مولانا سلمان حسینی ندوی بالکل درست، لیکن…!

شہاب مرزا

مولانا سید سلمان ندوی ایک ایسی بلند پایہ شخصیت ہے جن کی فراست وفہم کے ترانے پوری دنیا میں گائے جاتے ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ وہ مولانا علی میاں ندوی کے شاگرد ہیں اور نا صرف بھارت بلکہ پوری دنیا کے سیاسی وملی حالات کے اسلامی نظریے کے آئینے میں دیکھنے کاانکا سپنا ایک خاص ملکا ہے۔ آخر کچھ تو بات ہوگی کہ مولانا سلمان ندوی آج بابری مسجد کی شہادت کو پورے ۲۵؍ سال بعد بھی بھارت کے مسلمانوں سے گوہر لگارہے ہیں کہ مسلمانو ں بابری مسجد کی ضد چھوڑدے اور اسے اپنی اصلی جگہ سے کہیں او رمنتقل کردے اور رام مندر تعمیر کے راستے صاف ک ردے۔ کیونکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار ایک جھوٹی تسلی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ مولانا سلمان ندوی نے شرعی بنیادوں کا سہارا لے کر یہ بھی کہا کہ بابری مسجد کا اپنے اصلی مقام سے دوسری طرف م نتقل کرنے میں کوئی شرعی قباحت نہیں ہے۔

انھوں نے یہ بات اس انتباہ کے ساتھ دیا ہے کہ ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ رام مند ربنانے کی جو خطرناک تحریک ۱۹۹۰ میں شروع کی گئی تھی وہی تحریک دوبارہ آج شروع کی جارہی ہے۔ انھو ں نے یہ بھی یاد دلایا کہ ۱۹۹۰ میں شروع کی گئی رام مندر تحریک میں ۱۹۹۲ میں تو مسجد تو شہید ہوہی گئی لیکن اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کا جو قتل عام ہوا وہ تصور سے بھی باہر ہے۔ حتی کہ یہ معاملہ ملک کے لئے ناسور بن چکا ہے۔

لہذا بابری مسجد رام مندر مسئلے پر ایک آسان حل مولانا سلمان ندوی نے یہ بتایا ہے کہ بابری مسجد کی زمین رام مندر کو دے دی جائے اور بابری مسجد کو کسی اور جگہ تعمیر کیا جائے۔ اس کے بدلے میں ملک کی دیگر تمام مسجدوں اور دینی مراکز کی سیکوریٹی کا باقاعدہ معاہدہ کیا جائے کہ اب رام مندر کے لئے مزین مل جانے کے بعد مسلمانوں کی کسی اور مسجد کی طرف آنکھ اٹھاکر بھی نہیں دیکھا جائے گا۔

مولانا سلمان ندوی کی باتوں میں بڑی ہمت نظر آتی ہے اور وہ اس ملک میں ہندو مسلمان بھائی چارہ امن وامان اور سکون بحال کرنا چاہتے ہیں مسلمانو ں کی جان ومال عزت وآبرو کی حفاظت چاہتے ہیں وہ نہیں چاہتے کہ اب اس کے معد ملک کی سرزمین کو بے قصور مسلمانو ں کے خون سے رنگین کردی جائے۔ ہمیں مولانا کی بات سے پوری طرح اتفاق رکھنا ضروری نہیں ہے لیکن اس ملک کا ایک عام مسلمان مولانا سلمان ندوی سے سوال کرنے کو اپنا شرعی حق سمجھ کر سوال کررہا ہے کہ آپ کی بات ۱۰۰ فیصد صحیح ہے اور مسلمانو ں کے تعلق سے آپ کی اس طرح کی سوچ آپ کے لئے اجر عظیم کا باعث ہے۔

کسے اچھا لگتا ہے کہ بے قصور انسانوں کا خون بہے اور مسجد مندر کے نام پر پوری انسانیت کا قتل ہو۔ بھارت کا ہر مسلمان ت وامن وامان ہی چاہتا ہے لیکن جہاں آپ معاہدے کی بات کررہے ہیں تو اس معاہدے کی کوئی قانونی حیثیت تو بتادے تاکہ معاہدے کو خلاف ورزی کرنے والے کسی بھی پارٹی کو جرم کی سزا ملنے کا کوئی سسٹم ملک میں موجود ہے۔ اس معاہدے کے عمل میں لانے کے لئے کوئی اقوام متحدہ سامنے آنے والی نہیں ہے۔ کیا گیارنٹی ہے کہ راج دنڈ سے زیادہ درھم دنڈ کی بات کرنے والے اور دستور ہند کے خلاف ورزی کرنے والے آپ کے معاہدے کو نہیں توڑینگے کل ہی ایک سنت مہاراج نے کہا کہ بابر نے سپریم کروٹ سے پوچھ کر رام مندر توڑ کر بابری مسجد نہیں بنائی تو پھر ہمیں کیو ں سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار ہے؟

ظاہر ہے کہ دستور اور عدالتوں کو طاق میں رکھنے والو ں سے معاہدے پر کھرا اترنے کی کوئی گیارنٹی دے گا۔فرض کیجئے کہ ایک بابری مسجد ان کے حوالے کربھی دی جائے اور بدلے میں دیگر مسجدوں ودینی مراکز کی سیکوریٹی کی گیارنٹی لی جائے تو مخالف فریق کا کہنا تو ہے کہ ایودھیا تو صرف جھانکی ہے مدھورا کاشی ابھی باقی ہے۔ بلکہ اور بھی بہت ساری چیزیں باقی ہیں۔ بہر کیف یہ معاملہ بابری مسجد یا رام مندر کا بھی ہرگز نظرنہیں آتا بلکہ یہ تو صرف انتخابات میں کامیابی کے لئے گرم کیا جاتا ہے۔ جس سے خود کشی کرتے کسانو ں اور بھکمری سے تڑپ تڑپ کر مرتے بچے اور ملک کے محتاجوں کا کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ البتہ رام مندر کے نام پر حاصل ہونے والی حکومتیں سے گجرات کے بڑے بڑے اڈانی ا مبانی جیسوں کو سرورکار ضرور ہوتا ہے۔ اور ویسے بھی سپریم کورٹ کا فیصلہ محض تسلی ہی کیو ں نہ دے۔

مسلمانو ں کو کبھی راج دنڈ سے زیادہ دھرم دنڈ ہونے کی بات کبھی نہیں کرتے اور آج بھی وہ سپریم کورٹ ہی کے فیصلے کو تسلیم کرتے ہیں چاہے وہ فیصلہ مسجد کے حق میں ہو یا مندر کے حق میں ہو۔ غرض کہ مسلمان مسجد کے لئے نہیں بلکہ دستور اور عدالتوں کے لئے نبردآزما ہیں۔

یہ سوال تو معاہدے کی دوسری پارٹی شری شری روی شنکر سے بھی کیا جاسکتا ہے دوسری بات یہ کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے پہلے مسلمانو ں کا بابری مسجد سے دستبردار ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مسلمان بزدل ہے۔ مسلمان ہی وہ قوم ہے جو کبھی بزدلوں کو جنم نہیں دیتی اسکی مثالیں کشمیر فلسطین اور افغانستان ہے۔ اور مسلمان ہونے کا دستوری حق وقانونی حق آپ سے چھین لیا جائے گا بلکہ یہ گھر واپسی کی شروعات ہوگی ویسے بھی آپ کا DNAچیک کردیا گیا ہے اور کہہ دیا گیا ہے کہ آپ کے اندر شام کرشنا کاDNAہے۔اس حیثیت سے اگر دھرم دنڈ کو راج دنڈ سے برترماننے والو ں کی طرف سے گھر واپسی کا امکان تو مستعد نہیں کیا جاسکتا اس کی جھانکی ٹرپل طلاق معاملہ میں آپ دیکھ چکے ہیں۔ اس لئے بابری مسجد کے فیصلے کو آخر کار سپریم کورٹ ہی کا حکم تسلیم کرتے ہوئے اور تسلیم کرنے میں مسلمانو ں کے وجود کی سلامتی نظر آتی ہے۔ مولانا سلمان ندوی ان باتوں پر بھی ضرور غور فرمائے۔ عین نوازش ہوگی۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔