مولانا سعید احمد اکبر آبادی: ایک مفکر، ایک دانشور

نایاب حسن قاسمی

سموتُ إلی العلاوعلوتُ حتی

رأیتُ النجمَ تحتي وہویجري

وقوماً آخرین سعَواوعادو

حیاری مارأواأثرالأثري

(عنترۃ بن شداد)

  پروفیسرمولانا سعید احمد اکبرآبادی(1907-1985)ہندوستان کے دانشورعالم اور روشن خیال مفکر تھے،انھوں نے کم و بیش پچاس سال تک تدریسی،تعلیمی، تصنیفی وصحافتی خدمات انجام دیں۔ وہ ایک باکمال مصنف اور صاحب قلم تھے، ان کے قلم سے مختلف علمی وادبی موضوعات پرایک درجن سے زائد کتابیں منظر عام پر آئیں، جنھیں اہلِ علم و ادب کے حلقے میں غیر معمولی پذیرائی حاصل ہوئی اور کئی یونیورسٹیوں میں ان کی بعض کتا بوں کو داخلِ نصاب بھی کیاگیا، ان کا اسلوبِ تحریر نہایت شستہ و رفتہ، خوب صورت و نستعلیق تھا،وہ دبستانِ شبلی کے خوشہ چینوں میں تھے اور انہی کے جیسی علمی بصیرت،دانشمندانہ گیرائی وگہرائی اور مطالعے کی بے پناہ وسعت ان کے اندر پائی جاتی تھی۔ انھوں نے آزادی سے قبل دارالعلوم دیوبند سے عربی و اسلامی علوم میں فضیلت، اورینٹل کالج لاہور سے منشی فاضل، پھر سینٹ اسٹیفن کالج دہلی یونیورسٹی سے ایم اے کیا اوراس کے بعد اسی کالج میں انھیں لیکچرر مقررکیاگیا،آزادی کے فوراً بعد مولانا ابوالکلام آزاد کی ہدایت پروہ مدرسہ عالیہ کلکتہ کے ذمے دار بناکر بھیجے گئے،جہاں 1959ء تک خدمات انجام دیں، اس کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے ان کی خدمات حاصل کرلی،جہاں انھوں نے دینیات فیکلٹی کاسربراہ رہتے ہوئے یونیورسٹی کے وقار و اعتبار میں غیر معمولی اضافہ کیا، انھیں کیرالہ سمیت افریقہ و یورپ،عراق وایران اور ماریشس و پاکستان کی متعدد دانش گاہوں اور تعلیمی و تحقیقی اداروں میں بطور وزیٹنگ پروفیسراورمحاضر مدعو کیا گیا، جہاں اہلِ علم و دانش کی مجلسوں میں ان کے دسیوں لیکچرز ہوئے۔

  انھوں نے تاریخ اور مذہبیات پر کئی اہم اور معرکۃ الآراکتابیں تحریر کیں، جنھیں عالمی سطح پر پذیرائی و شہرت حاصل ہوئی،کئی کتابوں کے ان کی زندگی میں ہی ترجمے کیے گئے اورانھیں ہندوستان،بنگلہ دیش، پاکستان وغیرہ کی یونیورسٹیوں میں داخلِ نصاب کیاگیا۔ ان کا قلم نہایت تواناتھااور ان کے اسلوب میں ایک مخصوص قسم کا طنطنہ پایاجاتا تھا،ان کا مطالعہ وسیع و عریض اور مشاہدہ عمیق تھا،ان کی نظر میں گہرائی اور نظریے میں گیرائی تھی،انھوں نے عملی زندگی میں ہندوستانی مسلم فکر و دانش کی بھر پور نمایندگی کی اور ہرسطح پر کی،حقیقت یہ ہے کہ ان کا علمی وادبی مقام بہت ہی اعلیٰ و ارفع ہے۔

ہندوستان میں دانشوری کی روایت اور تاریخ پر جب بھی لکھاجائے،تحقیق کی جائے یا تاریخ مرتب کی جائے،تواس میں جوچندنہایت چیدہ وسرکردہ نام ہوں گے،ان میں سعید احمد اکبرآبادی کانام ضرور ہونا چاہیے،انھوں نے مسلم دانش و بینش کے تمام دوائرکو کم و بیش نصف صدی تک براہِ راست متاثرکیاہے،ان کی فکر میں نور اور ان کی نظرمیں دوربینی تھی،انھیں پڑھیے،تو ذہن و دماغ کے پردے پر ان کی دانشوری،ذہنی بصیرت، عقلی امتیاز،معروضیت و جزرسی کے رنگا رنگ نقو ش مرتسم ہوتے چلے جاتے ہیں، 1938ء میں انھوں نے اپنے متعدد علمی رفقاکے ساتھ مل کر ’’ندوۃ المصنفین‘‘کی شکل میں ایک علمی، تصنیفی و تحقیقی ادارہ شروع کیا،اس ادارے کی خاص بات یہ تھی کہ اس کے تقریباً سارے ہی ارکان تازہ دم، نوجوان اور دیوبند کے نئے فاضل تھے،مفتی عتیق الرحمن عثمانی،مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی،مولانا بدرعالم میرٹھی،قاضی زین العابدین سجاد میرٹھی،مولانا حامدالانصاری غازی،مولانا سعید احمد اکبرآبادی یہ وہ نام ہیں، جنھوں نے ہندوستان کی علمی،تحقیقی،تصنیفی،ادبی وعلمی حلقوں پراپنی گہری چھاپ چھوڑی ہے،انھوں نے ندوۃ المصنفین سے یکے بعد دیگرے ایسی قیمتی اور وقیع کتابیں شائع کیں کہ علمی دنیامیں اس کا امتیاز قائم ہوگیا۔ مولانا اکبرآبادی کے قلم کے جوہر ندوۃ المصنفین سے ہی کھلنا شروع ہوئے،وہ اس ادارے کے ترجمان ماہنامہ’’برہان‘‘کے ایڈیٹر بنائے گئے اور یہ رسالہ پہلے شمارے سے ہی اس وقت کے عالمی معیار کے اردو رسائل کی صف میں شمار ہونے لگا۔ علم و نظر،بحث و تحقیق،ادب و تنقید،تاریخ و تذکرہ ہر موضوع پر اس رسالے نے نہایت بصیرت افروز مقالات شائع کرنا شروع کیے اور اس کی وجہ سے متحدہ ہندمیں اس کی دھومیں مچ گئیں، مولانا اکبرآبادی کے اداریے،جو وہ ’’نظرات ‘‘کے عنوان سے لکھاکرتے تھے، بڑے ہی اہم،فکر انگیز اور معاصر مسائل وموضوعات پر بے لاگ تبصرے کی حیثیت رکھتے تھے،اداریے کے علاوہ انھوں نے اس رسالے میں مختلف علمی موضوعات پرمفصل و مبسوط مقالات بھی تحریر کیے،جو کئی قسطوں میں شائع ہوئے اور بعد میں وہ کتابی شکل میں بھی ندوۃ المصنفین سے چھپے۔

مولانا اکبرآبادی اور ماہنامہ ’’برہان‘‘کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ انھوں نے آزادی سے قبل اوراس کے بعد اردو زبان وادب کے تحفظ میں رضاکارانہ طورپر نہایت غیر معمولی رول اداکیا،خاص اردوزبان ورسم الخط کے مسائل پر مولانا نے بیش قیمت شذرات اور مضامین تحریر فرمائے، اس کے ساتھ ساتھ ملک بھر کے بڑے بڑے ادبا، محققین،ناقدین اور شعراکی تخلیقات و تحریریں ’’برہان‘‘میں شائع ہوتی رہیں۔ اس میں کسی شک و شبہے کی گنجایش نہیں کہ ماہنامہ’’برہان‘‘نے ہندوستان میں اردوزبان اور اردو ادب کے تحفظ کے لیے بلا کسی تشہیر اور پروپیگنڈے کے قابلِ قدر کردار اداکیااور اس میں دراصل اس رسالے کے مدیر مولانا اکبرآبادی کا خون ِ جگر شامل تھا۔

 مولانا اکبرآبادی قدیم و جدید ہر دوعلمی سرچشموں کے فیض یافتہ تھے،پھر عملی زندگی میں ان کا راست تعلق بھی دونوں علمی دھاروں کے نمایندہ اداروں سے رہا؛چنانچہ وہ دونوں قسم کے تعلیمی اداروں کے مسائل،مشکلات،ان کی ضروریات اور ان کے نظامِ تعلیم و تربیت سے پوری طرح آگاہ تھے اورضرورت پڑنے پر پوری بے باکی،جرأت مندی،استدلال کی قوت اور بیان واظہار کے یقین کے ساتھ اپنے خیال کا اظہار کرتے اور ان اداروں کوان کی خامیوں جکی طرف وبروقت توجہ دلاتے تھے،جہاں انھوں نے ’’برہان‘‘ کے بیسیوں اداریوں اور مضامین میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے مسائل و معاملات پر تبصرہ کیااور انتظامیہ کو مختلف مسائل کے حل کی طرف متوجہ کیا،وہیں دارالعلوم دیوبند، ندوۃ العلمااور دیگر مدارس اسلامیہ کی ضروریات،عصری تقاضوں اور ان کے نظامِ تعلیم و تربیت کوبہتر سے بہترکرنے کی طرف برابر توجہ دلاتے رہے۔ انھوں نے براہِ راست علماکوخطاب کیا اور ان کے فرائض و وواجبات سے انھیں آگاہ کرتے ہوئے ان کی کوتاہیوں اور کم نگاہیوں پر متنبہ بھی کیا۔ وہ قوم و ملت کے اکابر کا دل سے احترا م کرتے اوران کی تعظیم کرتے تھے،مگر اس تعظیم کامطلب یہ نہیں تھا کہ وہ کسی موقع پر اظہارِ حق سے چوک جائیں یا مصلحت کے نام پر فکر و عمل کے افراط و تفریط کو برداشت کرلیں۔ مولانا اکبرآبادی بیسویں صدی کے ایک عظیم مفکر تھے،ان کے افکار میں تابندگی ہے اور انھیں نئے فکری ڈسکورس کا حصہ بنانا ازحد ضروری ہے،ان کی تحریروں میں وہ نور ہے،جو عصرِ موجود کے تیرہ و تارماحول میں قندیلِ رہبانی کاکام کرسکتاہے۔

تبصرے بند ہیں۔