مولانا مودودی بحثیت محقق

مجتبیٰ فاروق

مولانا مودودی نے جس ماحول میں اسلامی فکر اور اس کے نظام پر کام کرنا شروع کیا تھا اس ماحول میں ان کے لئے کوئی کشش نہیں تھی۔ اسلام کا گہرا مطالعہ کنے لے بعد نیز تنقید و تحقیق کی صلاحیت پیدا ہونے کے بعد انھوں نے سب سے پہلے اس بے روح مذہبیت اور روایت پرستی سے اپنا دامن بچایا جو ان کو میراث میں ملی تھی۔ مولانا کا کہنا تھا کہ جس چیز نے مجھے الحاد کی راہ پر جانے یا کسی دوسرے اجتماعی مسلک کو قبول کرنے سے روکا اور از سر نو مسلمان بنایا وہ قرآناور سیرت محمدی ﷺ کا مطالعہ تھا۔ اس نے مجھے انسانیت کی اصل قدروقیمت سے آگاہ کیا۔ اس نے آزادی کے اس تصور سے مجھے روشناس کیا جس کی بلندی تک دنیا کے کسی بڑے سے بڑے لبرل یا انقلابی کا تصور بھی نہیں پہنچ سکتا۔

مولانا مودودی کی تحقیق نے یہ واضح کر دیا کہ اسلام ایک محرک اور متحرک نظام ہے جو ہر وقت انسان کو رہنمائی کرتا ہے اور اس کا انطباق (Application ( بدلتے ہوئے حالات پر بھی ہوتا ہے۔ چناچہ وہ لکھتے ہیں کہ

’’ ہم نے برسوں اسلام کا تحقیقی اور تنقیدی مطالعہ کیا، ہم نے اس کی اعتقادی اساس، اس کے نظریہ حیات، اس کے اصول اخلاق، اس کے نظام تمدن، اس کے قوانین معاشرت و معیشت، اس کے آئین سیاست، غرض اس کی ایک ایک چیز کو جانچا اور پرکھا ہم نے دنیا کے دوسرے اجتماعی نظریات کو کھنگال کر دیکھا اور اسلام سے ان کا مقابلہ کیا۔ اس تمام مطالعے اور تحقیق و تنقید نے ہمیں اس امر پر پوری مطمئن کر دیا کہ انسان کے لئے حقیقی فلاح وسعادت اگر کسی مسلک میں ہے تو وہ صرف اسلام ہے۔ ‘‘۱؂

مولانا مودودی نے اسلامی اور جدید علوم کا ان کے اصل ماخذ سے براہ راست استفادہ کیا۔ وہ اردو، فارسی، عربی اور انگریزی زبانوں پر عبور رکھنے کی وجہ سے وسیع وعمیق مطالعہ رکھتے تھے۔ وہ بچپن ہی سے بحث و تحقیق اور مطالعہ کا بے حدشوقین تھے اور گزرتی عمر کے ساتھ اس شوق میں اضافہ ہوتا گیا۔ انھوں نے قرآن و حدیث، فقہ، تاریخ فلسفہ، کلام اور تصوف کا براہ راست اصل ماخذ سے گہرائی اور گیرائی کے ساتھ مطالعہ کیا ہے۔ مولانا موصوف نے علمی و فکری کام مجتہدانہ اور محققانہ انداز میں کیا ہے۔ نیز جدید افکار و نظریات کا علمی اور تحقیق انداز(Systematic)سے مطالعہ کر کے ان کا بھرپور تنقیدی جائیزہ لیا۔ ا نھوں نے تحقیق کے لیے اپنے جسم کو لوہے کے لیے چنے چبوائے ہیں ۔ اپنی علمی، تحقیقی اور اور وسعت مطالعہ کے احوال بیان کرتے ہوئے انھوں نے لکھا ہے کہ

’’ میں نے بہت کچھ پڑھا ہے قدیم و جدید فلسفہ، سائنس، معاشیات، سیاسیات وغیرہ پر اچھی خاصی ایک لائبر یری اپنے دماغ میں اتار چکا ہوں ۔۲؂

مولانا مودودی کوجدیداورقدیم طریقہ ہائے تعلیم سے فیض حاصل کیا ہے اور دونوں کوچوں میں چل پھر کر دیکھا ہے۔ مولانا مودودی کوجدیداورقدیم دونوں طریقہ ہائے تعلیم سے فیض حاصل کر کے دونوں طرزہائے علوم پر ید طولیٰ حاصل تھا۔ اور دونوں کوچوں میں چل پھر کر دیکھا ہے۔ اسی وجہ سے وہ نہ توقدیم گروہ کوسراپا حق سمجھتے تھے اور نہ ہی جدید گروہ کو۔ مولانا حالات حاضرہ سے Up to date رہنے کے لئے نہ صرف ملک کے موقر اخبارات کا بلکہ ریڈر،ڈائجسٹ، ، نیوز ویک اور ٹائمز وغیرہ کا باقاعدہ مطالعہ کرتے تھے۔ ان کی محققانہ شان یہ ہے کہ ان کی ہر علمی کاوش قرآن و سنت کے دائرے میں رہی ہے اور اسی کی روشنی میں عصر حاضر کے مسائل کا حل پیش کیاہے۔ انھوں نے بیسویں صدی کی تیسری دہائی سے کہنہ مشق اور ممتاز محقق کی حیثیت سے اہل علم و فکر میں اپنا لوہا منوایا۔ اس کا اعتراف اس کے مؤیدین اور مخالفیندونوں نے صدق دل سے کیا ہے۔

مولانا مودودی کا علمی اور تحقیقی مرتبہ بڑا اونچا ہے۔ شیخ علی طنطاوی کے بقول ا مور دین میں جتنے مصنف اور محقق گذرے ہیں ان کے چار مراتب بنائے جاسکتے ہیں پہلا مرتبہ ان لوگوں کا ہے جو درست و نادرست سب نصوص کو جمع کر دیتے ہیں اور اپنی تحریروں میں ہر اس چیز کو ٹھونس دیتے ہیں جو زیر بحث موضوع سے متعلق ہو جیسے امام سیوطی۔ دوسرا مرتبہ ان لوگوں کا ہے جو نصوص کو جمع کرلیتے ہیں ، ان کی اسناد پر تحقیق کر تے ہیں جیسے امام شوکانی۔ تیسرا مرتبہ ان حضرات کا ہے جو نصوص کو ترتیب دیتے ہیں ان کی تشریح کرتے ہیں ، ان سے مسائل کا استنباط کرتے ہیں ۔ پھر ان کو مکمل تحقیق کے قالب میں ڈالتے ہیں ، جیسے امام ابن تیمیہ۔ ایک اور مرتبہ ان لوگوں کا ہے جو اپنے ذہن میں نصوص کا پورا احاطہ کرتے ہیں ، ان کے اندر غواصی کرتے ہیں اور جدید اصطلاح میں ان کو ضم کرتے ہیں پھر وہ اپنی تحقیق جس قالب میں چاہے اسے ڈھال لیتے ہیں ،رنگ رنگ کے اسالیب میں وہ اپنی تحقیق پیش کرتے ہیں ، جیسے امام غزالی۔ مولانا مودودی کبھی تیسرے مرتبے سے بلند ہوجاتے ہیں اورکھبی چوتھے مرتبے پر فائز ہوجاتے ہیں ۔۳؂

انھوں نے علوم کے جن موضوعات پر خامہ فرسائی کی ان میں تفسیر، حدیث، فقہ، عقائد، تاریخ، فلسفہ، سیاست، معیشت،تعلیم اور قانون قابل ذکر ہیں ۔نیز باطل افکار و نظریات کی رد میں انھوں نے ایسی تحریریں چھوڑیں جو طویل عرصے تک زندہ وجاوید رہیں گی۔ مولانا مودودی کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے نہ صرف اسلام کو مکمل و متحرک نظام کی حیثیت سے پیش کیا بلکہ اس کو مدلل اور جامع انداز و اسلوب میں دنیائے انسانیت کے لئے متبادل کے طور پربھی پیش کیا۔ مولانا مودودی بیسویں صدی کے سب سے بڑے مصنف تھے اور ان کی تصنیفات کی تعداد ایک اندازے کے مطابق۱۳۸ ۴؂ اور ایک دوسری تحقیق کے مطابق ۱۵۰ہے۔ ۵؂

وہ مختلف مسائل و معاملات پر مسلسل غور و فکر کرتے رہتے تھے اور ایسے سوالات اٹھاتے تھے جن کا جواب ان کے مخاطبین کے پاس نہیں ہوتا تھا۔ بعض حلقوں میں ان کی علمی ساخت اور فضیلت کو کم کرنے کے لیے یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ مولانا مودودی کسی مدرسہ کے فارغ التحصیل نہیں ہیں ۔ (حالانکہ مولانا باضابطہ نہ صرف مدرسہ کے فارغ التحصیل تھے بلکہ انفرادی طور سے بھی اساتذہ سے فیض حاصل کیا جس پر آغاز ہی میں گفتگو ہوچکی ہے )مولانا مودودی نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ سوال تو اس سے کرنا چائیے جس نے کوئی علمی کام نہ کیا ہو۔ میں نے کام کیا ہے اور میرا کام چُھپا ہوا نہیں بلکہ چَھپا ہوا سب کے سامنے موجود ہے۔ اس کو دیکھ کر ہر شخص معلوم کرسکتا ہے کہ میں نے کیاکچھ پڑھا ہے اور جو کچھ پڑھا ہے اس کو کتنا ہضم کیا ہے۔

حوالہ جات

۱؂ تحریک آزادی ہند اور مسلمان، حصہ دوم، (اسلامک پبلیکیشنز لمیٹڈ لاہور )، ص: ۲۴

۲؂ محمد عمران خان ندوی(مرتب)،مشاہیر اہل علم کی محسن کتابیں ،(کراچی،مجلس نشریات اسلام، ۱۹۷۹ء)،ص:۱۵۷

۳؂ تذکرہ سید مودودی، جلد :۳،ص:۴۴۸

(4) kazi Zulqadr Siiddiqi,S.M.Ahsan,A Bibliography of writings by and about Malana Mawdudi ,eds.Khursheed Ahmad and Zafar Ishaq Ansari ,islamic Perspectives:Studies in Honour Mawlana Mowdudi ,(Leicester, The Islamic Foundation ,1980),p:3,
(5)Abul Ala Mowdudi ,Towards Undestanding the Quran ,tr.and ed. Zafar Ishaq Ansari (leisester , the islamic foundation ,1988),p:ixxx.

تبصرے بند ہیں۔