مولانا انظر شاہ قاسمی کی رہائی اورمیڈیا کا متعصبانہ رویہ!

مفتی محمد صادق حسین قاسمی

      موجودہ دور ذرائع ابلاغ کی ترقی اور ٹکنالوجی کا ہے، پوری دنیا ایک گاؤں میں تبدیل ہوچکی ہے، اور دنیا بھر کی خبریں چند لمحوں میں پوری دنیا میں گشت کرنے لگ گئی ہیں، کسی کونے اور کسی خطے میں رونماہونے والے واقعات کا علم بڑی تیزی کے ساتھ دنیا کے دوسرے خطے اور کونے میں رہنے والوں کو ہورہا ہے۔ یہ تمام تر سہولیتیں دراصل میڈیااور ذرائع ابلاغ کی ترقی کی وجہ سے ہے۔ میڈیا جس کا اہم کام انسانوں تک درست خبریں پہنچانا ہے،اور حالات کی صحیح رہنمائی کرنا ہے، اگر یہ اپنا کام انجام دیتے رہے تو پھر حالات بھی قابومیں رہیں گے اور ذہن ودماغ بھی نفرت وعداوت سے پاک وصاف ہوں گے۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ موجودہ میڈیا اس درجہ ترقی کے باوجود تنگ نظری وجانبداری کا شکار ہے، اس میں خبروں کی نشرواشاعت حق اور سچ کی بنیاد پر نہیں ہورہی ہے بلکہ مذہب کے نام پر ہونے لگی ہے،اور بالخصوص اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک نفرت انگیز مہم اورمنصوبہ بند فتنہ خیزی کے لئے بھی میڈیا کا بھرپور استعمال کیا جارہا ہے،میڈیا جن عالمی ہاتھوں میں ہے اور جن کے اشارہ پر پوری دنیا کے ذرائع ابلاغ کام کررہے ہیں وہ کسی صورت نہیں چاہتے کہ دنیا میں مسلمانوں کے کردار وعمل کی حقیقی تصویر پیش کریں، مسلمانوں کے ساتھ نارواسلوک کرنا اور مسلمانوں کی شبیہ کو بگاڑکرپیش کرنا آج کے میڈیا کا ایک محبوب مشغلہ ہے۔ ایک معروف مصنف وقلم کار کے بقول :’’مغربی میڈا کا کردار کچھ ایسا ہے کہ جس حقیقت کو یہ دنیا کی نظروں سے چھپانا چاہتے ہیں، اس پر شکوک وشبہات کی اتنی چادریں چڑھادیتے ہیں کہ لوگ اس کی تہہ تک پہونچ ہی نہیں پاتے۔ جب کہ جس بات کو یہ ثابت کرنا چاہیں تو اس کو جھوٹ کے ہزاروں خوبصورت غلافوں میں لپیٹ کر ثابت کردیتے ہیں۔ ‘‘

    الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی مسلم دشمنی بالکل عیاں ہے اور اس کی بے شمارمنہ بولتی تصویریں بھی موجود ہیں، آئے دن کس طرح وہ مسلمانوں کے خلاف اپنے ذہن وماغ اور زبان وقلم کو چلانے میں مصروف ہیں وہ جگ ظاہر ہے۔ ہم اس وقت ان کی بہت ساری فریب کاریوں اور دجل و فتنہ سامانیوں کا تذکرہ نہیں کریں گے، بلکہ میڈیا کے مسلمانوں کے ساتھ متعصبانہ رویہ کے واضح ثبوت کے لئے یہ پیش کرنا چاہیں گے کہ اسی میڈیا نے جب مولانا انظر شاہ قاسمی صاحب کو گرفتار کیا گیا تھا، اور ان پر نہایت درجے کے بے بنیاد الزامات لگائے گئے تھے،دہشت گردی میں ملوث ثابت کرنے اور دہشت گردوں کے نمائندہ بتانے کی تابڑتوڑکوشش کی تھی، نیوز چینلس مولانا انظر شاہ صاحب کی گرفتاری کو ایک بڑی فتح اور کامیابی کے جشن کے ساتھ پیش کرنے میں لگے ہوئے تھے،اور ایک تہلکہ خیز نیوز بناکر مسلمان عالم ِدین کو بدنام کرنے اور مسلمانوں پر دہشت گردی کا داغ لگانے میں تھے۔ آج وہی میڈیا جب مولانا انظر شاہ صاحب کو باعزت بری کردیا گیا،ان پر لگائے گئے تمام الزامات کو بے بنیاد اور غلط قراردے کر رہا کردیا گیاتو خاموشی میں ڈوبا ہوا ہے؟آخر اس درجہ تعصب، تنگ نظری اور مسلم دشمنی کیوں ؟جب مولانا انظر شاہ صاحب کو عدالت نے بے قصور تسلیم کرلیا،اور عدالت نے انہیں باعزت بری بھی کردیا تو میڈیا کا یہ حق تھا کہ وہ اس خبر کو بھی ہنگامہ خیز انداز میں نشر کرتے، اور یہ بتاتے کہ مولانا کوئی دہشت گرد نہیں تھے اور نہ ہی ان کے تعلقات کسی بھی دہشت گرد تنظیم تھے، بلکہ یہ مسلم دشمنی کا شکار ہوئے تھے اور بغیرکسی جرم کے انہیں تقریبا دوسال تک قیدوبند میں رکھا گیا،الزامات لگائے گئے، پولیس کی زیادتی اور جھوٹی بنیادوں پر مسلم نوجوانوں اور علماء کرام کی گرفتاری اور پریشان کرنے کی پالیسی پر صدائے احتجاج بلند کرتے۔ یہ تو ہمارے ملک کی عدلیہ کا ایک کارنامہ ہے کہ جس نے حق اور سچ کی بنیاد پر فیصلہ کیااور الزامات کو بے بنیاد ثابت کرکے انسانیت کی تعلیم دی اور حقائق وسچائیوں کی بنیاد ہی پر ہی کسی چیز کو تسلیم کرنے کا سبق دیا۔

     یہ میڈیا والے ہیں جو اگر چاہیں تو ہیرو کو غدار اور غدار کو محب ِ وطن بناکر پیش کرتے ہیں۔ ہمارے سامنے ایسے کتنے حقائق ہیں کہ اس ہندوستان کی بہت سی فرقہ پرست اور شدت پسند تنظیموں کے بہت سے افراد تخریب کاری اور دہشت گردی میں ملوث ہیں اور جن کے بارے میں ثبوت وشواہد بھی موجود ہیں لیکن ان کو بالکل نظر انداز کردیا گیا بلکہ ان کی حفاظت کا بیڑا اٹھالیا اور دوسری طرف مسلمانوں کے خلاف بہانے ڈھونڈڈھونڈ کرالزامات لگانے کی پوری کوشش کی جارہی ہے، مسلم نوجوانوں پر طرح طرح کے الزامات عائد کرکے ان کی زندگی کو اجیرن بنادیا گیا، ان کے تعلقات کو ممنوعہ تنظیموں سے جوڑکر ان کے خلاف ہنگامہ آرائی کی گئی ہے اور کی جارہی ہے۔ میڈیا نے یہ بیڑا بھی اٹھا یا کہ داڑھی، ٹوپی اور کرتا پائجامہ پہننے والے سے لوگ نفرت کریں، اور ایسے لوگوں کو دیکھتے ہیں ان کے ذہنوں میں شدت پسند، اسلام دشمن لوگوں کا چہرہ آجائے اور لوگ ان کو بھی اُن ہی لوگوں میں شمار کرنے لگیں۔ دنیا کے مختلف ممالک میں برقع او ر نقاب پر بھی مسائل کھڑے کئے گئے اور ہماری ملک میں مدارس کے خلاف بھی باضابطہ سازش کی جارہی ہے اور کچھ شدت پسند ہیں جو آئے دن مدارس اور مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتے رہتے ہیں اور میڈیا میں ان کو ممتاز حیثیت سے پیش کیا جا تا ہے، ا ن کے کسی بیان پر ہنگامہ نہیں ہوتا اور ان کی سونچ کو ملک دشمن بھی نہیں سمجھا جاتا ہے اومسلمان کچھ کہے تو فوری طور پورے ملک کا میڈیا قیامت برپا کردیتا ہے۔ اسلام کے عائلی نظام اور فیملی لا سے متعلق اہم مسائل کو غیر ضروری میڈیا نے اچھالا،ملک کی بہت ساری اہم ضرورتوں پر بحث ومباحثہ کے بجائے مسلم پرسنل لا جیسے موضوعات پر بحث کرنا انہیں اچھا لگتا ہے،ملک کی ترقی وخوش حالی اور اس کے لئے کیا ایجنڈے ہوں اس سے انہیں دلچسپی نہیں، نفرت کی سیاست سے ملک کو پاک کرنے،ذات و مذہب کے نام پر ظلم وتشدد کو ختم کرنے کی انہیں کوئی فکر نہیں، بس ہر چند دن کے وقفے سے طلاق وغیرہ جیسے موضوعات چھیڑنا،ہر ایرے غیرے سے اس پر گفتگوکرواکر اسلام کے خلاف ذہن ودل کو اکسانا موجودہ الکٹرانک میڈیا کا دلچسپ مشغلہ ہے۔

    اسلام اور مسلمانوں کے خلاف میڈیا کی یہ اور اس سے بڑھ کر کارستانی ہے، وہ چاہے تو کھلے عام نفرت کے سوداگروں کو چھوڑدیں اور اگر چاہے تو امن پسند، محبت کے خوگر، بھائی چارگی کے علمبرار، انسانیت کا درس دینے والے افراد کومجرم بناکر پیش کریں، یہ ان کا روز کا کھیل ہے اور اس کے لئے وہ دشمنوں کے ہاتھ بکے ہوئے ہیں، ان کا قلم، ان کی زبان، ان کے افکار، ان کے نظریات سب چند کوڑیوں کے عوض خریدے جاچکے ہیں اور وہ پیسو ں کی چمک کے سامنے حقائق اور سچائیوں کو نظر انداز کرکے جھوٹی مہم چلانے میں صبح وشام مصروف ہیں۔

     اب اس صورت ِ حال میں بھلا میڈیا پر کس طرح اعتماد کیا جاسکتا ہے، نیوز چینلوں کی انسانیت دوستی کو کیسے تسلیم کیا جاسکتا ہے،بلکہ یہ تصور عام ہوگاکہ میڈیا جانبدارنہ رویہ اختیار کئے ہو ئے صرف مسلمانوں کو نشانہ بنائے ہوئے ہے، وہ اس ملک کی تہذیب وثقافت کو ختم کرنے پر تلا ہوا ہے،امن ومحبت، اخوت وبھائی چارہ کو نفر ت وعداوت میں تبدیل کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔ اس دور میں جہاں فکر ونظر اور زبان وقلم کو پیسوں کے عوض خریداجارہاہے، ایسے میں معدودے چند قلم کار وصحافی وہ بھی ہیں جو حق اور سچ کو برملا اور بلاخوف وتردد کہتے ہیں، اور حقائق کے پیش کرنے میں پس وپیش نہیں کرتے، لیکن ایسے بہت تھوڑے ہیں اور ان پر پابندی لگانے کی کوشش کی جاتی ہے اور ایسوں کاجینا بھی مشکل کردیا گیاہے۔

    مولانا انظر شاہ قاسمی نے اپنی رہائی کے بعد قائد ملت ِاسلامیہ حضرت مولاناسید ارشدمدنی صاحب سے ملاقات کی، اس موقع پر مولانا ارشد مدنی صاحب نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا:’’ہندوستان کے مسلمان نہ تو دہشت گرد ہیں اور نہ ہی دہشت گرد وں کے حامی، یہ بات اب خود ملک کی عدالتوں میں ثابت ہورہی ہیں، ہمیں اپنے نظام ِ عدلیہ پرمکمل بھروسہ ہے اور تمام تر سازشوں کے باجود عدالتیں انصاف دے رہی ہیں۔ معروف عالم ِ دین مولانا انظر شاہ کا دہشت گردی کے الزام سے باعزت بری کرنے کا عدلیہ کا فیصلہ اس کا تازہ ثبوت ہے۔ مولانا مزید کہا کہ:ملک کاالیکٹرانک میڈیا جانبدارنہ کرداراداکررہا ہے، جب بھی کسی بے قصور مسلمان کو دہشت گردی کے جھوٹے الزام میں گرفتار کیا جاتا ہے تو الکٹرانک میڈیا شدت سے اس شخص کو دہشت گرد ثابت کرنے پر تل جاتا ہے، لیکن جب وہی شخص عدالت سے بے قصور ثابت ہوجاتا ہے تو اس کی خبردینا بھی ضروری نہیں سمجھتے، اس سے الکٹرانک میڈیا کی نیت کو سمجھاجاسکتا ہے،انہوں نے کہا کہ اس رویہ کی وجہ سے اب میڈیا عوام کھوتاجارہا ہے، مولانا مدنی نے امید ظاہر کی کہ ابھی جن لوگوں کے خلاف دہشت گردی کے معاملے زیر غور ہیں وہ زیادہ تر فرضی ہیں اور ان شاء اللہ ہم وہ تمام مقدمات جتیں گے۔ ‘‘اللہ تعالی ملت کے حق میں انجام دی جانی والی اس عظیم خد مت کو قبول فرمائے اور تمام بے قصوروں کی رہائی کا انتظام فرمائے۔

   بہرحال عدالت نے مولانا انظر شاہ صاحب کو باعزت رہا کرکے جھوٹے اور فریبی انسانوں کے منہ پر زور دارطمانچہ دیا ہے کہ ابھی اس ملک میں حق وانصاف زندہ ہے، سچ اور غیر جانب داری کا عنصر باقی ہے۔ جب تک عدالتوں سے حقائق پر مبنی فیصلے صادر ہوتے رہیں گے، مظلوموں کی حمایت کی جائے گی،بے قصوروں کوبری کیاجائے گا، ان شاء اللہ امید کی کرن روشن رہے گی اور جھوٹے و الزام تراش شکست وذلت سے دوچارہوتے رہیں گے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔