مومنانہ فراست اور ہمارا رویہ

    ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی    

خلیفہ دوم حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے اپنے عہدِ خلافت میں حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کو شام کا گورنر بنایا۔ ان کی گورنری حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد میں بھی جاری رہی۔ ان کی شہادت کے بعد جب حضرت علی رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو تنازعات شروع ہوگئے حضرت معاویہ نے دست برداری قبول نہ کی، اس کے نتیجے میں ان کی اور حضرت علی کی فوجوں کے درمیان معرکہ آرائی ہوئییہ چیز تاریخ کا حصہ ہے، جس سے ہر خاص و عام واقف ہے۔

         اس زمانے میں عیسائی رومی بڑی فوجی طاقت رکھتے تھے  مسلمانوں سے ان کے متعدد معرکے ہوچکے تھے، جن میں انھیں مسلم فوجوں کی طرف سے زبردست جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا تھا رومی حکم راں نے مسلمانوں کے باہمی اختلافات سے فائدہ اٹھانے کا منصوبہ بنایا۔ اسے یہ بہت موزوں موقع لگا کہ مسلمانوں کے ایک گروہ کی حمایت کرکے دوسرے گروہ کی کمر توڑ دے، پھر دوسرے گروہ سے بھی نمٹ لے۔ اس طرح مسلمانوں کی ابھرتی ہوئی طاقت کا صفایا کرکے اپنا مستقبل محفوظ کرلے۔  اس نے ایک بڑی فوج مسلم حدودِ مملکت کی طرف روانہ کی اور حضرت معاویہ کو لکھا :”مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ اور علی کے درمیان جنگ برپا ہے۔ میری نظر میں آپ خلافت کے زیادہ مستحق ہیں۔ اگر آپ چاہیں تو میں آپ کی مدد کے لیے ایسی فوج بھیج دوں جو علی کو شکستِ فاش دے دے۔ "

حضرت معاویہ اپنی مومنانہ فراست سے قیصرِ روم کا مکر بھانپ گئے۔  انھوں نے انتہائی تلخ لہجے میں اسے جواب دیا:”علی اور میں دونوں بھائی ہیں۔ ہمارے درمیان بعض معاملات میں اختلافات ہیں۔ لیکن اے لعین! اسلامی سرحدوں کی طرف بُری نظر سے دیکھنے کی جرأت نہ کرنا۔ اگر تو اپنی حرکتوں سے باز نہ آیا اور اپنی فوج واپس نہ بلائی تو اللہ کی قسم، میں اپنے چچا زاد بھائی (علی) سے صلح کرلوں گا، پھر ہم دونوں مل کر تجھے تیرے علاقوں سے بھی نکال باہر کریں گے اور رویے زمیں کو، اس کی وسعت کے باوجود، تجھ پر تنگ کر دیں گے۔ "(البدایۃ و النہایۃ، ابن کثیر، دار ابن کثیر، بیروت، 2010، 8/173)

      موجودہ دور میں مسلم حکومتوں کے درمیان تنازعات نے سر ابھارا تو اسلام اور مسلمانوں کی دشمن طاقتوں نے ان تنازعات سے فائدہ اٹھانا چاہا  چنانچہ انھوں نے کبھی ایک حکومت کا سپورٹ کیا،  کبھی دوسری کاان کا مقصد کسی مسلم حکومت کو تقویت پہنچانا نہیں تھا،  بلکہ حقیقتا وہ مسلم طاقت کو کم زور کرنا اور اپنا الّو سیدھا کرنا چاہتی تھیں،  لیکن افسوس کہ مسلم حکومتیں مومنانہ فراست سے محروم رہیں۔ وہ دشمنوں کی سازش کو سمجھ نہیں پائی ہیں اور باہم دست و گریباں ہیں۔

     ہندوستان میں بھی مسلم دشمن طاقتیں اسی فارمولے پر عمل پیرا ہیں۔ وہ مختلف مسلم گروہوں کے درمیان معمولی معمولی اختلافات کو ہوا دے رہی ہیں اور ان کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہی ہیں، تاکہ وہ ایک دوسرے سے مستقل برسرِ پیکار رہیں۔  ان کا مقصد اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ مسلمان آپس میں لڑ بھڑ کر کم زور ہوتے رہیں۔

       یہ مسلم دشمن طاقتیں بسا اوقات کسی مسلم گروہ کو اپنے سے قریب کرتی ہیں، اس کی تائید و حمایت کرتی ہیں اوراسے دوسرے مسلم گروہ کے خلاف بھڑکاتی ہیں۔  یہ مسلم گروہ اپنی سادہ لوحی اور بھولے پن میں انھیں اپنا خیر خواہ اور ہم درد سمجھ لیتا ہے، چنانچہ دوسرے مسلم گروہ کے خلاف اس کی مہم جوئی میں شدت آجاتی ہے۔  اس طرح وہ بہت آسانی سے مسلم دشمن طاقتوں کا آلہ کار بن جاتا ہے۔

       گزشتہ دنوں ڈاکٹر ذاکر نائک کے معاملے میں کچھ ایسی ہی صورت حال کا مشاہدہ ہوا۔ ملک کی اسلام دشمن طاقتوں نے اس موقع پر مسلمانوں کی جمعیت میں تفرقہ ڈالنے کی کوشش کی اور وہ اس میں کسی حد تک کام یاب بھی ہوئیں۔ بعض مسلم گروہ ذاکر نائک کے خلاف وہی بولی بولتے ہوئے پائے گئے جو اسلام دشمن طاقتیں چاہتی تھیں۔

    انھوں نے کیوں نہیں کہا کہ بعض فکری و نظریاتی موضوعات میں ذاکر نائک سے ہمارے اختلافات ہیں، لیکن یہ ہمارا اندرونی معاملہ ہے۔ ہم کسی دوسرے فرد یا گروہ، یا کسی بیرونی طاقت کو اپنے درمیان حَکَم نہیں بنائیں گے اور اس کی تائید و حمایت نہیں حاصل کریں گے۔

     کاش، اس موقع پر تمام مسلم گروہ ویسی ہی مومنانہ فراست کا مظاہرہ کرتے جیسی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے قیصرِ روم کی پرفریب ہم دردی کے موقع پر ظاہر کی تھی۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔