مُلّا کی اذاں اور، مجاہد کی اذاں اور

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

ڈاکٹر محمد مرسی، سابق صدرِ مصر مظلومانہ شہادت کے بعد اپنے رب کے حضور پہنچ گئے، جہاں ہر ایک کو اپنے اپنے اعمال کے ساتھ حاضر ہونا اور حساب دینا ہے۔  ان کی ناگہانی وفات پر پوری دنیا میں شدید رنج و غم محسوس کیا گیا۔  مسلمانوں کے تمام طبقات نے اس واقعہ کی مذمّت کی، ان کی تعزیت کی اور ان کے لیے نمازِ جنازہ کا اہتمام کیا۔  ہندوستان میں بھی بہت سے مقامات پر غائبانہ نماز جنازہ پڑھی گئی۔  جماعت اسلامی ہند کے وابستگان نے بھی اس کا درد محسوس کیا اور مختلف طریقوں سے اس کا اظہار کیا، جن میں سے ایک نمازِ جنازہ بھی ہے۔  چنانچہ نئی دہلی میں مرکزِ جماعت کے کیمپس میں نماز جنازہ پڑھی گئی اور جامعہ اسلامیہ شانتاپورم (کیرلا) میں بھی، جہاں آج کل جماعت کی مرکزی مجلس شوریٰ کا اجلاس چل رہا ہے۔

اس موقع پر بعض حضرات نے مرسی کے بارے میں منفی احساسات کا اظہار کیا اور بعض نے دیگر باتوں پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔

ایک صاحب نے لکھا :

” آج مشہور اخوانی دہشت گرد کورٹ میں دورانِ ٹرائل دنیا سے رخصت ہوا۔  خس کم، جہاں پاک۔ "

کتنی عجیب بات ہے؟ جس جماعت کے ارکان مسلسل ریاستی دہشت گردی کا شکار ہوتے رہے ہوں، ہزاروں وابستگان کی جانیں لے لی گئی ہوں، 2013 میں اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد جس کے 6 ہزار سے زائد افراد کو گولیوں سے بھون دیا گیا ہو، اس پر دہشت گردی کا الزام عائد کیا جائے اور اس شخص کو ‘مشہور دہشت گرد’ کہا جائے جسے جابرانہ طریقے سے اقتدار سے محروم کرکے 6 برس تک قید و بند میں اذیتیں دی گئی ہوں۔  پھر اگر اس الزام کو مان بھی لیا جائے تو کیا اس سے ایسی گندی زبان استعمال کرنے کا جواز مل جاتا ہے؟ یقین نہیں آرہا ہے، کیا واقعی کوئی مسلمان الزام لگانے میں اس حد تک گر سکتا ہے؟

اس موقع پر’ غائبانہ نماز جنازہ ‘ کو ایشو بنا لیا گیا اور اس کے جواز و عدمِ جواز پر فتوے صادر کیے جانے لگے۔  اس موضوع پر فقہاء کا اختلاف مشہور ہے۔  امام شافعی اور امام احمد کہتے ہیں کہ کسی شخص کی غائبانہ نمازِ جنازہ پڑھی جا سکتی ہے، اس لیے کہ اللہ کے رسولﷺ نے نجاشی شاہِ حبشہ کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی ہے۔  امام ابو حنیفہ اور امام مالک اسے استثنائی واقعہ قرار دیتے ہیں اور اسے اللہ کے رسول کے ساتھ خاص کرتے ہیں۔  چنانچہ وہ غائبانہ نمازِ جنازہ کے قائل نہیں۔  کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ اس موقع پر فتویٰ بازی کے بجائے، جو لوگ اس کے جواز کے قائل ہیں انھیں عمل کرنے دیا جاتا۔

میں نے اپنی پوسٹ میں مرسی کے لیے ‘ شہید’ کا لفظ استعمال کیا تھا۔  ایک صاحب کو اس پر اعتراض تھا کہ جس شخص کی موت کمرۂ عدالت میں ہوئی ہو اسے ‘ شہید’ کیسے کہا جا سکتا ہے؟

میں نے وضاحت کرنے کی کوشش کی کہ ” یہ صرف جیل میں رکھنے کا سادہ معاملہ نہیں ہے۔  مرسی کو جیل میں بنیادی سہولیات سے محروم رکھا گیا، انھیں بیمار ہونے پر ڈاکٹر سے رجوع کرنے کا موقع نہ فراہم کیا گیا، جو دوائیں وہ پہلے سے لیتے تھے وہ بھی وقتِ ضرورت انہیں فراہم نہیں کی گئیں۔  اس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں جان بوجھ کر موت کی طرف ڈھکیلا گیا۔  اسی بنا پر انہیں ‘شہید’ لکھا گیا ہے۔  "

انہیں اطمینان نہیں ہوا۔  انھوں نے دوسرا اشکال یہ کیا کہ” شہید کی مختلف اقسام کے سلسلہ میں جو شرعی نصوص موجود ہیں ان میں سے کوئی بھی قسم اس توضیح سے میل نہیں کھاتی۔”

میں نے مزید وضاحت کی کہ ” ہر بات کی اصل قدیم فقہی نصوص میں تلاش کرنے کی زحمت نہیں کرنی چاہیے۔  یہ کامن سنس کی بات ہے۔  کسی کو گلا دبا کر قتل کردیا جائے، یا کسی کو مرض لاحق ہونے پر بہ جبر علاج معالجہ سے روک دیا جائے۔  دونوں ہی قتل ہیں۔  ایک active قتل ہے، دوسرا passive قتل۔  "

انھوں نے اس پر یہ تبصرہ کیا کہ” یہ سب ہوائی باتیں ہیں۔  شہادت اسلام میں ایک بہت بڑا درجہ ہے۔  کسی کو ‘ شہید ‘ ثابت کرنے کے لیے شرعی نصوص ہی کو اصل سند تسلیم کرنا چاہئے، کامن سینس نہیں۔  مرسی کے معاملہ کو ہمیں اللہ پر چھوڑ دینا چاہیے۔  اپنی طرف سے ‘شہادت’ کا سرٹیفیکٹ نہیں دینا چاہئے۔

میں نے عرض کیا کہ ” شرعی نصوص صرف ‘فقہ’ کا نام نہیں ہے، بلکہ اس سے قبل ‘حدیث’ کا نام ہے۔  اصل شہادت تو یہ ہے کہ کوئی شخص جنگ کرتے ہوئے کُفّار کے ہاتھوں مارا جائے، لیکن حدیث میں غیر فطری موت کی بیسیوں صورتوں کو ‘شہادت’ سے تعبیر کیا گیا ہے، مثلاً ڈوب کرمرنا، پیٹ کے مرض میں مرنا، زہر خورانی سے مرنا وغیرہ۔ "

موصوف برابر بحث پر آمادہ تھے۔  میں نے پیچھا چھڑانے کے لیے کہہ دیا : ” بس۔  اب مزید بحث کی ضرورت نہیں۔  آپ شہید نہ مانیں، مجھے ماننے دیں۔ "

انھوں نے بحث بند کرنے سے پہلے مجھ پر ‘اخوانی بھگت’ کا ٹھپّہ لگانا ضروری سمجھا۔ "

اس دنیا میں دو طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں : کچھ سمندر میں اتر کر سرکش موجوں کا مقابلہ کرتے ہیں تو کچھ ساحل کے تماشائی بنے رہتے ہیں۔  کچھ دین کے غلبے کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں تو کچھ خشک فقہی ترازو میں انھیں تولنے کی کوشش کرتے ہیں۔  کچھ اپنے خون سے شجرِ اسلام کو سینچتے ہیں تو کچھ ان پر سنگ باری کرتے ہیں۔

علامہ اقبال نے ایسے ہی لوگوں کے بارے میں کہا تھا :

الفاظ و معانی میں تفاوت نہیں لیکن
مُلّا کی اذاں اور، مجاہد کی اذاں اور
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
کرگس کا جہاں اور ہے، شاہیں کا جہاں اور

تبصرے بند ہیں۔