مولانا شاہ حکیم محمد اخترکی یاد میں

(یومِ وفات پر خصوصی تحریر)

شاہ اجمل فاروق ندوی
2؍جون 2013م کو یہ خبر کراچی سے چلی اور دنیا کے لاکھوں لوگوں کو افسردہ کرگئی کہ عظیم مصلح ومربی ، عارف باللہ مولانا شاہ حکیم محمد اختر ( نوراللہ مرقدہ) طویل علالت کے بعد نوے سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ سوشل میڈیا اور پاکستانی اخبارات میں اس حادثے کے متعلق شائع ہونے والی خبروں سے اندازہ ہوا کہ مولانا کے ہزاروں مریدین و معتقدین یہ خبر سن کر بے حال ہوگئے اور ہزارہا ہزار کے مجمع نے بھیگی پلکوں اور مضطرب دل کے ساتھ اس مربی جلیل اور مرشد کامل کو سپرد خاک کردیا۔ گزشتہ سال مولانا سے ملاقات کرکے آنے والے ایک صاحب نے اطلاع دی تھی کہ’’ اب اُن کا چلنا پھرنا بند ہوگیا ہے۔ وعظ و تقریر کا سلسلہ تقریباً موقوف ہوچکا ہے۔ مجلس ہوتی ہے، لیکن حکیم صاحب بستر پر لیٹے رہتے ہیں۔ بہت مشکل سے دوچار الفاظ ادا کرپاتے ہیں۔ اہل مجلس کے لیے مواعظ کی ریکارڈنگ چلا دی جاتی ہے۔ لوگ کانوں سے آواز سن کر اور آنکھوں سے وعظ کرنے والے کی زیارت کرکے واپس لوٹ جاتے ہیں۔‘‘ جب خبر دینے والے نے یہ خبر دی تھی، اُس وقت حسرت بھی ہوئی تھی اور افسوس بھی۔ حسرت اس بات کی کہ کاش ! کسی طرح ہم بھی اس شیخ وقت کی زیارت کرسکتے اور افسوس اس بات کا کہ ہزاروں لاکھوں لوگوں کو رشدوہدایت کا درس دینے والا یہ شیخ کامل اب اپنی زندگی کے آخری مرحلے میں داخل ہوچکا ہے۔ اُسی وقت سے کان حادثۂ وفات کی خبر سننے کے لیے آمادہ ہوگئے تھے۔ اس کے باوجود 2؍جون کو جب یہ خبر ملی تو سخت افسوس ہوا۔ افسوس سے کہیں زیادہ امت کی محرومی کا احساس۔
مولانا شاہ حکیم محمد اختر ؒ اودھ کی سرزمین سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ ضلع پرتاپ گڑھ میں پیدا ہوئے اور وہیں پروان چڑھے۔ پرتاپ گڑھ کے ساتھ بھی عجیب معاملہ رہاہے ۔ علم و ادب، تصوف و سلوک ، اصلاح و ارشاد اور جہاد وشہادت کے میدان کی نہ جانے کتنی شخصیات اس سرزمین سے اٹھیں، لیکن ’’پرتاپ گڑھی‘‘ کا لاحقہ کم ہی لوگوں نے استعمال کیا۔ اگر چہ یہ شکایت یا نقص کی بات نہیں ہے، اس کے باوجود شاعر حریت حضرت نازش پرتاپ گڑھی نے بڑے جوش کے ساتھ کہا تھا:
وطن کے ذی حشم لوگوں سے اتنا بھی نہ ہوپایا
اجالا کم سے کم پرتاپ گڑھ کا نام ہی میں نے
حکیم صاحب نے بھی مستقل طور پر اپنے وطن کا لاحقہ استعمال نہیں کیا ۔ البتہ کبھی کبھی اس لاحقے کو استعمال کرتے تھے۔ مثال کے طور پر انہوں نے اپنی اہم ترین تصنیف ’’معارف مثنوی‘‘ کے پیش لفظ کے اختتام پراپنے نام کے بعد قوسین میں ’’پرتاپ گڑھی‘‘ لکھا ہے۔
انیسویں صدی کے نصف آخر اور بیسویں صدی کے نصف اول میں اللہ تعالیٰ نے برصغیر کو انگریزی مظالم اور غدر کے بعد پھیلی عام مایوسی کے عالم میں کچھ عظیم انسانی عطیات سے نوازا تھا۔ ان میں سے ایک گراں قدر الٰہی عطیہ حکیم الامت مولانا شاہ اشرف علی تھانوی ( نوراللہ مرقدہ) کی ذات گرامی تھی، جنہیں اللہ تعالیٰ نے حکمت اور اصلاح و تربیت کا خصوصی علم دے کر اس دنیا میں بھیجا تھا۔ پیرِ تھانہ بھون سے جو بھی خلوص دل کے ساتھ وابستہ ہوا، وہ کندن بن گیا۔ کاروان تھانوی کا ہر مسافرقابل قدر اور لائق صد احترام تھا۔ ان میں سے تین افراد اپنے مخصوص اوصاف و امتیازات کی وجہ سے بہت مقبول ہوئے۔ شیخ المشائخ مولانا شاہ عبدالغنی پھول پوریؒ ،عارف باللہ ڈاکٹرمحمد عبدالحئی عارفی ؒ اورمحی السنۃ مولانا شاہ ابرارالحق حقیؒ ۔مولاناشاہ حکیم محمد اختر ؒ کی خوش نصیبی یہ رہی کہ انہیں ان تینوں بزرگوں سے استفادے کا بھرپور موقع ملا۔ سلسلۂ تھانوی کے ان بزرگوں کے علاوہ انہیں بیسویں صدی کے ایک اور مصلح و مربی اور شیخ کامل سے استفادے کا موقع ملا۔ یعنی بقیۃ السلف مولانا شاہ محمد احمد پرتاپ گڑھی ( نوراللہ مرقدہ) ۔ان بزرگوں سے استفادے کے مواقع تو دوسروں کو بھی ملے ہوں گے۔ بہت سے ایسے بھی ہوں گے، جنہیں ان چاروں کی صحبتوں میں بیٹھنے کا موقع ملا ہو۔ لیکن یہ خوش نصیبی اُس انداز سے شاید ہی کسی کے حصے میں آئی ہو، جس انداز سے حکیم صاحب کے حصے میں آئی۔
اللہ تعالیٰ کو حکیم صاحب سے بڑا کام لینا تھا، اس لیے بچپن ہی سے ان کے دل میں علماء و صلحاء کی محبت و عقیدت پیدا کردی تھی۔ 15؍ سال کی عمر میں وہ مولانا شاہ محمد احمد پرتاپ گڑھی سے بیعت ہوگئے۔ مولانا پرتاپ گڑھی انتہائی بے نفسی اور انکسار وتواضع کے باوجود مرجع خواص و عام تھے۔ ان کے عہد کے دوسرے مشائخ مولانا شاہ عبدالقادر رائے پوری اور مولانا محمد زکریا کاندھلوی وغیرہ لوگوں کو ان کی طرف رجوع کرنے کا مشورہ دیتے تھے۔ مفکراسلام مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی اور محی السنۃ مولانا شاہ ابرارالحق حقی جیسے دورِ آخر کے علماء و مشائخ ان کی صحبت میں کچھ وقت گزارنے کے لیے سفر کیا کرتے تھے۔ حکیم صاحب ایسی جلیل القدر ہستی کے ہاتھ پر نہ صرف یہ کہ بیعت ہوئے بل کہ ان کے ساتھ مسلسل تین سال قیام بھی کیا۔مولانا پرتاپ گڑھی کی درد و عشق میں ڈوبی ہوئی شخصیت نے انہیں بے حد متأثر کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے مرشد اول کی وفات کے بعد انہوں نے فارسی میں ساٹھ اشعار کہے۔ یہ اشعار ان کی مثنوی ’’مثنوی اختر‘‘ کا حصہ ہیں۔ حکیم صاحب نے مطلعے ہی میں مولانا پرتاپ گڑھی کی شخصیت کا پورا تعارف کرا دیا ہے۔ کہتے ہیں:

اے سراپا عاشقِ حق جانِ من
اے دوائے ایں دلِ رنجانِ من
(اے سراپا حق تعالیٰ کی محبت میں گرفتار میری جان، اے میرے غم زدہ دل کی دوا)
پھر آخری شعر میں مولانا کی وفات پر خود کو یتیم محسوس کرتے ہوئے کہتے ہیں:
کرد ما را از غم فرقت یتیم
رفت خود فی باب جنات النعیم
(اپنی جدائی کے غم سے مجھے یتیم کردیا اور خود نعمتوں بھری جنتوں میں داخل ہوگئے)
مولانا پرتاپ گڑھی کے ساتھ تین سال گزارنے کے بعد حکیم صاحب کی زندگی کا دوسرا اہم اور مبارک مرحلہ شروع ہوا۔اللہ تعالیٰ نے انہیں حضرت تھانوی کے ایک خصوصی فیض یافتہ اور خلیفہ مولانا شاہ عبدالغنی پھول پوری ( نوراللہ مرقدہ)کی خدمت میں پہنچا دیا۔ مولانا پھول پوری کے نفس گرم اور علم وفضل سے ہرہوش مند واقف ہے۔ وہ نہ صرف یہ کہ علماء و عوام کامرجع تھے بل کہ حضرت تھانوی کے تقریباً تمام باحیات خلفاء بھی ان کو اپنا مرجع سمجھتے تھے۔حکیم صاحب کو اس مصلحِ یگانہ کی خدمت میں طویل قیام کا موقع ملا۔ ایک دو نہیں، پورے سترہ سال ان کی خدمت میں گزارے۔ علوم ظاہری بھی حاصل کیے اور علوم باطنی بھی۔نہ جانے کتنی بار ایسا ہوا کہ وہ مولانا پھول پوری کے ساتھ رات کے پچھلے پہر میں جنگل بیابان میں جاتے ۔اپنے شیخ کی عبادت وانابت اور ذکرواذکار سے اپنی آنکھوں، کانوں، روح اور دل کو پاکیزہ بھی کرتے اور خود بھی ان کے ساتھ اذکارواشغال میں مصروف رہتے۔ اپنی زندگی کے اس سنہرے دور کا خلاصہ بھی انہوں نے اپنی فارسی مثنوی اشعار میں بیان کیا ہے۔ ان اشعار کی تعداد 37؍ہے۔ مطلع ہے:
اے شہِ عبدالغنی اے روحِ ما
صدقۂ تو جملہ ایں مفتوح ما
(اے شاہ عبدالغنی ! اے میری روح! مجھے ساری کام یابیاں تیرے ہی طفیل میں حاصل ہوئی ہیں)
شاہ عبدالغنی پھول پوری کے ساتھ ساتھ انہیں حضرت تھانوی کے ایک اورخلیفہ ڈاکٹر محمد عبدالحئی عارفی ( نوراللہ مرقدہ)سے بھرپور استفادے کا موقع ملا۔ ڈاکٹر صاحب نے بھی انہیں اپنی توجہات و عنایات سے نوازا۔ آخر میں وہ کاروان تھانوی کے آخری مسافر مولانا شاہ ابرارالحق حقی ( نوراللہ مرقدہ)سے وابستہ ہوئے۔ شاہِ ہردوئی نے انہیں خلافت سے بھی نوازا اور ’’عارف باللہ‘‘ کے خطاب سے بھی سرفراز کیا ۔پھر دنیا بھر میں حکیم صاحب ان ہی کے خلیفہ کی حیثیت سے معروف ہوئے اور خود کو ان کے مشن کے لیے وقف کردیا۔ کراچی میں ہردوئی کے طرز پر مدرسہ اشرف المدارس قائم کیا۔ مجلس دعوۃ الحق کا نظام شروع کیا اور اسے دنیا بھر میں پھیلانے کی کوشش کی۔ ’’مجالس ابرار‘‘ مرتب کرکے اپنے شیخ کے معارف کی اشاعت کا بھی نظم کیا اور ملفوظاتی ادب میں اضافہ بھی ۔ اپنی مثنوی میں انہوں نے ’’در بیان تشکر احسانات شیخ‘‘ کے عنوان سے 24؍ اشعار کہے ہیں۔ پوری’’ مثنوی اختر ‘‘ کی طرح ان تمام اشعارمیں بھی بڑی سلاست و روانی ہے۔ ان میں سے صرف چار اشعار ملاحظہ فرمائیں:

اے برارالحق چہ احساں کردۂ
ماہ جانم را چہ تاباں کردۂ
اے کہ ممنونت دلِ بیمارِ من
اے جنیدؒ و رومیؒ و عطارؒ ِ من
اے برارالحق بہ حقِ ربِ دیں
لطف کن براختر اندوہ گیں
پیشِ نورِ آفتابت اے برار
اختر و صد اختراں را چہ شمار

(اے ابرارالحق ! تو نے مجھ پر کیا احسان کردیا ، میری جان کے چاند کو تونے کتنا تاب ناک کردیا۔ اے وہ ذات! کہ میرا دل جس کا احسان مند ہے، اے میرے جنید و رومی و عطار۔
اے ابرارالحق ! تمہیں رب کریم کا واسطہ، غم و اندوہ کے شکار اختر پہ کچھ عنایت کرو۔ اے ابرارالحق ! تیرے سورج کی روشنی کے سامنے، چاند اور سیکڑوں چاندوں کی کیا حیثیت ہے۔)
آخری شعر میں لفظ اختر کا استعمال بڑا لطف دے رہاہے، کیوں کہ یہ خود شاعر کا نام بھی ہے۔ اس سے یہ مفہوم بھی نکلتا ہے کہ آپ کے سامنے میری اور میرے جیسے سیکڑوں اختروں کی کیا حیثیت؟ یہ اشعار حکیم صاحب کی فارسی شاعری کا بھی بہترین نمونہ ہیں اور اپنے شیخ و مرشد کے لیے ان کے دلی جذبات کے بہترین عکاس بھی ۔
ان شخصیات سے کئی دہائیوں تک مسلسل وابستہ رہنے کی وجہ سے حکیم صاحب کے اندر ایک طرف عشق الٰہی کی چنگاری شعلۂ جوالہ بن گئی ، تو دوسری طرف زمانے کی ضرورتوں کا خیال کرتے ہوئے امت کو اتباع سنت کی راہ پر گام زن کرنے کا جذبہ پیدا ہوا۔ چناں چہ ایک طرف انہوں نے لوگوں کو اپنے مواعظ، تصنیفات و رسائل اور مجلسی ارشادات کے ذریعے ربّ ذوالجلال کی محبت پیدا کرنے اور ہروقت اس کی رضا کو ملحوظ رکھنے پر ابھارا، تو دوسری طرف مجلس دعوۃ الحق کے نظام کو بے پناہ وسعت دیتے ہوئے اور دوسرے مختلف طریقوں سے ایک ایک سنت کا اہتمام کرنے پر آمادہ کیا۔ان کی تصنیفات، مواعظ، ملفوظات اور فارسی و اردو اشعار کو پڑھنے کے بعد جو چیز سب سے زیادہ ابھر کر سامنے آتی ہے، وہ ہے آتشِ عشقِ الٰہی۔ صاف محسوس ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف یہ کہ اس آگ میں جل رہے ہیں بل کہ اس آگ میں جلنے ہی کو حاصل زندگی سمجھتے ہیں۔ ان کی زبانی یا تحریری گفتگو کا ایک ایک لفظ حق تعالیٰ شانہ کو راضی کرنے کے لیے ہر ذہنی یا جسمانی تکلیف برداشت کرنے کا پیغام دیتا ہے۔ رب کی رضا کے لیے ذہنی یا جسمانی تکلیف ہی کو وہ زندگی کی روح قرار دیتے ہیں۔
عام طور پرحکیم صاحب کی گفتگو کا موضوع بدنظری ہوا کرتی تھی۔بدنظری کی رائج شکلیں اور اس کے مفاسد بیان کرنے میں وہ کسی ابہام یا اشارے کنایے کا سہارا نہیں لیتے تھے۔ بل کہ بہت واضح الفاظ میں گفتگو کرتے تھے ۔ ساتھ ہی اس سے بچنے کے عملی اوربہت آسان طریقے بھی بیان کرتے تھے۔
بہت سے لوگوں کو اس طرز عمل پر اعتراض کرتے ہوئے سنا۔ بل کہ خدا جھوٹ نہ بلوائے شروع شروع میں خود ہمارے ذہن میں بھی یہ اعتراض پیدا ہوا تھا۔ پھر آہستہ آہستہ خود ہی یہ بات سمجھ میں آگئی کہ دنیا میں بدنظری یا آنکھوں کے زنا کے قدم قدم پر کتنے امکانات موجود ہیں۔ ان ہزاروں لاکھوں امکانات کے مقابلے کے لیے ضرورت تو یہ ہے کہ ہر عالم و مصلح اور واعظ و مرشد کھل کر گفتگو کرے۔ ایک شخص کھل کر بولتا ہے، تو شیطان اُسی کے متعلق ذہن میں وسوسے پیدا کرتا ہے۔ بدنظری اور دوسرے عام گناہوں سے بچنے کے لیے دل پر کیے جانے والے جبر کو، وہ دل میں عشق الٰہی کی آگ لگانے کا اہم ذریعہ سمجھتے تھے۔ان کے اکثر خطبات و مواعظ کا محور ’’عشق الٰہی‘‘ ہوتا تھا۔ اسی لیے انہوں نے اپنے خطبات کے مجموعے کا نام ’’مواعظ درد محبت‘‘ رکھا تھا۔ اپنے مشمولات کے لحاظ سے یہ نام انتہائی مناسب ہے۔ پانچ جلدوں میں ان کے یہ مواعظ ہندستان میں بھی بہت مقبول ہوئے۔ عوام تو عوام، علماء و صلحاء نے بھی ان مواعظ کو سننے سنانے کا اہتمام کیا۔ ایک تو ان مواعظ کے عام لیکن انتہائی اہم موضوعات، اس پر حکیم صاحب کا مخلصانہ اور دردمندانہ انداز بیان اور آسان عملی علاج ۔ جو صدق دل سے پڑھتاہے، متأثر ضرور ہوتا ہے۔ صرف متأثر ہی نہیں ہوتا، عمل کی بھی توفیق ہوتی ہے۔ یہاں یادداشت کی بنیاد پر ان مواعظ کی اثرآفرینی کی متعدد مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان مواعظ پر مستقل موضوع کی حیثیت سے گفتگو ہونی چاہیے ۔ جب کہ اس وقت ہمارا موضوع صاحبِ مواعظ کی ذات گرامی ہے، نہ کہ مواعظ۔ہرشخص ان مواعظ کو پڑھ کر خودان کی اہمیت و افادیت کا اندازہ لگاسکتا ہے۔ حکیم صاحب کا سہل ممتنع کا یہ شعر ان کی تعلیمات کا نچوڑ بھی ہے اور خود ان کی زندگی کا شعری مظہر بھی:
خالقِ دل کو دل دیا ہوتا
آج تو رشکِ اولیاء ہوتا
مولانا شاہ حکیم محمد اختر ؒ کا سب سے بڑا اور اہم علمی کام مثنوی مولانا روم کی تلخیص و تشریح ہے۔ یہ کتاب علمی دنیا میں’’معارف مثنوی‘‘ کے نام سے معروف ہے۔حکیم صاحب کے اس علمی کام کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے مثنوی کی اہمیت کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ مثنوی مولانا روم کے متعلق شمس العلماء علامہ شبلی نعمانی ( نوراللہ مرقدہ) کا دعویٰ ہے کہ مثنوی کو جو مقبولیت و شہرت حاصل ہوئی، وہ فارسی کی کسی دوسری کتاب کو حاصل نہ ہوسکی۔لیکن عام طور پر مثنوی کو صرف تصوف اور غیرمستند واقعات کا مجموعہ سمجھا جاتا ہے۔ ایسے ’’دانش مندوں ‘‘ کی بھی کمی نہیں ہے، جو مثنوی اور صاحب مثنوی کو گم راہی اور شرک و بدعات کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ حالاں کہ علامہ شبلی نعمانی جیسے عظیم محقق اور فاضلِ یگانہ کی رائے ہے کہ:
’’فارسی زبان میں جس قدر کتابیں نظم یا نثر میں لکھی گئی ہیں، کسی میں ایسے دقیق، نازک
اورعظیم الشان مسائل اور اسرار نہیں مل سکتے، جو مثنوی میں کثرت سے پائے جاتے ہیں۔
فارسی پر موقوف نہیں، اس قسم کے نکات اور دقائق کا عربی تصنیفات میں بھی مشکل سے
پتا لگتا ہے۔اس لحاظ سے اگر علماء اور ارباب فن نے مثنوی کی طرف تمام اور کتابوں کی
نسبت زیادہ توجہ کی اور یہاں تک مبالغہ کیا کہ مصرعہ ہست قرآن در زبان پہلوی، تو کچھ
تعجب کی بات نہیں۔‘‘ (سوانح مولانا روم از علامہ شبلی نعمانی، ص 53)
شیخ المشائخ حاجی امداداللہ مہاجر مکی ( نوراللہ مرقدہ) اور ان کے خلیفۂ اجل حکیم الامت مولانا شاہ اشرف علی تھانوی کومثنوی کا خصوصی ذوق تھا۔ اسی ذوق اور دل چسپی کا مظہر مثنوی کی وہ بے نظیر مفصل شرح ہے ، جو ان دونوں بزرگوں کے ذریعے سامنے آئی۔ یہ شرح مثنوی پاکستان سے 16؍ضخیم جلدوں میں شائع ہوئی ہے۔اپنی ضخامت اور تفصیل کی وجہ سے یہ ان لوگوں کے لیے مفید ہے جو مثنوی کا اختصاصی یا تحقیقی مطالعہ کرنا چاہتے ہوں ۔ لیکن وہ لوگ جو اتنا تفصیلی مطالعہ نہ کرسکتے ہوں اور مثنوی کے معارف و حِکم سے مستفید ہونا چاہتے ہوں، ان کے لیے اس شرح سے استفادہ کرنا بہت مشکل تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے یہ عظیم خدمت وسعادت مولانا شاہ حکیم محمد اختر ؒ کے حصے میں رکھی تھی کہ وہ مثنوی کے انمول خزانے کا منہ اردوداں طبقے کے لیے کھول دیں۔ انہیں مثنوی کا تعارف اپنے شیخِ اول مولانا شاہ محمد احمد پرتاپ گڑھی کے ذریعے ہوا تھا۔ جو مثنوی کے بڑے عاشق بھی تھے اور اس کے علوم و معارف کے حامل بھی۔ ساتھ ہی اپنی تقریروں اور مجلسوں میں کثرت سے مثنوی کے اشعار بھی پڑھا کرتے تھے۔پھر مثنوی کے اس ابتدائی تعارف کو ذوق میں بدلا ان کے شیخِ ثانی مولانا شاہ عبدالغنی پھول پوری نے۔انہوں نے مثنوی کو اپنے مرشد مولانا اشرف علی تھانوی سے پڑھا اور سمجھا تھا۔ وہ خود بھی اپنی خانقاہ میں عصر بعد مثنوی کا باقاعدہ درس دیا کرتے تھے اور مولانا روم ؒ کے علوم و معارف سے بڑے دل کش انداز میں علماء و عوام کو سیراب کرتے تھے ۔ حکیم صاحب نے ان سے مثنوی کا درس بھی لیااور اس کا ذوق بھی پایا ۔ پھر جب مثنوی ان کے مزاج کا حصہ بن گئی تو دوسروں کو اس سے فیض یاب کرنے کے لیے اس کی تلخیص و تشریح کا کام انجام دیا۔ ان کی کتاب ’’معار ف مثنوی‘‘ کو علماء و صلحاء سب نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ یہ کتاب اردو میں مثنوی سے استفادے کا سب سے عام ذریعہ بن گئی۔ اس کتاب کی اہمیت کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسے جن علماء و مشائخ نے پسند کیا اور اپنی پسند کا اظہارتحریری طور پر بھی کیا ، اُن میں مفتی محمد شفیع عثمانی، مولانا محمد زکریا کاندھلوی، مولانا محمد احمد پرتاپ گڑھی، ڈاکٹر عبدالحئی عارفی، مولانا سید ابوالحسن علی ندوی، مولانا محمد یوسف بنوری، مولانا محمد اللہ ڈھاکوی، مولانا ظفر احمد عثمانی تھانوی، مولانا محمد منظور نعمانی، مولانا ابرارالحق حقی، مولانا عاشق الٰہی بلند شہری، مفتی رشید احمد لدھیانوی اور شیخ محی الدین زاہدی ایرانی شامل ہیں۔یہ کتاب بھی تفصیلی جائزے کی متقاضی ہے۔ اس کے آخر میں تقریباً سو صفحات پر مشتمل حکیم صاحب کی فارسی مثنوی بھی خاصے کی چیز ہے۔
مولانا شاہ حکیم محمد اختر ؒ کا ایک بہت نمایاں وصف یہ بھی تھا کہ انہوں نے دورحاضر میں اہل تصوف و سلوک کی ذمے داریوں کو بہ خوبی سمجھا تھا۔ انہوں نے آج کے مسلمانوں کے مزاج اور فطرت کا بھی خیال رکھا اور ان کی دینی و ذہنی سطح کا بھی۔ جب کہ عام طور پر ایسا نہیں ہوتا۔ اصحابِ تصوف اپنی زبانی یا تحریری گفتگو کو اُس بلندی سے شروع کرتے ہیں، جہاں تک پہنچنا عام انسان کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ ساتھ ہی وہ لوگوں سے ایسے اعمال و مجاہدات کا مطالبہ کرتے ہیں، جنہیں اکیسویں صدی کا انسان بہ مشکل ہی اختیار کرسکتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نہ تو مشائخ اپنی ہزار عظمتوں کے باوجود عوام کے لیے مفید ہوپاتے ہیں اور نہ عوام کی اصلاح ہوپاتی ہے۔ لیکن حکیم صاحب نے جن بزرگوں کے زیرسایہ مقاماتِ سلوک طے کیے تھے، وہ سب کے سب اس غیرمستحسن روش پر نہیں تھے۔ ان سب نے اصلاح و تربیت کو آسان اور عملی انداز میں پیش کیا تھا۔ چناں چہ حکیم صاحب نے بھی اپنے مشائخ کی اتباع کرتے ہوئے تصوف کو آسان اور عملی بنادیا۔ بل کہ اس میں بہت سے قابل قدر اضافے بھی کیے۔ انہوں نے اپنے مواعظ کی زبان و بیان کو بھی سہل اور آسان بنایا اور مواعظ میں پیش کی جانے والے مضامین بھی عام فہم اختیار کیے۔ وقت کی کمی اور مصروفیات کو دیکھتے ہوئے چھوٹے چھوٹے کتابچوں اور پمفلٹس کی شکل میں بھی دینی تعلیمات عام کیں اور انٹر نیٹ کے ذریعے بھی۔ 2004م میں جب ہم نے سب سے پہلے اُن کی کتابیں پڑھنی شروع کیں، اُس وقت معلوم ہوا تھا کہ حکیم صاحب نے www.khanqah.org کے نام سے اپنی مجالس و مواعظ کو نیٹ کے ذریعے عام کرنے کا طریقہ بھی اختیار کررکھا ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ انہوں نے راہِ سلوک میں بہت اونچے مقام پر فائز ہونے کے باوجود عوام کے مزاج کو پوری طرح سمجھا تھا ۔ ساتھ ہی زمانے کے تقاضوں کی رعایت کرتے ہوئے اصلاح و تربیت کا مضبوط و مفید نظام قائم کیا تھا۔
حکیم صاحب کی وفات کی خبریں ہندستانی اخبارات میں بھی شائع ہوئی تھیں اوریہاں کے دینی رسائل نے بھی انہیں خراج عقیدت پیش کیا تھا۔ مسلمانان ہند اُن کی شخصیت اور خدمات کو کس نگاہ سے دیکھتے تھے؟ اس بات کا اندازہ ملت اسلامیہ ہندیہ کے قائد اعلیٰ اور عظیم مرشد روحانی سیدالعلماء مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی (صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ و ناظم ندوۃ العلماء، لکھنؤ)کے اُس خط سے ہوتا ہے، جو انہوں نے 3؍جون 2013م کو بہ طور تعزیت حکیم صاحب کے جانشین اور صاحب زادے حکیم محمد مظہر صاحب کو لکھا تھا۔ملت اسلامیہ ہندیہ کی سب سے اعلیٰ قیادت کے یہ جملے پوری ملت کی نمائندگی کرتے ہیں :
’’آج نہایت رنجیدہ اور تکلیف دہ خبر سننے میں آئی کہ آپ کے والد ماجد اور عظیم المرتبت
مربی حضرت حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ اپنے محبین اور قدردانوں سے رخصت
ہوکرعالم باقی کی طرف منتقل ہوگئے۔ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے مسترشدین بہت بڑے
علاقے میں پھیلے ہوئے ہیں۔ہندستان و پاکستان میں ان کے وعظ و ارشاد سے فائدہ
اٹھانے والوں کی بہت بڑی تعداد موجود ہے۔ سب کو عظیم خسارے سے سابقہ پڑا۔
حضرت کئی برسوں سے دینی و اصلاحی سطح پر مرجع خلائق تھے اور کچھ عرصے
سے دیگر عظیم بزرگوں کی وفات کے نتیجے میں ایک طرح سے تنہا مرکز ارشاد پر فائز
تھے۔ امت کے اس خسارے پر میں اور ہمارے سارے اہل تعلق قلبی رنج کا اظہار
کرتے ہیں۔‘‘ (پندرہ روزہ تعمیر حیات، لکھنؤ، 10؍جون2013م، ص 8)

1419ھ بہ مطابق 99۔1998م میں رمضان کے مہینے میں بیلجیم کا ایک شخص حکیم صاحبؒ کی خانقاہ میں آکر رہا۔ اردو زبان سے واقف نہ ہونے کی وجہ سے وہ حکیم صاحبؒ کے مواعظ و ارشادات سمجھ نہیں پاتا تھا۔ ایک دن لوگوں نے دیکھا کہ حکیم صاحبؒ وعظ فرما رہے ہیں ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کی جلالتِ شان کا تذکرہ ہو رہا ہے۔ اہل مجلس کے ساتھ ساتھ وہ یورپی شخص بھی شدید تأثر لے رہا ہے۔ اتنا تأثر کہ اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں۔ مجلس کے اختتام پر لوگوں نے اس سے پوچھا کہ تم تو اردو سمجھتے نہیں، پھر کیوں رو رہے تھے؟ اس نے جواب دیا:
”Shaykh’s word touch my heart and my eyes involuntarily
weep, thinking of Allah’s greatness.”
(شیخ کی باتوں نے میرے دل کو چھولیا اور اللہ کی عظمت کے خیال سے بے ساختہ میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔)
ہم نے نہ تو اس شیخِ وقت کو کبھی دیکھا اور نہ کبھی راست استفادے کا موقع ملا۔ اس کے باوجود ان کے حادثۂ وفات پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم اپنے کسی مربی اور بڑے سے محروم ہوگئے۔ کیوں کہ ان کے مواعظ و تصانیف نے ہمارے جیسے نہ جانے کتنے لوگوں کو نہ صرف یہ کہ متأثر کیاہوگا بل کہ اصلاح حال کے لیے ابھارابھی ہوگا۔ نہ جانے کتنوں کو گناہوں سے بچنے کی توفیق ملی ہوگی اور کتنوں نے ان کے مواعظ سے عشق و محبت کا درس لیا ہوگا۔اس لیے اگر ان سے استفادہ کرنے والوں کی کوئی فہرست تیار کی جائے گی، تو ہماری گزارش بل کہ اصرار آمیز گزارش ہوگی کہ اس فہرست میں سب سے آخر ہی میں سہی، لیکن ہمارا نام ضرور شامل کیا جائے۔ ہم ان کے مسترشد نہ سہی ، ادنیٰ ارادت مند اور فیض یافتہ تو ہیں ہی۔ نام کی مریدی کے اس شرف کو نہ کوئی بے اصل قرار دے سکتا ہے اور نہ ہم سے یہ اعزاز چھین سکتا ہے۔

تبصرے بند ہیں۔