مولانا محمد اسلم قاسمیؒ: ایک عاشق رسول ـ تھا، نہ رہا

محمد نوشاد نوری قاسمی

 استاذ دار العلوم وقف دیوبند

  موجودہ زمانے میں متکلم اسلام حضرت مولانا محمد اسلم صاحب قاسمیؒ( ولادت:۳جون۱۹۳۸ء۔ وفات:۱۳نومبر ۲۰۱۷ء) فکر وفلسفہ، علم وادب، شعر وسخن، فقہ وحدیث اور خطابت وصحافت کے اس قافلہ کا حصہ اور اس کی روایات کے امین تھے، جس کی خدمات کسی ایک گوشہ میں محدود نہ رہیں ؛ بل کہ جس نے علوم وفنون کے گیسوسنوارے، فکر وخیال کی بزم سجائی، مسندفقہ و حدیث کو زینت بخشی، منبر ومحراب ان کی مؤثر تقریروں کے گواہ بنے، اور ان کی بلیغ تحریروں نے علم وفن کو زندگی بخشی۔

 حضرت مولانا محمد اسلم صاحب قاسمیؒ کی شخصیت، ایک عہد ساز شخصیت تھی، ان کی زندگی مین مختلف قسم کے اتار چڑھاؤ دیکھے گئے ؛ وہ دار العلوم دیوبند میں مختلف شعبوں کے منتظم رہے، اجلاس صدسالہ کے کامیاب ڈائریکٹررہے، جو برصغیر میں سیمینار اور اجلاس کی تاریخ میں اپنے نظم ونسق، عامۃ المسلمین کا ازدحام، اورمختلف اسلامی ممالک کی نمائندگی کے حوالے سے ایک ریکارڈساز اجلاس رہا، قضیہ دار العلوم کے بعد، دار العلوم وقف دیوبند کے ایک مضبوط معمار رہے، یہاں کے انتظام وانصرام کے استحکام میں ان کا کردار ناقابل فراموش رہا، وہ دار العلوم وقف میں شیخ الحدیث اور صدر المدرسین جیسے باوقار عہدوں کی زینت رہے۔

میرے نزدیک مولاناکااہم ترین وصف، عشق رسولﷺ تھا، سیرت النبی ﷺ ان کا سب سے پسندیدہ موضوع تھا، وہ اس باب میں دور حاضر کے ممتاز ترین فرد تھے،وہ سیرت النبیﷺ میں، دور حاضر کے تمام مسائل کا حل تلاش لیاکرتے تھے، انہوں نے سیرت کو ایک فن کی حیثیت سے پڑھا تھا، جن لوگوں نے سیرت پر ان کی تقریریں سنی ہیں، ان کا اعتراف ہے کہ اس جیسی تقریر پھر نہیں سنی، غالباً ۲۰۰۱ء میں وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ایک اجلاس سیرت النبی ﷺ میں بلائے گئے، ساڑھے تین گھنٹے حضرت کی تقریر جاری رہی، اس اجلاس کے شرکاء کا بیان ہے کہ دوران تقریر معلوم ہورہا تھا، جیسے کوئی آبشار ہے جو بہتا چلا جارہا ہے، علم وحکمت کا کوئی دریاہے جو موجزن ہے، مستند معلومات بھی ہیں، سیرت نگاری وسیرت بیانی کے روایتی اور جامد طرز پر طنزیہ اشارے بھی ہیں، موجودہ مسائل کا حل بھی ہے، اور مستقبل کی منصوبہ بندی بھی، علی گڑھ میں اس تقریر نے ایک سماں باندھ دیا اور لوگ کہہ اٹھے کہ تقریر تو اس کو کہتے ہیں۔

  یہی ان کا عام اندازتھا، ان کی علمی کارناموں اور خطبات کو پیش نظر رکھا جائے تو اندازہ ہوگا کہ وہ فن سیرت نگاری کے بے تاج بادشاہ تھے، وہ مسلمانوں کی نئی نسل کو سیرت سے روشناس کرانے کا بڑا جذبہ رکھتے تھے، اسی جذبے سے انہوں نے پہلے ’’مجموعہ ٔرسول ‘‘ کے نام سے سیرت کا ایک جامع نصاب مرتب کیا، جو آج بازار میں ’’سیرت پاک‘‘ کے نام سے دستیاب ہے، پھر سیرت النبیﷺ کی اہم ترین کتاب’’سیرت حلبیۃ‘‘کاسلیس اردو زبان میں ترجمہ کیا۔

 سیرت نگاری میں ان کی مہارت اورخصوصیت کا ذکرکرتے ہوئے ان کے والد بزرگ وارحکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمی ؒ رقم طراز ہیں : ’’عزیز موصوف کو فن سیرت سے چوں کہ پہلے ہی سے خاص لگاؤ اور طبعی مناسبت ہے، چناں چہ اس سے پہلے وہ مجموعۂ سیرت رسول ﷺ کے نام سے اپنی ایک بلیغ اور بلند پایہ تالیف شائع کرچکے ہیں، جو مقبول عام ہوئی، اور بعض بعض تعلیم گاہوں کے نصاب میں بھی قبول کرلی گئی، اس لیے وہی احق تھے کہ سیرت حلبیہ جیسی مستند اور ماخذ کتب ذخیرۂ سیرت سے ہندوستان کو روشناس کرائیں، انہوں نے اپنے خداداد ملکہ سیرت نگاری سے اس اہم سیرت کو اس خوبی سے اردو کا جامہ پہنانا شروع کیا ہے کہ وہ اس کے بدن پر چست اور فٹ نظر آرہا ہے ‘‘(حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحبؒ، مقدمہ سیرت حلبیہ، ص۴۰)

سیرت النبیﷺ حضرت مولانا محمد اسلم صاحبؒ کی نگاہ میں :

  متکلم اسلام حضرت مولانا محمد اسلم صاحب قاسمی ؒ کی نظرمیں، سیرت النبی ﷺ کا موضوع، امت مسلمہ کے تمام مسائل کی دوائے شافی، اور ذلت ونکبت، پستی اور پست ہمتی کے زہر کا تریاق ہے، سیرت النبیﷺ امت مسلمہ کی شہ رگ ہے، سیرت سے امت کے رشتہ کی کمزوری، خود کشی کے مترادف ہے، مولانا رقم طراز ہیں : ’’سیرت پیغمبر ﷺ کاموضوع، در اصل دینی اور اعتقادی نقطۂ نظر سے مسلمانوں کے لیے بنیادی اہمیت کا حامل ہے، کیوں کہ یہ اسلام کے دور اول کی صرف تاریخ، واقعات پارینہ کی حکایت اور ایک عظیم الشان کی سوانح عمری ہی نہیں ؛ بلکہ یہ ایک عام مسلمان کے لیے ایک مکمل ترین اور آخری نمونہ ہے، یہ ہمارے لیے ایک ایسا خوب صورت گلدستۂ حیات ہے، جس کی نقل ا ور پیر وی کرکے ہم اسلام کی صحیح معنی میں، پیروی کرسکتے ہیں ‘‘(مقد مہ سیرت حلبیہ، ص۳۰)

  مزید لکھتے ہیں : ’’آج رسول اللہ ﷺ کی ذات اقدس ہماری نظروں کے سامنے نہیں ؛ لیکن آپ ﷺ کا چھوڑا ہوا اسوہ ونمونہ اور آپ ﷺ کی پاکیزہ زندگی کے وہ تمام نقوش، جو ہماری ہدایت کا سرچشمہ ہیں، سیرت کی کتابوں میں ثبت ہیں، یہ ہمارے لیے سب سے عظیم تہذیبی خزانہ، سب سے مکمل ثقافتی ورثہ، اور سب سے قیمتی تاریخی سرمایہ ہے، ایک بھٹکے ہوئے مسافر کو اس مشعل سے زندگی کے ہر موڑپر، ہر شعبے میں، اور ہرمرحلے میں روشنی اوررہنمائی حاصل ہوتی ہے، اور ہر تشنہ کام اس سرچشمہ ٔفیض سے اپنی روح کی پیاس بجھا سکتا ہے، اس رسول برحق اور انسان کامل کی کتاب زندگی کے یہ اوراق ایک ایسی امانت ہیں، جس کو ہردور میں زبان وقلم کے ذریعہ اس تسلسل کے ساتھ، آپ کی امت تک پہنچایا جاتارہا ہے، کہ آج تک اس چشمۂ فیض کی روانی میں فرق نہ آیا‘‘(حوالہ ٔ بالا)۔

مولانا کی زندگی اور تحریروں کو دیکھ کراندازہ ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی طرح امت میں سیرت کے پیغام کو پھیلانے کے لیے کوشاں تھے، وہ آج کے دور میں سیرت کی ضرورت کو پہلے سے کہیں زیاد ہ محسوس کرتے تھے، ان کا کہنا تھا کہ آج کا انسان اپنے نصب العین سے سب سے زیادہ دور ہے، اور روح انسانی آج سب سے زیادہ پیاسی ہے، اور اس کی تشنگی کا علاج صرف سیرت کا چشمۂ صافی ہے، ایک جگہ مولانا لکھتے ہیں : ’’عام طور پر تمام انسان اور خاص طور پر ہر مسلمان اس اسوے اورنمونے کا ہردور میں محتاج رہاہے، اور اس سے ہدایت پاتارہاہے؛ مگر شاید آج کا انسان اور آج کا مسلمان ہمیشہ سے زیادہ اس دستور حیات کا ضرورت مند ہے؛ کیوں کہ اس دور نے انسان کی زندگی کا آرام اور عیش بہم پہونچانے کے ساتھ، اس کی روح کو ہمیشہ سے زیادہ تشنگی دی ہے، اور اسے زندگی کے اس نصب العین سے بہت دور پہونچادیا ہے، جو ہر زمانے میں اس کا سب سے بڑاہمدم اور رفیق رہاہے۔۔۔۔۔۔۔۔ اس وقت زندگی کا وہ نمونہ ہی اس کوروحانی سکون اور آسودگی فراہم کرسکتاہے، جو ہر لغزش سے پاک ہو، ایک ایسی ذات کا اسوہ اور طریقہ ہی اس کو اطمینان بہم پہونچاسکتاہے، جس کا ہر قدم شاہراہ حیات میں ایک مکمل مقصد کا عنوان اور ساری دنیا کے لیے ایک آخری درس کی حیثیت رکھتا ہے‘‘(حوالۂ بالا)

 ایک جگہ لکھتے ہیں : آں حضرت ﷺ کی زندگی، ایک ایسا خوب صورت باغ ہے، جس کے پھولوں کی مہک، فضاؤوں کی نکہت اورہواؤوں کی تازگی سے آج تک دنیا مسحور ہے، یہ چمن ہر ایک کو دعوت دید دے رہاہے، اب یہ نظارہ کرنے والے کی صلاحیت اور دامن وسعت وظرف پر موقوف ہے کہ وہ اس باغ سے کتنے پھول چنتا ہے‘‘(حوالہ بالا)

اس طرح حضرت مولانا محمد اسلم صاحب قاسمی ؒ کی رحلت، بالخصوص علم سیرت النبیﷺ کے باکمال انسان اور ایک عظیم سیرت نگار کی رحلت ہے؛ اس وفات سے دنیائے علم وعرفان میں ایک زبردست خلا پیدا ہوگیا ہے، جس کا بآسانی پر ہونا ممکن نہیں۔ اللہ تعالی مرحوم کی مغفرت فرمائے، ان کی خدمات کو قبول فرمائے، اور جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے آمین۔

تبصرے بند ہیں۔