ڈاکٹر ذاکر نائک غیرمسلموں کی نظر میں

مقبول احمد سلفی

ڈاکٹر ذاکر نائک نے کہا کہ ” ہندو مسلم جھگڑا کرے میں جھگڑا ہونے دیتا ہی نہیں ہوں ۔ میرے خلاف چند، خال ہی کوئی ہندو ملے گا، اکثر جو میرے خلاف ہیں وہ مسلمان ہی ہیں” ۔ ڈاکٹر صاحب نے اس بات کا بھی خلاصہ کیا کہ مسلمان کیوں آپ کے خلاف ہیں ؟ چونکہ میرے متعلق باسٹھ لاکھ ویب سائٹ پہ معلومات دی گئیں ہیں ، اتنی تعداد میں کسی کے متعلق نہیں۔اس وجہ سے نام نہاد مسلمانوں کی دوکان بند ہورہی تھی ۔

جب ہم ڈاکٹر صاحب کی اس بات کو عوام کے فکروخیال سے مقارنہ کرتے ہیں تو واقعی پتہ چلتا ہے کہ ہندؤں یا یہ کہیں کافروں کی کثیرتعداد آپ کا مداح اور حامی ہے ۔ ہندؤں کے بڑے سے بڑے سماجی ، سیاسی ، مذہبی، اور رفاہی کارکن بشمول سرکاری و غیرسرکاری آپ کے ساتھ کاندھے سے کاندھا ملائے آپ کے پروگراموں میں شمولیت کرتا ہے ، علی الاعلان اسٹیج پہ آکر نہ صرف ڈاکٹر صاحب کی تعریف کے پل باندھتا ہے بلکہ اسلام کی سچائی کو بھی تسلیم کرتا ہے ۔ سوشل میڈیا  پہ  شلپی پٹیل نام کی  ایک ہندو لڑکی نے کہا کہ "ذاکر نائک اکیلا شخص ہیں جنہوں نے ہندؤں کو وید سکھایا ورنہ  پنڈٹوں نے تو یہی سکھایا تھا کہ مرے، پیدا ہو، شادی ہو، برسی ہو وغیرہ وغیرہ میں بس پنڈٹوں کو بھر پیٹ کھانا کھلانا اور پنڈٹوں کو نذرانہ دینا ہی ثواب ہے اور یہی ہندو مذہب ہے ۔ بس اسی بات کی سزا ذاکر نائک کو مل رہی ہے ۔ اپنی عقل لگاؤ، دکھاوے پہ مت جاؤ۔ اس لئے برہمن کو ذاکر نائک سے بہت زیادہ خطرہ ہے” ۔

ایک دوسرے ہندو شبھم کمار کا کہنا ہے کہ میں ڈاکٹر ذاکر نائک کا اس لئے احترام کرتا ہوں کیونکہ انہوں نے بہت حد تک اسلام کا اصل مفہوم سمجھایا ہے۔

اسی پس منظر میں ایک ہندو نے کہا کہ بھارت نے جتنا اسلام کے خلاف طاقت خرچ کیا ہے اگر اتنا ملک کے لئے خرچ کرتا تو چین سے آگے ہوتا ۔

اسلام اور ڈاکٹر صاحب کے متعلق ہندؤں کے اچھے خیالات اس قدر ہیں جن کا ادراک واحاطہ مشکل ہے ۔ ثبوت کے طور پہ ٹیوٹر، فیس بوک  اور یوٹیوب چینل کے فالوورز اور سبسکرائبرز کو دیکھا جاسکتا ہے ۔ ساتھ ہی جتنی بڑی تعداد میں آپ کا پیس چینل ہندؤں میں دیکھا جاتا ہے اتنی تعداد میں ہندؤ مذہب کا بھی چینل نہیں دیکھا جاتا ۔

عام ہندؤں کے علاوہ اس طبقے کے خواص بھی آپ کے مداحوں میں ہیں ۔ پولیس افسران سے لیکر کورٹ کچہری کے وکلاء کے علاوہ سیاسی و سماجی تمام قسم کے رہنما آپ کے اس کام سے بیحد خوش اور آپ کو عوام کے لئے انمول تحفہ سمجھتے ہیں ۔

ہندؤں کے مذہبی رہنما شنکرآچاریہ نے ڈاکٹر ذاکرنائک کے پروگرام میں برملا اظہار کیا کہ مجھے خوشی ہے کہ ڈاکٹر صاحب وقت نکال کر ہمارے بیچ آئے ، میں ان کا شکریہ کیا ادا کروں ، میں تو یہ چاہتاہوں کہ اللہ اسے طاقت دے کہ اسی طرح ہم سب لوگوں کو  ایسے ہی بڑے پروگراموں میں خطاب کرتے رہیں اور وہ ہم لوگوں پر عنایت کرتے رہیں اور ہم ان کے ساتھ رہیں گے ۔ جہاں بھی لڑائی ہوگی سدا ان کا ساتھ دیتے رہیں گے ۔

شولاپور پولیس کمشنر بھوشن کمار اپادھیائے نے کہا کہ جس طرح اسلامک رسرچ سنٹر نے اسلام کو بڑے ہی سائنٹفک ڈھنگ سے سامنے لایا، ان کی کتابیں بھی جو نکلی ہیں کہ وہ کتابیں جب کوئی آدمی پڑھتا ہے تو اس کے من میں ایک صحیح پکچر آتا ہے ۔کہیں بھی کسی کے بارے میں کوئی نفرت نہیں ، کہیں بھی کسی کے بارے میں من میں دشمنی پیدا نہیں ہوتی ۔ اس لئے میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ ان کا جو مقصد ہے وہ کامیاب ہو، ہمارے ہندوستان میں ، پوری دنیا میں امن پھیلے ، قومی یکجہتی پھیلے ، قومی آہنگی پھیلے۔

ہندو پولیس کمشنر کی اس صراحت کے بعد بھی اگر کوئی ڈاکٹر صاحب پہ دہشت گردی کا الزام لگاتاہے وہ نرا متصب، حاسد، دشمن اور ملک کا فسادی عنصر ہے ۔

کمشنر صاحب نے جس سچائی کا اعتراف کیا ہے وہ عین حق ہے ۔ اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ سن 2003 میں اٹل بہاری کے دور میں جمووکشمیر میں جہاں بے جے پی کے پسندیدہ شخص ایس کے سنہا گورنر تھے ڈاکٹر ذاکر نائک کو کشمیر بلایا گیا تھا تاکہ وہاں کے نوجوانوں کے اندر سے دہشت گردی کی ذہنیت ختم کی جائے اور خالص امن کا راستہ دکھایا جائے ۔ اس ہندو گورنر نے راج بھون میں آپ کا والہانہ استقبال کیا ، وہاں انہیں روک کر مزید پروگرام کرایا گیا۔ جس بے جے پی سرکار نے آپ کو امن کا رہنما سمجھ کر امن قائم کرنے کے لئے بلایا ہو وہی لوگ آج دہشت گردی کا الزام دے ۔ بدیہی طور پہ سمجھ میں آتا ہےکہ انہیں پھنسایا جارہا ہے ۔ یہ حقیقت نہیں افسانہ ہے ۔

دلائل و براہیں ہزاروں ہیں مگر بطور استشہار ایک ہی دلیل کافی ہوتی ہے ۔ اور مجھے قوی امیدہے کہ اس بہانے نہ صرف ڈاکٹر صاحب کے لئے بلکہ اسلام کی نشر و اشاعت کے لئے ہندوستان سمیت پوری دنیا میں فضا ہموار ہوگی ۔ ان شاء اللہ

 ہم مسلمانوں کو  ایک ساتھ ہوکر تشدد پسند ہندو تنظیموں (آر ایس ایس، شیوسینا، بجرنگ دل وغیرہ) کے خلاف آواز اٹھانی چاہئے جہاں واقعی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بغاوت ، دشمنی، خون خرابے کی تعلیم دیجاتی ہے ، اپنے کارکنوں کو زہرافشا تعلیم کے ساتھ اسلحہ بازی سے بھی مسلح کیا جاتا ہے ۔ آج اگر سادھوی پراچی ڈاکٹر صاحب کے خلاف سر کاٹنے کی بات کرکے ہندو عوام کو اسلام کے خلاف دہشت گردی پہ ابھارتی ہے تو اس کا مطلب ہے  کہ سادھوی کی تنظیم اسی بات کی تربیت دیتی ہے ورنہ مذہبی رہنما کا بیان ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔ اور ایسی زبان بولنے والے تمام لوگوں پہ پابندی لگائی جائے جو امن کے خلاف تحریک پیدا کرتے ہیں ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔