مولانا محمد واضح رشید ندوی

محمد شاہد خان ندوی

16 جنوری 2019 کی صبح سورج طلوع ہونے سے قبل ہی غروب ہوگیا، اس دن آسمان علم وادب کا ایک ستارہ ہمیشہ کے لیے ڈوب گیا، اس دن ایک شخص کا نہیں بلکہ پوری ایک نسل کا جنازہ اٹھایا گیا، اس دن ایک فرد ہم سے رخصت نہیں ہوا بلکہ ہمارے ایک بہت قیمتی عہد کا خاتمہ ہوگیا۔ وہ تنہا نہیں تھا، پورا ایک قافلہ تھا اس کے جانے سے علم وادب، تحقیق و تنقید اور فکر ونظر کی محفلوں پر ویرانی سی چھا گئی ہے، ہر طرف بدحواسی اور اداسی کا منظر ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے وقت کی نبض ڈوب رہی ہو۔

اف ! کتنی آزردگی ہے، کیسا سوگوار موسم ہے، اہل ندوہ پر ایسی سوگواری کا موسم دودہائیوں کے بعد ایک بار پھر پلٹ آیا ہے ؟

ہر دل غمگین ہے، ہر آنکھ اشکبار ہے، لوگوں کے چہرے اترے ہوئے ہیں۔

اور ایسا کیوں نہ ہو ؟

جانے والا شخص دل دردمند، فکر ارجمند اور زبان ہوشمند کا جامع تھا ایسی جامعیت بیسویں اور اکیسویں صدی میں بہت کم لوگوں کو نصیب ہوئی ہے۔

وہ قدیم وجدید علوم کا شناور تھا، علوم دینیہ اور علوم عصریہ دونوں پر دستگاہ رکھتا تھا، وہ بزم ادب کا محرم راز تھا، ایک حقیقت پسند ناقد اور مؤرخ تھا اس کی زبان میں ادب کی چاشنی اور انشاء پردازی میں غضب کی شگفتگی تھی، وہ فکر اسلامی کا ترجمان اور مغربی تہذیب کے لئے شمشیر بے نیام تھا وہ اس صحافت کا وارث و امین تھا جس کے علمبردار مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا ظفر علی خان اور مولانا محمد علی جوہر جیسے اکابر رہے تھے۔

وہ ،علّم بالقلم ، کی عملی تفسیر تھا ، کتابیں  ہی اس کا اوڑھنا بچھونا تھیں۔

قدیم وجدید کا یہی امتزاج تو ندوۃ العلماء کے قیام کا مقصد تھا۔

مولانا واضح رشید ندوی رحمۃ اللہ علیہ کو پہلی بار میں نے 1992 میں دیکھا تھا، گورا رنگ، کتابی چہرہ، میانہ قد، سراپا وقار، مجسم متانت، نرم رفتار، شیریں گفتار، چہرے سے معصومیت اور شرافت نمایاں، ایسے بے نفس و بے ضرر انسان کہ انھیں دیکھ کردل گواہی دیتا کہ یہ چاہ کر بھی کسی کو تکلیف نہیں پہونچا سکتے، سفید کرتا، چوڑی موری کا پاجامہ اور اوپرسے اکثر صدری زیب تن فرماتے، صفائی ستھرائی کا ایسا اہتمام کرتے کہ ڈھونڈھنے سے بھی کہیں کوئی داغ نظر نہ آتا، ایسا لگتا کہ جیسے فرشتوں کی جماعت سے کوئی شخص بچھڑ گیا ہو۔

وہ کم سخن تھے، بلا ضرورت گفتگو کرنا پسند نہیں فرماتے تھے گویا , خیرُ كلامٍ مَا قلَّ وَ دلَّ, کی عملی تفسیر تھے۔

 وہ ایک بہترین معلم اور مربی تھے اور ہمہ وقت یا تو کسی کتاب اخبار یا جریدے کے مطالعہ میں غرق رہتے یا پھر کچھ لکھنے میں مصروف ہوتے۔

1993 میں جب میں ندوہ میں , عالیہ ثالثہ کا طالب علم تھا اسوقت پہلی بار مولانا سے استفادہ کا موقع نصیب ہوا، وہ پندرہ روزہ عربی جریدہ , الرائد , کے ایڈیٹر اور ماہنامہ ,البعث الاسلامی , کے نائب ایڈیٹر تھے ان کے ماہانہ کالم , صور واوضاع ,کو ہم لوگ بہت شوق سے پڑھا کرتے تھے اور ڈکشنری کی مدد سے اس کی عبارتوں کو حل کرنے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ طلبہ میں یہ احساس عام تھا کہ اگر جدید عربی سیکھنی ہے تو مولانا واضح رشید صاحب کا کالم پڑھنا ضروری ہے۔ خوش قسمتی سے داخلے کے پہلے ہی سال عالیہ ثالثہ ( عربی کی ساتویں جماعت ) میں ہمیں ان  سے عربی انشاء وتعبیر پڑھنے کا موقع نصیب ہوگیا، مولانا کا طریقہ تدریس وہی تھا جو قدماء کے یہاں رائج رہا ہے  اور جس کی تلقین ہمیشہ سے ماہرین تعلیم کرتے آئے ہیں یعنی بجائے کتاب کے مضمون پڑھانا، مولانا بھی کتاب کے بجائے مضمون پڑھاتے تھے اور چاہتے تھے کہ طلبہ کی رسائی براہ راست مراجع ومصادر تک ہو، وہ اکثر ہم لوگوں کو کوئی موضوع دیتے اور فرماتے کہ آپ لوگ اس موضوع پر چند سطریں اپنے ذہن و دماغ سے لکھیں، الفاظ کے طومار سے گریز کریں گھما پھراکر ایک ہی بات کو بار بار نہ کہیں اپنی فکر کو واضح انداز میں پیش کریں، جب ہم لوگ اپنی طالبعلمانہ بساط کے مطابق استاذ محترم کے سامنے اپنی انشاء پیش کرتے تو وہ فرماتے کہ آپ نے یہ جو ایک صفحہ لکھاہے اسے آپ چند سطروں میں بھی بیان کر سکتے تھے پھر وہ بہت معمولی اصلاح سے ہر طالبعلم کی عربی درست فرمادیتے اور ہرایک کی سمجھ میں یہ آجاتا کہ اس سے غلطی کہاں ہوئی تھی، آج مجھے عربی زبان کی جو بھی شد بد ہے اسمیں مولانا کا بہت بڑا حصہ ہے، کاش کہ دوسرے اساتذہ بھی ان کی اس روش کی پیروی کرتے تو طلباء کے لیے مفید تر ثابت ہوسکتے تھے۔ پچھلی پانچ دہائیوں میں ندوۃ العلماء کے فضلاء میں شاید ہی کوئی طالبعلم ہو جس نے  بالواسطہ یا بلاواسطہ ان سے کسب فیض نہ کیا ہو جو طالبعلم بھی ان سے قریب ہوجاتا وہ اسے تراش کر ہیرا بنادیتے۔

 دوران تدریس وقتا فوقتا وہ طلبہ کے سامنے ان کتابوں کی نشاندہی فرماتے جو طالبعلمانہ زندگی کے مختلف مراحل میں مفید ہوتیں اور بعض کتابوں پر تنقیدی نظر بھی ڈالتے، اس طرح سے وہ طلبہ میں عربی ذوقِ ادب کو پروان چڑھاتے تھے، ان کے درس میں غیر حاضری کو طلبہ اپنی محرومی تصور کرتے اور بغیر کسی مؤاخذہ کے خوف کے ان کے گھنٹہ میں حاضر رہتے، نرم مزاجی کا یہ عالم تھا ہم نے انھیں کبھی کسی طالبعلم کو ڈانٹتے ہوئے نہ دیکھا اور نہ ہی سنا بلکہ جو طالبعلم ان سے قریب ہوجاتا وہ ان سے محبت کرنے لگتا اور خود کو ان کا سب  سے قریبی سمجھتا، خود ان کا تعلق بھی طلبہ سے غیر معمولی مشفقانہ اور مربیانہ تھا وہ نادار طلبہ کی ضروریات محسوس کرکے ان کی امداد اس طرح فرماتے کہ بائیں ہاتھ تک کو خبر نہ ہوتی۔

بہت سے طلبہ جو طالبعلمی کے زمانہ میں ان سے بہت قریب تھے اور ان سے علمی استفادہ کرتے تھے، فراغت کے بعد وہ مادر علمی سے کوئی خاص رابطہ نہ رکھ سکے، اپنے ان محسن اساتذہ کو بھی بھول گئے جن کی تعلیم وتربیت نے ان کی بے مقصد زندگیوں کو سنوارا تھا لیکن مولانا اپنے ملاقاتیوں سے برابر ایسے فضلاء ندوہ کی خیریت معلوم کرتے اور ان کی علمی مصروفیات کے بارے میں دریافت کرتے رہتے تھے۔

1993 کے بعد مولانا کے سارے گھنٹے کلیۃ اللغۃ میں شفٹ کردئے گئے تھےاور چونکہ میں کلیۃ الشریعہ کا طالبعلم تھا اسلئے زمانہ طالبعلمی میں ایک سال سے زیادہ مولانا سے استفادہ کا موقع نصیب نہ ہوا، کلیۃ اللغۃ کے بعض طلبہ جب مولانا کے طریقہ تدریس، علمی استغراق  اور تبحر علمی کی تعریف کرتےتو مجھے اسوقت اپنے کلیۃ الشریعۃ میں ہونے کا بے حد افسوس ہوتااورمیں اپنے ان کرم فرماؤں کو بے حد کوستا جن کے مشورے سے میں نے کلیۃ الشریعۃ میں داخلہ لیا تھا۔

1997 میں میں نے ندوۃ العلماء سے فضیلت مکمل کی، اور 1998 میں ایک  سرکاری ملازمت پر قطر آگیا، اس دوران جب بھی ہندستان جانا ہوتا تو وقتا فوقتا مادر علمی میں بھی حاضری دیتا، لیکن گزشتہ دوسالوں سے محب گرامی مولوی محمد وثیق  ندوی جو مولانامرحوم سے بہت قریب تھے اور ہروقت سایہ کی طرح ان کے ساتھ رہتے تھے ان کے توسط سے مولانا کے ساتھ بھی ملاقاتوں کا سلسلہ چل نکلا تھا اور اب یہ ملاقاتیں ہر سفر کا لازمی حصہ بن گئی تھیں، میں جب بھی ملاقات کے لئے حاضر خدمت  ہوتا تو وہ پہلے قطر میں مقیم ندوی برادران اور بعض علماء ومشائخ کی خیریت دریافت کرتے پھر میری علمی مصروفیات کے بارے میں پوچھتے، میرے پاس بتانے کے لئے کچھ نہ ہوتا تو مختلف حیلوں اور بہانوں کا سہارا لیتا، وہ ہماری اس ادا کاری کو بھانپ لیتے اورپھر لکھنے پڑھنے کی ترغیب دیتے، ایک دفعہ ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو فرمانے لگے کہ لکھتے لکھتے ہم لوگوں کا قلم گِھس گیا ہے اب آپ لوگ لکھئے، وہ حالات حاضرہ سے پوری طرح باخبر رہتے تھے، عالم اسلام کے خلاف رچی جانے والی سازشوں پر کڑی نظر رکھتے تھے ہر ملاقات میں وہ دیر تک عالم اسلام اور دنیا کے حالات پر گفتگو فرماتے اور ہمیں یہ دیکھ کرحیرانی ہوتی کہ اس پیرانہ سالی میں بھی وہ دنیا میں رونما والے حالات وواقعات سے پوری طرح باخبر ہیں۔

 مشہور انگریزی اخبارات وجرائد مثلا ,دی اکنومسٹ، واشنگٹن پوسٹ اور نیویورک ٹائمز کا مطالعہ تاحیات ان کے معمولات میں شامل رہا، پچھلے دوسالوں سے ان کی بصارت کمزور ہوگئی تھی جس کے سبب براہ راست لکھنا پڑھنا دشوار ہوگیا تھا، اسکے باوجود انھوں نے کبھی اپنے معمولات کو ترک نہیں کیا بلکہ اپنے معاونین بالخصوص مولوی محمد وثیق ندوی کا سہارا لے کر ان اخباروجرائد کے خصوصی کالمز کو پڑھواکر سنتے، وہ اتنے بالغ نظر تھے کہ عالم اسلام میں رونما ہونے والے کسی بھی واقعہ کی تہہ میں چھپے ہوئے استعماری مقاصد کو آسانی سے سمجھ لیتے تھے اور اپنے معروف کالم ” صورواوضاع ” میں ان سازشوں کو بے نقاب کرتے تھے۔

ابھی پچھلے دنوں کی بات ہے اکتوبر 2018 میں میرا لکھنؤ جانا ہوا، اس سے قبل یہ بتادینا ضروری ہے کہ میں نے تقریبا دو سال قبل دلی میں   "اسکالر پبلشنگ ہاؤس” کے نام سے ایک اشاعتی ادارہ قائم کیا ہے جس کا مقصد عربی اور دوسری زبانوں سے اردو میں ایک ایسا لٹریچر منتقل کرنا ہے جو مسلمانوں کے علمی وفکری جمود کو توڑے اور انہیں ان تحریکوں، تنظیموں اور اداروں سے روشناس کرائے جو دنیا کا ایجنڈا طے کرتے ہیں، اور جن سے  اردو دنیا عموما بے خبر ہے، اتنے اہم مقصد کی تکمیل کے لئے کتابوں کا انتخاب مجھ جیسے کم مایہ شخص کے لئے ایک بہت بڑا مسئلہ تھا، میں نے اس سلسلے میں اپنے کئی ندوی ساتھیوں سے مشورہ کیا تو ہر ایک کی زبان پر صرف مولانا واضح رشید ندوی صاحب کا نام تھا کہ اس سلسلے میں وہی صحیح رہنمائی کرسکتے ہیں۔

چنانچہ ابھی چند ماہ پیشتر اکتوبر 2018 کو لکھنؤ جانا ہوا اور 18/اکتوبر 2018 کو مولانا سے بغرض ملاقات ندوہ کے مہمان خانہ میں حاضر ہوا اور اپنا مدعا عرض کیا، مولانا نے دوسری صبح دفتر میں ملنے کا وقت دیا، حسب وعدہ میں تقریبا ساڑھے آٹھ بجے حاضر خدمت ہوگیا، مولانا نے تقریبا نصف گھنٹے گفتگو فرمائی اور کچھ کتابوں کی نشاندہی کی، اسوقت ایسا محسوس ہورہا تھا کہ جیسے علم کے سوتے ابل رہے ہوں، عرفان کا دریا بہہ رہا ہو لیکن میرا ہی کشکول گدائی تنگ پڑنے لگا اور میں نے عرض کیا کہ اس سفر کے لئے اتنا زاد راہ بہت ہے ان شاءاللہ اگلے سفر میں پھر حاضری ہوگی اور پھر آپ کو زحمت دی جائے گی، لیکن قضا وقدر کے فیصلوں کی کسے خبر ہے ؟ کسےمعلوم تھا کہ یہ ملاقات آخری ہے اور اب دوبارہ اس دنیا میں ان کا دیدار نصیب نہ ہوگا اور  ہم لوگ ان کی  سرپرستی سے ہمیشہ کے لئے محروم ہوجائیں گے اور وہ ہماری دنیا کو اس طرح  ویران و بے نور کرکے چلے جائیں گے۔

یہاں تک مولانا مرحوم کی ان یادوں کا تذکرہ تھا جن کا تعلق میری ذات سے بھی تھا، لیکن اب ضروری معلوم ہوتاہے کہ اپنی کم علمی کے اعتراف کے ساتھ  ان کی زندگی کےکچھ جستہ جستہ حالات وکمالات پر بھی مختصراروشنی ڈالی جائے، ممکن ہے ان کی زندگی  میں بہت سے گم گشتہ راہوں کے لیے اصلاح قلب ونظر کا سامان ہو۔

مولانا محمد واضح رشید ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے رائے بریلی کے مشہور علمی، دینی اوردعوتی خانوادۂ حسنی  1935 عیسوی میں آنکھیں کھولیں، یہ خاندان کئی پشتوں سے علماء و مصلحین کاخانوادہ رہا ہے، شمالی ہند میں دین اسلام کی نشرواشاعت میں ان کی بڑی اہم خدمات رہی ہیں۔

آپ حضرت مولانا علی میاں ندوی رحمۃ اللہ کے بھانجے اور حضرت مولانا محمد رابع حسنی ندوی کے برادر خورد تھے

آپ کی نشونما ایک علمی ودینی ماحول میں ہوئی، آپ کی پرورش وپرداخت آپ کی نانی مرحومہ  ( حضرت مولانا علی میاں کی والدہ ) کے زیر سایہ ہوئی جوکہ بہت نیک اور خداترس خاتون تھیں، ساتھ ہی وہ ایک بہترین معلمہ، مربیہ اور ادیبہ وشاعرہ بھی تھیں، ان کے اندر تربیت کا ایک خاص ملکہ تھا، وہ بچوں کو علماء اور صالحین کے قصے سناتیں، تاریخ اسلام کے مشہور واقعات کا تذکرہ کرتیں، نمازوں کی پابندی کراتیں، غلطیوں پر ٹوکتیں، فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی پر سخت مؤاخذہ کرتیں، گھر میں تمام عورتوں کے ساتھ جہری ذکر و اذکاراور مناجات کا اہتمام کرتیں، ان کے اس مجاہدہ کی وجہ سے بچوں کے ذہنوں میں تاریخ اسلام کی عظمت راسخ ہوجاتی اور ان کے دلوں میں علماء وصالحین سے محبت جڑ پکڑ لیتی۔

ابتدائی تعلیم کے حصول کے بعد آپ ندوۃ العلماء تشریف لائے، یہاں مولانا علی میاں رحمہ اللہ کے بڑے بھائی ڈاکٹر عبدالعلی حسنی رحمۃ اللہ علیہ کی زیر نگرانی آپ نے1951 عیسوی میں ندوۃ العماء سے عالمیت اور پھر تخصص کیا، اسکے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی تشریف لے گئے جہاں  سے آپ نے انگلش میں بی اے  کی ڈگری حاصل کی۔

آپ نے جن اساتذہ سے بالواسطہ یابلا واسطہ کسب فیض کیا ان میں، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا سید سلیمان ندوی، شیخ حلیم عطا سلونی، صاحب مصباح اللغات شیخ عبدالحفیظ بلیاوی، شیخ محمد اسباط، مولانا محبوب الرحمن ازہری ندوی، مولانا عمران خان ندوی، مولانا عبداللہ عباس ندوی، شیخ محمد اسحاق سندیلوی اور ماسٹر عبدالسمیع صدیقی  جیسی نابغہ روزگار ہستیوں کے نام  شامل ہیں۔

علی گڑھ سے فراغت کے بعد آپ آل انڈیا ریڈیو دلی سے وابستہ ہوگئے جہاں  1953 سے لے کر 1973 تک آپ نے بطور مترجم اور براڈکاسٹر اپنی خدمات انجام دیں، اس دوران عراق اور شام کے بڑے بڑے ادیبوں اور صحافیوں کے ساتھ آپ کو کام کرنے کا موقع ملا ، ان کی صحبت سے آپ نے بھرپور فائدہ اٹھایا جس کے نتیجے میں آپ کی زبان وقلم پر مزید نکھار آگیا۔

دلی میں قیام کے عرصہ کو  آپ نے غنیمت جانا، اس مدت میں آپ وہاں کی بڑی بڑی لائبریریوں سے استفادہ کرتے رہے جن میں جواہر لال نہرویونیورسٹی، جامعہ ملیہ، مولانا آزاد لائبریری (راج بھون ) جیسے کتب خانےنام شامل ہیں۔

کتابوں کے علاوہ آپ کا تعلق ان روحانی شخصیات سے بھی مسلسل قائم رہا جو دل کی دنیا کو آباد کرتے تھے، جو صورت گری نہیں بلکہ سیرت گری کرتے تھے، آپ کو جب بھی موقع ملتا آپ ان شخصیات کی صحبت سے فیض اٹھاتے، ان قابل ذکر شخصیات میں شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا سہارنپوری، مولانا عبدالقادر رائے پوری، مولانا حسین احمد مدنی، مولانا انعام الحسن کاندھلوی، مولانا ابواللیث  اصلاحی ندوی اور حضرت مولانا علی میاں ندوی رحمۃ اللہ علیہم کے نام نامی شامل ہیں ۔

ستر کی دہائی میں ریڈیو اسٹیشن کی سرکاری نوکری سے آپ کا دل اوبنے لگا اور وہاں کے مادیت پرست ماحول سے طبیعت بیزار ہونے لگی، آپ نے اپنی اس کیفیت کا تذکرہ شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ سے کیا، انھوں نے سرکاری نوکری  ترک کرنے کا مشورہ دیا، اسکے بعد آپ نے اچھی خاصی ملازمت سے استعفی دے دیا، ان کے استعفی کو حکومت نے مہینوں تک منظور نہیں کیا لیکن جب وضاحت کی گئی کہ یہ استعفی ذاتی وجوہ کی بنیاد پر ہے تب جاکر استعفی قبول ہوا، اسکے بعد 1973 میں آپ دارالعلوم ندوۃ العلماء آگئے اور ایک معمولی مشاہرے پر استاذ ادب کی حیثیت سے ازسر نواپنی زندگی کا آغاز کیا۔

ندوۃ العلماء کی چہاردیواری میں آپ نے اپنی زندگی کے سینتالیس برس جس علمی انہماک، بے لوث خدمت، بے نیازی اور بے غرضی کے ساتھ گزارے وہ آسان نہیں ہے۔

آپ فطرتا درویش تھے، یہ صلحاء کی صحبت کا اثر تھا کہ طبیعت دنیا طلبی سے بے نیاز ہوگئی تھی، نہ جاہ ومنصب کی طلب تھی نہ مال ومنال کی خواہش، یہ کیفیت صرف تعلق مع اللہ قائم ہوجانے کے بعد ہی پیدا ہوسکتی ہے، سنت رسول کی اتباع آپ کی زندگی کی اول وآخر خواہش تھی، کتابیں آپ کا اوڑھنا بچھونا تھیں، آپ  ذاتی زندگی میں انتہائی متقی اور پرہیز گارانسان  تھے، فرائض کے ساتھ سنن ونوافل کا بڑا اہتمام کرتے تھے، چاشت کی نماز پابندی سے پڑھا کرتے تھے،  موسم کیسا بھی ہو لیکن ہرحال میں مسجد جا کر باجماعت نماز ادا کرتے تھے، میں نے بارہا مولانا رابع صاحب کو ان کے ساتھ ندوہ کی مسجد میں صلاح  ومشورہ کرتے ہوئے دیکھا ہے، اسکی وجہ توفیق خداوندی کی طلب کے سوا اور کیا ہوسکتی ہے۔

اللہ کے راستے میں خرچ کرتے تھے اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیتے تھے قرآن کے ساتھ آپ کا تعلق بہت گہرا تھا، رمضان کے علاوہ عام دنوں میں روزانہ کم از کم دوپارے تلاوت کرتے تھے، قلم اٹھانے سے پہلے تلاوت کلام پاک کا معمول تھا تاکہ قلم غلطیوں سے محفوظ ہوجائے، آخری عمر میں جب بصارت متاثر ہوگئی تھی اسوقت دوسروں سے قرآن مجید کی تلاوت سنتے تھے اور اس پر ان کا شکریہ ادا کرتے تھے۔

گرچہ آپ ادب کے استاذ تھے لیکن حدیث پاک سے آپ کا شغف غیر معمولی تھا، احادیث پڑھنے پڑھانے والوں کا آپ بڑا احترام کرتے تھے اور ان کا ذکر بآواز بلند کرتے تھے۔

آپ دنیاوی جاہ ومنصب سے ہمیشہ گریزاں رہے، گوشہ گمنامی میں رہنے ہی کو ترجیح دی، ہمیشہ خود کو چھپانے کی کوشش میں رہے، لیکن کیا خوشبو کو پھیلنے سے کوئی روک سکتا ہے ؟  اسباب شہرت سے دور رہنے کے باوجود اللہ تعالی نے انھیں بے پناہ مقبولیت اور عزت وشہرت سے نوازا۔

انھوں نے ہمیشہ اعتدال کا دامن تھامے رکھا، تاحیات کبھی کوئی متنازعہ بیان نہیں دیا، یہی وجہ ہے کہ وہ طبقہ علماء میں ہمیشہ مقبول رہے۔

آپ نے پوری زندگی حضرت مولانا علی میاں رحمۃ اللہ علیہ کے ترجمان کی حیثیت سے گزاری،  اپنے قلم کے ذریعہ سے جہاد کرتے رہے، آپ کا اصل موضوع تحقیق وتنقید، تصنیف وتالیف، اور تحلیل وتجزیہ تھا، آپ نے اپنے قلم سے فکر اسلامی کی ترجمانی کی، مغربی تہذیب کے حملوں کا جواب دیا، عربی ادب کے حوالے سے مختلف موضوعات پر کتابیں تصنیف کیں، تقریبا چھ دہائیوں تک آپ کا قلم سچی صحافت کا نقیب رہا۔

آپ اپنے معمولات پر ہمیشہ گامزن رہے۔

ندویت آپ کے مزاج میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، آپ نے زندگی کے بیاسی  سال (جو کوئی معمولی مدت نہیں ہے )اس طرح گزارے کہ کبھی کسی کو حرف شکایت کا موقع نہ دیا، اگر یہ دعوی کیا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ آج تک کسی ندوی نے کسی کے منھ سے ان کی شکایت نہیں سنی تو مبالغہ نہ ہوگا۔

ہر انسان خطاکار ہے، غلطیاں سب سے ہوتی ہیں، یقینا مولانا سے بھی غلطیاں ہوئی ہوگی لیکن ان کی لغزشوں کو ستار العیوب ( عیوب کی پردہ پوشی کرنے والا ) ہی جانتا ہوگا، ہمارے سامنے انھوں نے ایک بے داغ زندگی گزاری ہے۔

ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں علم ودانش سے معاندانہ بیگانگی برتی جارہی ہے، عہد جدید کے صنعتی وسائنسی ارتقاء میں فلسفہ و ادب کا بظاہر کوئی عمل دخل دکھائی نہیں دیتا، علوم وفنون کے ساتھ سماج نے تاجرانہ رویہ اختیار کرلیا ہے، تعلیمی ادارے ایسے کارخانوں میں تبدیل ہوگئے ہیں  جو صرف مادی صنعت وحرفت کے خدمت گزار پیدا کررہے ہیں، دنیا ایک تجارتی منڈی میں تبدیل ہوگئی ہے، مادی ترقی کو معجزہ تسلیم کیا جارہا ہے، تعلیمی اداروں سے اخلاق اور روحانیت کا خاتمہ ہوتا جارہا ہے، ذہنی اور روحانی لذت کا حصول اب مقصد زندگی نہیں رہا، عزت وشہرت کے حصول  کے لئے اوچھے ہتھکنڈوں کا استعمال کوئی عیب کی بات نہیں رہی۔

ایسے روح فرسا دور میں ہمارے درمیان سے ایک ایسے شخص کا اچانک چلے جانا کیا اس دور کا سب سے بڑا خسارہ نہیں ہے؟ کیا اس صدی کا سب سے بڑا نوحہ نہیں ہے ؟ ایسا شخص جو تقریبا چھ دہائیوں سے اپنا لہو جلاکر چمن کو شاداب کررہا تھا، فکر نظر کی قندیلیں روشن کررہا تھا،ادب عالیہ اور اخلاق حسنہ کی عملی تصویر پیش کررہا تھا، اسکی رحلت سے جو خلاء پیدا ہوا ہے اسکی بھرپائی بظاہر ناممکن ہے، اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ملت مرحومہ اور اہل ندوہ کو اس صدمہ کو برداشت کرنے کی ہمت و طاقت بخشے۔

تبصرے بند ہیں۔