا کے کنارے تمہارے قافلوں نے وضو کیا تھا اور آج تم ہو کہ تمہیں یہاں رہتے ہوئے خوف محسوس ہوتا ہے حالانکہ دہلی تمہارے خون سے سینچی ہوئی ہے وہ تمہارے ہی اسلاف تھے جو سمندوں میں اتر گئے۔ پہاڑوں کی چھاتیوں کو روند ڈالا۔ بجلیاں آئیں تو ان پر مسکرائے بال گرجے تو قہقہوں سے جواب دیا صرصر اٹھے تو اس کا رخ پھیر دیا۔ آندھیاں آئیں تو ان سے کہا تمہارا راستہ یہ نہیں ۔ یہ ایمان کی جاں کنی ہے کہ شہنشاہوں کے گریبانوں سے کھیلنے والے آج خوداپنے گریبانوں سے کھیلنے لگے اور خدا سے اس درجہ غافل ہو گئے جیسے اس پہ کبھی ایمان ہی نہیں تھا۔ ‘‘

 اکثر لوگ اس چیز سے بخوبی واقف ہیں کہ مولانا آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم تھے اس وقت ملک کے حالات کیسے تھے اس تلخ حقیقت سے ہم آپ اچھی طرح واقف ہیں ان نازک حالات میں مولانا آزاد نے جو نظریہ تعلیم پیش کیا وہ آج بھی اپنی معنویت رکھتا ہے آج ہمارے ماہرین تعلیم اس بات پہ زور دیتے ہیں کہ بچوں کی تعلیم کا ذریعہ اس کی مادری زبان ہو مولانا آزاد نے 1949ء میں ہی اس بات پر زور دیا تھا کہ تعلیم کا ذریعہ ملکی زبان ہونا چاہیے واضح ہو کہ اس وقت قومی زبان ہندوستانی قرار پائی۔ لہٰذا انہوں نے کہا تھا کہ   ؎

’’اب وقت آگیا ہے کہ ملک میں ہر قسم کی تعلیم دیسی زبانوں ہی میں دیے جانے کا تجربہ کیا جائے یہ پسندیدہ امر ہے کہ ہر ہندوستانی دیوناگری اور اردو دونوں رسم الخط سیکھے۔ ‘‘

  مولانا آزاد نے تعلیم نسواں کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ جب تک عورتوں کو دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم سے روشناس نہیں کیا جائے گا اس وقت تک وہ اس لائق نہیں ہو سکتی ہیں کہ آنے والی نسلوں کے ذہن کی آبیاری کر سکیں ۔ انہوں نے روایتی تعلیم کی مخالفت نہیں کی لیکن یہ ضرور کہا کہ اب یہ تعلیم بہت دور تک ہمارا ساتھ نہیں دے سکتی۔ انہوں نے پردہ کو اسلام کا زیور قرار دیا لیکن یہ بھی کہا کہ جس طرح کے پردے کا چلن ہے اور جس کی بنیاد پر عورتوں کو اعلیٰ تعلیم سے محروم رکھا جا رہا ہے وہ قوم کے مستقبل کے لیے مضر ثابت ہو سکتا ہے۔ ان کا یہ تاریخی بیان ہے کہ   ؎

’’ہم صاف صاف کہہ دیتے ہیں اور اسے فیصلہ قطعی سمجھ لو اصول مسلمہ کی طرح مان لو کہ جب تک متعارف پردہ ہندوستان سے نہ اٹھے گا جب تک عورتوں کو جائز آزادی اور وہ آزادی جس کا اسلام مجوز ہے نہ دی جائے گی غلامی میں رکھ کر اور پردے کی تقلید کے ساتھ تعلیم دینی نہ صرف فضول بلکہ مضر اور اشد مضر ہے اس کی ایک نہیں بیسوں مثالیں مل جائیں گی۔ کہ اس قسم کی تعلیم برے نیچے پیدا کرتی ہے یا کم از کم ایسی تعلیم سے کوئی مفید نتیجہ نہیں نکلتا۔ ‘‘

  اس اقتباس سے نہ صرف مولانا آزاد کے نظریہ تعلیم نسواں کی وضاحت ہوتی ہے بلکہ ان کے نظریہ حقوق نسواں کی بھی آواز ہے آج جو لوگ حقوق نسواں کی وکالت کرتے ہیں ان کے لیے مولانا آزاد کا یہ نظریہ مشعل راہ کی حیثیت رکھتا ہے۔

1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    تقسیم ہند کے حوالے سے اتنا تو درست ہے اور جیساکہ مولانا آزاد نے انڈیا ونس فریڈم میں بھی مدلل حوالوں سے لکھاہے کہ پٹیل کی ہٹ دھرمی نے جناح کو مشتعل کردیا تھا اور اس کے بعد تقسیم ہند ناگزیر تھی ____
    لیکن میں اس معاملے میں مولانا آزاد رحمہ اللہ کی فکر کا اندھا مقلد ہوں :)
    مولانا آزاد کی جامع مسجد کی تقریر جب کبھی سنتاہوں گھنٹوں ذہنی صدمہ سے باہر نہیں آ پاتا۔
    تقسیم ہند اہل علم وارباب سیاست کے درمیان ایک اختلافی موضوع ہے کہ یہ ناگزیر تو تھی لیکن کیا یہ درست بھی تھی؟؟؟
    اس پر اہل علم طبقہ کی رائے سیاسی اور شرعی نقطہ نظر سے ہمیشہ مختلف رہی ہے اور رہے گی ____
    لیکن اب الحمدللہ پاکستان کے بڑے بڑے پڑھے لکھے اہل قلم کی طرف سے جب کبھی آزاد کے موقف کی تائید سنتا ہوں تو دل سے آہ نکالتی ہے کہ بڑی دیر کردی مہربان آتے ۔۔
    فی الحال میری رائے یہی ہے کہ تقسیم ہند وپاک کے درست و نا درست ہونے پر بات وہی کرے جس نے مولانا آزاد کی انڈیا ونس فریڈم پڑھی ہو تاکہ کوئی اسٹینڈ لینے سے پہلے تصویر کے دونوں رخ اس کے سامنے روشن ہوں

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    مولانا آزاد رحمہ اللہ کی اس وقت کی حکمت و بصیرت پر مبنی تقریریں اور خاص طور پر وہ تقریر جو دهلی مسجد کے منبر کی سیڑھیو ں پر کھڑے ہوکر کی گئی تھی کافی دردناک اور من کو چُھو لینے والے سوالات پر استوار ہے – مولانا مرحوم کے موقف اور تقریر کو پڑھنے کے بعد میں مولانا کے قیام پاکستان کے مخالفت کرنے کی جن بنیادی وجوہات کو سمجھ سکا ہوں وہ میری رائے میں درج ذیل ہیں(ان نتائج کا ذمہ دار میرا ذہن ہے غلطی کا احتمال عین ممکن ہے) وجوہات درج ذیل ہیں
    1-کیا مساجد و مدارس کو کافروں کے ہاتھوں دے کر ان کی درندگی کی نذر کردینا اور ان کے جانوروں کا ہاسٹل بنا دینا حکیمانہ فیصلہ ہے؟؟؟
    2-کیا ہجرت فی سبیل اللہ کے شرعی (نا کہ سیاسی) اسباب و شروط مُتَوَفَّر و موجود نا ہوتے ہوئے بھی محض ہندو کے ظلم اور اسلامی تشخص کے مٹ جانے کے” فرضی وہم کے ڈر” سے ایک مستقل مگر چھوٹے سے ” قطعہ ارضی "کا مطالبہ کرنا دینی ضرورت و شرعی تقاضہ یا دور اندیشانہ مطالبہ ہے ؟؟؟
    3-کیا جن اسباب واندیشوں کے پیش نظر ایمانی عزائم و جذباتی نعروں کے ساتھ متحدہ ہند سے علیحدگی کا مطالبہ کیا گیا ان عزائم و منصوبوں کی تکمیل کے اس وقت اور ما بعد میں ارض پاک میں کوئی امکانات ہیں ؟؟؟
    4-کیا جب ہزاروں مسلمان نِہتّے اور بے سرو سامان ہوکر ایک انجان زمین پر بسنے کے لئے جا رہے ہوں گے تو کیا اس بات کی بالکل بھی فکر اور پیش بندی کی گئی ہے کہ ہمارے بعد ایک ایسے متروکہ ملک میں جہاں ان کے اسلاف نے وضو کئے ہوں جس صنم کدے میں اذانیں دی ہوں وہاں پہلی سی ايمانى فضاء باقی نا رہے گی ؟؟؟
    5-کیا شریعت میں اللہ کی ساری زمین اہل ایمان کے لئے پاک بنادی گئی ہے یا نہیں؟؟ اگر ہاں تو ایک مخصوص، قطعہ ارضی کو پاک استھان سمجھنے کا تصور بھی شرعادرست ہے یا نہیں؟. مولانا آزاد کے بقول وہ اس تصور کے خلاف تھے

    یہ ایسے پریشان کن خیالات و نقاط ہیں کہ ہمیشہ موجودہ نسل کو پریشان کرتے ہیں
    اس مسئلے پر ایک بہت ہی زیادہ حیران کن کاؤنٹر سوال یہ بھی کچھ دوست پوچھتے ہیں کہ
    حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ "ہجرت فی سبیل اللہ تو اس وقت کیا جاتا ہے کہ جب پوری آزادی سے اذان دینا و نماز ادا کرنا وغیرہ مشکل ہو جائے ۔شعائر اسلام کی بجا آوری میں رکاوٹیں ڈالیں جائیں.
    بس یہی اشکالات بھرے پوائنٹ مجھے گونگا بنا دیتےہیں —-

    لیکن ان سب کے باجود میں ان چند عجائب روزگار لوگوں میں سے ایک ہوں جو آج بھی شدت سےاس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ تقسیم ہند و پاک سراسر غلط تھی یہ دینی بنیاد پر تھی ہی نہیں بلکہ مولانا آزاد کے الفاظ میں "یہ ایک ناکام سیاسی ٹرائل تھا”-
    بھرحال پاکستان اب ایک زندہ وجود اور تاریخی حقیقت ہے اس کی سلامتی میں ہندوستان کی سلامتی ہے کیوں کہ پڑوسی کا گهر محفوظ نا ہو تو اس کا ہمسایہ بھی جل جاتا ہے_________

تبصرے بند ہیں۔