مولانا جمیل احمد سیکروڈویؒ

مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی

ادھر دو سال سے پرانے، علم وعمل کے پیکر، اساطین وقت، اسلاف اور اکابر کی یادگار شخصیات کا دنیا سے کوچ کرنے کا مسلسل سلسلہ لگاہوا ہے، قحط الرجال کے اس دور میں اسلاف اور تقوی وللہیت اور خلوص اور عمل وعمل کے جامع حضرات کا دنیا سے کوچ کرنا یہ واقعتا دلوں کو غم اندوہ اورحزن آگیں کرتاہے، دل سے آہیں نکل ہی جاتیں ہیں، کم مائیگی اور پسماندگی کا احساس دل کو چوٹیں پہنچاتا ہے، ابھی اساتذہ دار العلوم میں قریب ہی زمانہ میں خصوصا شیخ ثانی شیخ عبد الحق صاحب رحمہ اللہ اورحضرت مولانا ریاست علی بجنوری، حضرت مولانا سالم صاحب اور مولانا اسلم صاحب رحمہم اللہ جیسی نابغہ روزگار اور عظیم اور تقوی وطہارت کے مجسم ومرصع شخصیات کا دنیا فانی سے رحلت کر جانا یہ نہایت پر آشوب اور کٹھن مرحلہ تھا کہ ابھی ۳۱؍ مارچ، ۲۰۱۹ء کو حضرت مولانا جمیل احمد صاحب سیکروڈوی کی موت کی جانکاہ خبر سننے کو ملی، اللہ عز وجل استاذ محترم کو غریق رحمت فرمائے۔

ذہب الذین یعاش فی أکنافھم

بقی الذین حیاتہم لا تنفع

حضرت الاستاذ عمر کے اس مرحلے میں بظاہر تو نظر نہیں آتے تھے کہ ا س دنیائے فنانی سے کوچ کرنے کا وقت ہو، نہایت متحرک، وقت پر حاضری کا معمول تھا، بڑی تیزی اور تپاک اور پھرتی کے ساتھ درسگاہ کے جانب ہر دم رواں دواں نظر آتے، آج بروز اتوار بعد نماز عصر مختلف واٹسپ گروپس پر حضرت کے وفات کے حادثہ فاجعہ کی خبر ملی تو دل کو دھچکا لگا، بڑی کرب وبے چینی کی کیفیت ہوئی، میں خصوصا حضرت الاستاذ اور ان کے طرز تدریس سے نہایت متاثر تھا، بڑا دردولم محسوس ہوا، لیکن طویل مہلک بیماری طبیعت کی ناسازی اور کئی دنوں کی علالت اور اخیر ایام میں اسباق کی حاضری سے معذور ی کے بعد رحلت فرماگئے۔

کچھ یادیں کچھ باتیں

بڑے شائستہ، مہذب، نستعلیق شخصیت کے حامل، کس قدر لمبے اور سونلے رنگ کے حامل، کتابی واضح چہرہ،پیشانی اورصورت سے کمالات علمی کا اظہار ہوتا،سادگی وسادہ لوحی سے مرصع، خوبیوں وکمالات اور علم وعمل کے مجسم، وقت کے پابند، افہام وتفہیم کے ملکہ سے خوب آراستہ وپیراستہ، ایسے لگتا جیسا کہ رس گھول کر پلا رہے ہوں، اللہ عزوجل نے افہام وتفہیم کا ملکہ خوب وسعت سے نوازا تھا، بڑے بڑے اور پیچیدہ مسائل کی گھتیوں کو بآسانی حل کرنے کاملکہ آپ کو ودیعت کیا گیا تھا، ہر شخص چند ایک خاص خوبیوں کا حامل ہوتا ہے، جن میں حضرت الاستاذ کی افہام وتفہیم کا جادو طلبہ کے سرچڑھ کر بولتا تھا، بڑی علمیت اور درس کتب پر تو کافی دسترس اور عبور حاصل تھا ہی، خصوصا افتاء کے سال کے حضرت الاستاذ سے تلمذ کا شرف حاصل رہا، بڑے پیارے اور انوکھے انداز میں سبق کی تشریح وتوضیح فرماتے، وصف خاص یہ تھا کہ گھنٹہ بجنے سے پہلے حاضر ِدرس ہوجاتے، دوسرے استاذ کے نکلنے کے منتظر رہتے، جیسے استاذ نکل جاتے، درس گاہ میں ابتدائے ساعت میں داخل ہوتے اور وقت سے قبل ہی سبق سے فراغت ہوجاتی، شاید پوری زندگی اور دورانیہ حیات میں حاضری سبق کا شاید معمول یہی رہا ہو، استاذ محترم جو ہمیں افتاء میں ’’قواعد الفقہ‘‘ مفتی عمیم الاحسان پڑھاتے تھے، قواعد کی امثال کی روشنی میں توضیح وتطبیق کا کام بہت خوبصورت اور بہترین انداز میں انجام دیتے، ایک دفعہ کچھ افتاء کے لڑکے غیر حاضر رہے، یادرس میں دیر سے ان کی حاضری ہوئی تو فرمایاکہ: ’’ میں یہ ضرور تسلیم کرتا ہوں کہ تم لوگ (شعبہ افتاء کے طلبہ ) دار العلوم کے خلاصہ ہو ؛ لیکن اساتذہ سے فائق نہیں ہو ‘‘۔(شاید افتاء کے طلباء کی تند مزاجی، خود پسندی اور خوب تر ہونے کے احساس پر ضرب لگانا مقصود ہو ) استاذ محترم کا درس نہایت خوبیوں کا حامل ہوتا، افہام وتفہیم اور پیجیدہ مسائل کو بآسانی حل کردینا یہ ان کا خاص وصف تھا،جس کی نمایاں دلیل اشرف الہدایۃ ’’شرح ہدایہ‘‘ ہے جو ہدایہ کی مبسوط طویل شرح ہے، جو افہام وتفہیم کے حوالے اپنی نظیر آپ ہے،  طویل توضیح وتشریح سے معمور جلدیں آپ ہی کی لکھی ہوئی ہیں، جو تقریباہدایہ کے حاشیہ کا اتنا سلیس اور بہترین ترجمہ ہے کہ کہیں بھی ترجمہ پن ظاہر نہیں ہوتا، اس میں مزید کچھ اصلاحات اور توضیحات کا اضافہ بھی موجود ہے۔ خصوصا میں نے سال ہفتم میں کبھی کبھی اشرف الہدایہ کی پیچیدہ جگہوں میں مدد لی ہے، جس میں حاشیہ اور اس کے مولانا تشریح وتطبیق کے درمیان مطابقت کی کوشش کرتا اکثر وبیشتر مکمل حاشیہ کی بہترین تشریح وتوضیح پاتا، جس میں ترجمانی تو ہوتی ترجمہ پن بالکل نظر نہیں آتا۔ لیکن توضیح اور حاشیہ میں تقریبا مطابقت ہوتی۔

احوال وکوائف :

والد محترم کانا جناب جان محمد ہے، سکروڈہ ضلع ہردار (اتراکھنڈ) کے رہنے والے ہیں، ۱۰؍ اپریل ۱۹۵۰ھ کو پیدا ہوئے، جامعہ کاشف العلوم چھمٹل پور اور مدرسہ خلیلیہ سہارنپور میں تعلیم حاصل کی اور ۱۳۸۵ھ؍ ۱۹۶۶ء میں دار العلوم میں داخل ہوئے، ۱۳۹۰ھ؍ ۱۹۷۰ء میں حضرت مولانا سید فخرالدین سے دورہ ٔ حدیث پڑھ کر فارغ التحصیل ہوئے۔

فراغت کے بعد جامعہ رحمانیہ ہاپورڑ میں مدرس مقرر ہوئے، پھر مدرسہ کاشف العلوم چھٹمل پور اور مدرسہ قاسم العلوم گاگل ہیڑی ضلع سہارنپور میں رہے جہاں صدر مدرس اور ناظم تعلیمات کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔

۱۳۹۹ھ؍۱۹۷۹ء میں دار العلوم میں تدریس کے لئے تقرر ہوا، ۱۹۸۲ء میں دار العلوم وقف سے وابستہ ہوگئے، ۱۴۲۰ھ؍۲۰۰۰ء میں دوبارہ دار العلوم میں مدرس مقرر ہوئے، اس وقت درجہ علیا اور استاذ حدیث وفقہ تھے۔

علمی کام :

آپ کے درسی کتابوں کی اردو شروحات مقبول عام ہیں، جن میں ہدایہ کی شرح’’ اشرف الہدایہ‘‘ اور ’’تفہیم الہدایہ‘‘ کے نام سے موسوم ہے، ہدایہ کے علاوہ دوسری کتابوں کی کئی ایک ادرو شروحات موجود ہیں، لیکن ہدایہ کی یہ واحد واکلوتی شرح ہے، جس کی شرح حضرت الاستاذ اور حضرت مولانا یوسف تاؤلی مد ظلہ کے بعد کسی نے لکھی ہو، اس کے علاوہ نور الأنوار، حسامی، اصول الشاشی، مختصر المعانی، تفسیر بیضاوی (سورہ بقرۃ) اور طحاوی کی بھی آپ نے شرحیں لکھی ہیں۔

 آپ کا دورانیہ تدریس دار العلوم بھی بڑا وسیع اور تقریبا چار دہائیوں پر مشتمل ہے، جس میں نہ جانے کتنے طلبہ نے استاذ محترم سے شرف تلمذ حاصل کیا ہواوراستاذ محترم کے یادیں ان کے ساتھ وابستہ ہوں، استاذ محترم اپنی ذات، مزاج اور اپنی فطرت کے اعتبار سے نہایت خلیق، متواضع نہایت کم گو اور مخلص تھے، وضع کے پابند، اور سادگی کے پیکر تھے، بڑوں کا اکرام، چھوٹوں پر شفقت اور برابر بوالوں کے ساتھ محبت کا معاملہ کرتے۔

آخر میں یہ کہتے ہوئے حضرت الاستاذ کے حوالہ سے بات ختم کرنا چاہوں گا۔ یہ چند ایک سطور ہیں جو برجستہ حضرت کے وفات حسرتِ آیات پر قلم سے نکل گئے۔

آں قدح شکست وآن ساقی نماند

ایک دھوپ تھی جو ساتھ گئی آفتاب کے

تبصرے بند ہیں۔